ایک نیا ’ یوٹوپیا ‘
کہانی ؛ جیروم کے جیروم ، اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورّ
( کچھ مصنف کے بارے میں )
کلیڈ مور، واسال ، برطانیہ میں پیدا ( 2 مئی 1859ء) ہوا ادیب جیروم کلیپکا جیروم ( Jerome Klapka Jerome ) ایک مزاح نگار تھا اور اپنے مزاحیہ سفرنامے ’ Three Men in a Boat ‘ ، شائع شدہ 1887ء ، کی وجہ سے پہچان رکھتا ہے ۔ اس نے کئی ناول ، کہانیاں ، ڈرامے اور مضامین لکھے ۔ اس نے ’ My Life and Times ' نامی اپنی آپ بیتی بھی لکھی جو 1925ء میں سامنے آئی تھی ۔ وہ 14 جون 1927ء کو دماغ کی نس پھٹ جانے سے 68 برس کی عمر میں فوت ہوا ۔
وہ سیاست کو سنجیدگی سے نہیں دیکھتا تھا ؛ 25 برس کی عمر میں وہ خود کو ’ ٹوری‘ کہتا تھا ، اس نے لبرلز کی طرف سے نششت بھی ٹھکرائی ، آکسفورڈ یونیورسٹی لیبر پارٹی کا نائب صدر بھی رہا ۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے لندن کے ’ ایسٹ اینڈ ‘ میں غربت کا مشاہدہ بھی کیا تھا لیکن وہ ایک سوشلسٹ تھا یا نہیں ، اس پر نقاد مختلف آراء رکھتے ہیں ۔
اس کی کہانی’ The New Utopia ‘ پہلی بار 1891ء میں شائع ہوئی تھی ۔ اس وقت وہ 32 برس کا تھا اور دنیا میں ’ ریاستی استبداد ‘ (Totalitarianism) پر مبنی کوئی معاشرہ وجود میں نہیں آیا تھا ۔ اس کہانی کا پورا ٹیکسٹ اس کے 150 سالہ جشن ولادت پر شائع ہونے والی کتاب ’ Idle Thoughts on Jerome K Jerome ‘ میں بھی شامل ہے جو 2008 ء میں اس کے نام پر بنی سوسائٹی نے شائع کی تھی ۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ برطانوی مصنف جارج اورویل ( اصل نام ؛ ایرک آرتھر بلئیر 1903 ء تا 1950ء) ریاستی استبداد پرہپلا ناول ’ Animal Farm‘ سن 1945 ء میں جبکہ دوسرا ’ Nineteen Eighty-Four ‘ سن 1949 ء میں لکھ پایا تھا ۔ اس وقت تک دنیا میں جمہوریت کے علاوہ سوشلزم اور فاشزم کے تجربے عملی طور پر ہو چکے تھے ۔
کہانی ؛ ایک نیا ’ یوٹوپیا '
میری شام بہت اچھی گزری تھی ۔ میں نے ’ نیشنل سوشلسٹ کلب‘ میں اپنے کچھ بہت ہی روشن خیال دوستوں کے ساتھ کھانا کھایا تھا ۔ یہ کھانا کھمبیوں بھرے چکوروں پر مشتمل تھا جو ایک عمدہ نظم کی طرح شاندار تھا اور اپنی قیمت 49 فرانسیسی شاہی سکوں کا صحیح حق ادا کر رہا تھا ۔ میں اس کی تعریف اس سے زیادہ اور کیا کروں ۔
کھانے کے بعد ہم نے سگار ( یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ’ نیشنل سوشلسٹ کلب ' والے جانتے ہیں کہ اچھے سگاروں کا ذخیرہ کیسے کرنا ہے ) پیتے ہوئے مستقبل میں سرمائے کو قومیانے اور انسانوں کی برابری کے بارے میں مفید اور معلوماتی گفتگو کی ۔
میں اس بحث مباحثے میں کچھ زیادہ حصہ نہ لے سکا کیونکہ میں تو لڑکپن سے ہی دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کے لئے محنت مشقت میں لگ گیا تھا اور مجھے ایسے سوالات کے بارے میں مطالعہ کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا تھا ۔
میں نے ، البتہ ، وہ سارا کچھ بہت غور سے سنا جو میرے دوست بیان کر رہے تھے کہ ان کے آنے سے قبل ہزاروں صدیوں سے عدم مساوات اور دیگر خرابیاں اس دنیا پر موجود رہیں اور یہ کہ وہ اگلے کچھ سالوں یا لگ بھگ اتنے ہی عرصے میں یہ سب ٹھیک کرنے والے تھے ۔
تمام انسانوں کی برابری ان کا نعرہ تھا ۔ ۔ ۔ ہر شے میں کامل برابری ۔ ۔ ۔ ہر طرح کی ملکیت میں برابری ، رتبے و اثر و رسوخ میں برابری ، فرائض کی انجام دہی میں برابری اور ان سب کے نتیجے میں طمانیت اور خوشی میں برابری ۔
دنیا سب کے لئے یکساں تھی لہذٰا اس کی تقسیم بھی برابر ہونی چاہئیے ۔ ہر آدمی کی محنت اس کی ملکیت تھی ، صرف اس کی اپنی نہیں بلکہ ریاست کی بھی جو اسے کھلاتی پلاتی اور کپڑے مہیا کرتی تھی ، چنانچہ اس کا استعمال اس کی اپنی سرفرازی کے لئے نہیں بلکہ پوری نسل کی بھلائی اور بڑھوتی کے لئے ہونا چاہئیے تھا ۔
انفرادی دولت ۔ ۔ ۔ وہ سماجی زنجیر تھی جس نے ’ چند ‘ کو ’ بہت سوں‘ سے باندھ رکھا تھا ۔ یہ ایک ایسے رہزن کی پستول تھی جس کے ذریعے لٹیروں کے ایک مختصر ٹولے نے سب کو لوٹ رکھا تھا۔ ۔ ۔ اسے اُن ہاتھوں سے چھیننا ضروری تھا جنہوں نے اسے عرصے سے تھام رکھا تھا ۔
سماجی درجہ بندی ۔ ۔ ۔ وہ قیود تھیں جنہوں نے اس وقت تک انسانیت کو پریشان اور پابند کر رکھا تھا ۔ ۔ ۔ اسے ہمیشہ کے لئے ختم کرنا ضروری تھا ۔ انسانی نسل کو اپنے مقصد حیات ( یہ جو کچھ بھی تھا ) کی طرف بڑھنا ضروری تھا ، ایسے نہیں جیسے اِس وقت تھا ، اک منتشر مجمع کی طرح ، عدم مساوات کی بنیاد پر پیدائش اور قسمت کی ناہموار زمین پر ، ہر بندہ اپنے ہی لئے جلد بازی سے چلتا جائے۔ ۔ ۔ جہاں سبزہ زاروں کی نرم گھاس تو لاڈلوں کے لئے تھی جبکہ مظلوموں کے پیروں کے لئے چٹیل و سنگلاخ پتھریلے راستے ۔ ۔ ۔ جبکہ سب کو ایک منظم فوج کی طرح مساوات اور برابری کے ہموار میدان پر ایک ساتھ چلنے کی ضرورت تھی ۔
دھرتی ماں کے عظیم سینے کو اپنے سارے بچوں کی پرورش یکسانیت کے ساتھ کرنی چاہئیے تھی؛ یہ نہیں کہ کوئی بھوکا ہو اور کسی کو زیادہ ملے ۔ طاقتورکو اتنا ہی درکار تھا جتنا کہ کمزورں کو؛ چالاک کو جوڑ توڑ کرکے عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ اکٹھا کرنے کی ضرورت نہ تھی ۔ دنیا سب انسانوں کی تھی اور اس کی ہر شے کو برابر مقدار میں حاصل کرنا ان کا حق تھا کیونکہ انسانیت کے قانون کے مطابق سب انسان برابر تھے ۔
عدم مساوات کا غربت ، مصائب و الم ، جرم ، گناہ ، خود غرضی ، گھمنڈ اور منافقت سے چولی دامن کا ساتھ رہا تھا ، اگر دنیا میں لوگ برابر ہوتے تو برائی کی طرف کسی کا دھیان نہ جاتا اور ہماری فطری شرافت برقرار رہتی ۔ ۔ ۔ اوردنیا خدا کے ذلت آمیز استبداد سے آزاد ایک جنت ہوتی ۔
ہم نے ’مساوات ۔ ۔ ۔ مقدس مساوات ‘ کے نام پر اپنے جام بلند کئے اور انہیں پی لیا اور پھر بیرے کو بلا کر اسے سبز’ چارٹریوز‘ نامی شراب اور مزید سگار لانے کو کہا ۔
میں سوچ میں ڈوبا گھر گیا لیکن دیر تک سو نہ سکا بس لیٹا ، دنیا کو دیکھنے کے اس نئے ڈھنگ کے بارے میں سوچتا رہا جو میرے سامنے پیش کیا گیا تھا ۔
اگر میرے سوشلسٹ دوستوں کے خیالا ت کوعملی جامہ پہنایا جا سکے توزندگی کتنی حسین و دلشاد ہوجائے گی ، میں نے سوچا ، ایک دوسرے سے رگڑ اور آپسی مقابلہ ختم ہو جائے گا ، حسد مٹ جائے گا اورنا امیدی و غربت کے خوف سے بھی خلاصی ہو جائے گی ۔ پیدائش سے لے کر موت تک ریاست ہماری ذمہ داری اٹھا لے گی اور کھٹولے سے لے کر تابوت سمیت ہماری ہر ضرورت کا خیال رکھے گی اور ہمیں ان معاملات پر کوئی سوچ بچار کرنے کی ضرورت نہ ہو گی ۔ میری سوچ کا دھارا اور آگے بڑھا ؛ زیادہ مشقت بھی نہ کرنا پڑے گی ( تین گھنٹے؛ میرے دوستوں کے حساب کتاب کے مطابق ہر بالغ شہری کو صرف تین گھنٹے کام کرنا ہو گا ؛ روزانہ بس تین گھنٹے کی محنت ؛ اس سے زیادہ کسی کو زیادہ کام نہیں کرنے دیا جائے گا ۔ ۔ ۔ مجھے تو خاص طور پر اس سے زیادہ نہیں ۔) کسی غریب پر ترس نہیں ، کسی امیر سے حسد نہیں ۔ ۔ ۔ کوئی ہمیں حقارت سے نہیں دیکھے گا اور نہ ہی ہم کسی کو اس طرح دیکھ پائیں گے ( یہ دوسری والی بات کچھ زیادہ خوشگوار نہیں ہے ) ۔ ۔ ۔ ہماری زندگیوں کو ایک ترتیب دے دی جائے گی اور ان میں نظم پیدا ہو جائے گا ۔ ۔ ۔ اور سوچنے کے لئے صرف شاندار انسانیت اوراس کا مقصد ( یہ جو کچھ بھی ہو ) رہ جائے گا ۔
پھر میرے خیالات گڈ مڈ ہو گئے اور میں سو گیا ۔
****
****
عجیب بات ہے ! میرے ارد گرد سب کے چہرے اتنے دھندلے اور ایک جیسے کیوں ہیں ! اور میرا رہبر کدھر ہے؟ اور میں فٹ پاتھ پر کیوں بیٹھا ہوں اور ۔ ۔ ۔ سنو ! یہ یقیناً میری بوڑھی مالک مکان ، مسز بگلز کی آواز ہے ، کیا یہ بھی ہزار سال تک سوئی رہی ہے؟ یہ کہہ رہی ہے کہ دن کے بارہ بج رہے ہیں ۔ ۔ ۔ صرف بارہ ؟ اور میں ساڑھے چار بجے تک نہلایا نہیں جا سکتا ؛ جبکہ میں گندا پن محسوس کر رہا ہوں اور مجھے گرمی بھی لگ رہی ہے ۔ ۔ ۔ اور میرا سر بھی دکھ رہا ہے۔ اور ۔ ۔ ۔ او خدایا ! میں بستر پر کیوں ہوں ! کیا یہ سب خواب تھا ؟ اور میں واپس انیسویں صدی میں واپس آ گی