ایک نظر ادھر بھی یارو،
نجانے ہم پڑھے لکھے اور سمجھ دار لوگ کیوں جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا سے کوئی خبر کنفرم کرتے ہی نہیں، گزشتہ دنوں ایک پڑھے لکھے صاحب سے جھوٹی خبر پر میں نے کہا کہ کیا اپ ایسی جھوٹی خبروں سے پہلے تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے تو کہنے لگے نہیں میں یہ ضروری نہیں سمجھتا ہوں۔ یہ بستی والی بات تھی اس لیے میں نے کہا چلو لگے رہو، ایسے میں بندہ کس دیوار سے جاکر سر مارا ٹکرائے۔ ہمیں جس بندے سے نفرت ہو یا جسے مظلوم پیش کرنا ہو تو پھر ہمیں تحقیق کی کیا ضرورت ہوگی۔ بس ایک ٹولی اکھٹی کرنی ہوگی ان لوگوں کی جو اس جھوٹی خبر کے پھیلانے میں معاون ہو، تاکہ کسی کی بدنامی ہو یا پھر کسی کے حق میں ہمدردی سمیٹی جائے۔ اسی طرح تین چار دن پہلے کی بات ہے ایک سلجھی ہوئی پڑھی لکھی لڑکی جو کہ کافی روشن خیال بھی ہے اس نے ایک سیاسی لیڈر کو قادیانی نواز اور یہودی ثابت کرنے کی پوری کوشش کی۔ جب میں نے اسے کہا کہ اپ سے ایسی امید نہیں تھی تو اگے سے اس نے لکھا یہ میری وال ہے میں جو لکھوں میری مرضی اور اگلی پوسٹ داغ دی میں کہ میں وہی کروگی جسے جو تکلیف ہو مجھے پرواہ نہیں، حالانکہ میں کسی کی وال یا پوسٹ پر کمنٹ نہیں کرتا ہوں پر جو سلجھا لگتا ہے اور وہ ایسی حرکت کرے تو میں نہایت ادب کے ساتھ وہاں جاکر انہیں بتا دیتا ہوں کہ ایسا کرنا درست نہیں۔ یا ایسا کرنا اپکے اصولوں کے خلاف ہے۔ پر اپ کررہے ہیں۔ نجانے کیوں ایسے لوگ جب دوسروں کے کپڑے اتارنے پر اتے ہیں تو جھوٹ پہ جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں اور زاتیات پر تنقید کرنے پر اجاتے ہیں جبکہ عام طور پر خود کو سیکولر پیش کرتے ہیں کہ ہم شخصی ازادی کے قائل ہیں جب کوئی کسی کی نجی زندگی پر بات کرتا ہے تو یہ لوگ کہینگے چھوڑو وہ اسکی نجی زندگی ہے لیکن فیس بک پر خود اپنے ناپسندیدہ شخصیت کی نجی زندگی میں گھس کر اسکی عزت تار تار کرتے رہینگے۔ ایک مشہور کامریڈ خاتون جس نے حال ہی میں بہت سو کو متاثر کیا کیونکہ پی ٹی ایم میں ایکٹیو ہوئی۔ پھر الیکشن بھی اس نے لڑی اور ہارنے کے بعد ایک ویڈیو شیئر کی اور ساتھ میں لکھا افسوس یہ ہے نیا پاکستان۔ کیونکہ اس ویڈیو میں کچھ مردوں کے سامنے ایک لڑکی پی ٹی ائی کی ٹوپی پہن کر ناچ رہی تھی میں نے وہاں لکھا کہ اپ تو روشن خیالی کی بات کرتی ہو۔ اپ سے یہ امید نہیں تھی، اگر یورپ میں لڑکیاں ناچ سکتی ہے تو یہاں کیوں نہیں اور یہاں کیا جشن میں ایسا کرنا اپکی سوچ میں منع ہے پھر اپ کہاں کی مارکسسٹ ہوئی، اپ کی تو اگر حکومت اگئی جو تاقیامت ائیگی نہیں اگر کبھی ائی تو پھر اپ تو برقعے پہنا دینا۔ اور ناچ گانے پر پاپندی لگا دینا۔ اور ایک صاحب ریلوے کے جی ایم ہیں ادب کے حوالے سے ایڈ تھے کبھی کھبار ریلوے مسائل پر انہیں کسی پوسٹ میں مینشن کرتا تھا جسکا وہ نوٹس لینے کا کہتے مجھے بھی خوشی ہوتی کہ اچھے بندے ہیں۔ ایک دن ایک دوست نے رائیونڈ میں بننے والے نئے ریلوے اسٹیشن پر لٹکتی ہوئی تختی کی جانب توجہ دلانے کی کوشش کی کہ ابھی سے یہ حال ہے میں نے وہاں جی ایم کو مینش کیا تو اس بندے پر غصہ ہوگئے کہ اپ بلاوجہ حکومت کو بدنام کررہے ہو خیر لعنت بھیجتے ہوئے اس نے کہا یہ اسٹیشن ارمی بنا رہی ہے جب ارمی بنا رہی ہے تو انکا غصہ پھر فضول تھا خیر میں نے بڑے مودبانہ طریقے سے انہیں کہا اگر یہی سوال یا توجہ دلاؤ والی پوسٹ یورپ میں کسی ریلوے منسٹر سے کوئی کرتا تو کیا وہ یہ زبان استعمال کرتا تو سیدھا بلاک کرگئے۔ تب میں نے مان لیا یہاں کا افسر اخر افسر ہی ہوتا ہے اپنی اوقات تو ضرور دکھاتا ہے۔ خیر موجودہ تازہ واقعہ قطب رند کا ہے جو اچھا ارٹسٹ تھا فنکار دوست ہونے کی وجہ سے مجھے اسکے بیہمانہ قتل پر بہت دکھ ہوا ہے لیکن اس قتل کو نجانے کس شیطانی زہن نے توہین مذہب کا رنگ دے ڈالا۔ حالانکہ مقتول قطب رند کے قاتل دوست احسن کی اعتراف جرم کی ویڈیو موجود ہے جس میں وہ کہہ رہا ہے کہ بھنگ کے پاپڑ خریدنے کیلئے 120 روپے نہ دینے پر میری اس سے ہاتھا پائی ہوئی اور اس دوران میں نے اسے چھت سے نیچھے گرا دیا جسکی وجہ سے وہ مرگیا۔ اور پولیس اور مقتول قطب رند کی فیملی کا بھی یہی کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر یہ غلط خبر دی جارہی ہے کہ انہیں ہاسٹل مالک نے توہین مذہب کے نام پر قتل کیا ہے پولیس ملزم کو گرفتار کرچکی ہے۔ لیکن سوشل میڈیا پر ایک بنا تحقیق کے ایک طوفان شروع ہے کہ ایک اور مشال گیا۔ مجھ سے کافی احباب نے کہا کہ اپ نے ابھی تک ردعمل نہیں دیا میں نے کہا میں حقائق کا انتظار کررہا ہوں جلد بازی نہیں کرنا چاھتا۔ اگر ایک اور مشال گیا ہوتا تو میرا رد عمل بھی مشال کے قتل سے بھی زیادہ سخت ہوتا۔ پر ایسے حساس واقعات میں پولیس اور انکی فیملی کا موقف سننے کا انتظار کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اپ ایسے حساس واقعے کو بلا تحقیق شیئر کرنے سے پہلے سوچ لیں کہ اپکی وجہ سے انتہا پسندوں کو فضول میں خوشیاں منانے کا موقع مل جائیگا۔ فضول میں کوئی ہیرو بن جائیگا جس کیلئے ریلیاں نکالی جائینگی۔ اور توہین مذہب کا رنگ دیکر اپکی وجہ سے مقتول جو کہ گستاخ مذہب نہیں تھا انکی فیملی کا جینا حرام ہوسکتا ہے حتی کہ پھر مقتول کے قبر تک کو سیکورٹی دینی پڑیگی جیسے کہ اب مشال کے قبر کو سیکورٹی دینی پڑ رہی ہے۔ کیونکہ انتہا پسند مرنے کے بعد بھی معاف نہیں کرتے۔ ایسے حساس نوعیت کے معاملے پر بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت پیش اتی ہے کوئی اسے فنکار ہونے کا رنگ دے رہا ہے تو کوئی اسے سندھی ہونے کا رنگ دے رہا ہے کیونکہ مقتول کا گھر سندھ میں تھا تو کوئی اسے بلوچی رنگ دینے لگ گیا کیونکہ وہ بلوچ قبلے رند سے تعلق رکھتا تھا۔ جبکہ مشال تو پٹھان تھا پھر بھی اسے اپنے پٹھانوں نے مار ڈالا تھا۔ بہرحال حقائق جانے بنا کوئی بھی، بلکہ کسی بھی قسم کی خبر نہیں پوسٹ کرنی چاہیئے۔ لیکن کچھ لوگوں کہ عادت ہوتی ہے ملزم اقرار کرتا ہے کہ 120 روپے کے لیے مار دیا ہے پر وہ لوگ اپنی پوسٹیں پھر بھی نہیں ڈیلیٹ کررہے ہیں۔ میں اج ہر ایک کو بتا بتا کر تھک گیا ہوں لیکن چند ایک کے سوا باقیوں نے میری بات ان سنی کردی۔ خیر ایسے میں ائندہ کے لیے میرے پاس صرف ایک ہی اپشن بچا رہتا ہے کہ جو جان بوج کر روز ایسی ویسی یا کسی کے کپڑے اتارنے والی یا کسی کے نجی جیون میں گھس کر خود کو پارسا ثابت کرنے والی جھوٹی خبریں لگاتا ہے تو اگے انہیں مزید نہیں جھیلنا چاہیئے۔ اب ائندہ انہیں ایسی حرکات پر انفالو کردینا بہتر ہوگا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔