مسکا نجیب
ترجمہ: مشتاق علی شان
ایک عرصہ ہوا، ایک مدت ہوئی
یاد مجھ کو ہے سب، بھول پائی نہیں
اس امر سے تھی میں بے خبر
دید کی آخری ہے گھڑی
بعد اس کے بھلا
ایک دوجے کو ہم
دیکھ پائیں گے کب
ابا!
پھر نہیں آئیں گے
ابا کے گلے سے لپٹی ہوئی
چھوٹی بچی تھی میں بے خبر
مجھ کو معلوم کب تھا بھلا
زندگی ایسا کھلواڑ کر جائے گی
وقت ہر شے کو روک دے گا یہاں
تھاچھیانوے کا سال
اور ستمبر کا ماہ
ہاں اسی ستم گر ماہ کی
ستائیس تاریخ تھی
زندگی کا سفینہ رک گیا
پشتون قوم کی عظمت کی
رواں صدی تھم گئی
اور بابا کے زیست کی
ہر کڑی تھم گئی
زندگی اک مقام پر
تمام تر ہو گئی
گویا اک گھڑی رک گئی
مری چشمِ پرنم میں بیوہ ماں
آکر کھڑی ہو گئی
اور افغان عوام
ہو گئے سب یتیم
یعنی یہ جہاں
جم کے ساکت ہوا
میں اپنے بابا کو تھی تک رہی
راستے سارے آریانا کے
خون سے تھے بھرے
راستے سارے آری بنے
جن پہ بابا مرے
زخم در زخم تھے
اپنے لہو کا لگائے تھے خال
جنتی جھولوں پر سوار
اپنی وطن پرستی کی پاداش میں
جدائی نے ہمارے گھر کے آنگن میں
ایک دیوار حائل کر دی
گرم گرم اشکوں کا
سیلاب میرے چہرے پر
اور جہان کا چہرہ
گرد سے اٹا ہوا، چھپا ہوا
دنیا اس قیامت کو دیکھ رہی تھی
قوم کے ننگ و ناموس کے شہید
یا اس کی جرات کو دیکھ رہی تھی
پشتون منصور کو دار پر
یعنی اس جنت کو دیکھ رہی تھی
سامنےکالے کتوں کے
ہاں یہ بغاوت دیکھ رہی تھی
یا میرے بابا کی غیرت
پشتونولی کو دیکھ رہی تھی
دیکھو ابا زندہ ہیں
آریانا کے رستے میں
آزادی کے مورچے میں
خودمختاری کے مورچے میں
زندگی کے رنگوں میں
لوگوں کے دلوں میں رہتے ہیں
یہ حسن وجمال رنگ
کشید خوں کا کرتا ہے
یہ خون انقلاب کا
زندگی کے باب کا
یہ خوں کتابِ سرخ کا
یہ چشم، چشم گل میں
لہو تھا گل، گلاب کا
( اس اردو ترجمے کا ماخذ کامریڈ ڈاکٹر نجیب الله شہید کی بیٹی مسکا نجیب کی انگلش نظم کا پشتو trans creation ہے جو ہمدرد یوسفزئی صاحب نے کیا ہے. مشتاق علی شان)