انھیں ڈر ہے کہیں کلثوم نواز کی موت پہ باپ بیٹی کو تھوڑی بہت ہم دردی بھی نہ حاصل ہو جاے. گر چہ موت بر حق ہے, اور کلثوم نواز کی موت میں کوئی سازش نہیں کہ کسی فرد کو دوش دیا جاے, تو اب کھمبا نوچتی بلیوں کا یہی کہنا باقی تھا کہ حسن حسین ماں کے جنازے میں کیوں شریک نہیں ہو رہے. اس طرح کی بات مذاق اڑانے سے زیادہ معنی نہیں رکھتی, اور پست ذہنیت کی نمایندہ سوچ ہے. ایک تو یہ کہ بیٹوں نے انگلینڈ ہی میں ماں کے جنازے میں شرکت کر لی, پاکستان میں آ کے جنازہ پڑھنے سے کلثوم نواز نہ لوٹ کے آنے والی ہیں اور نا ہی اس سے ان کی بخشش کا کوئی وسیلہ ہونے والا ہے.
اپنے تئیں طعنہ دینے والے, یہ چاہتے ہیں کہ حسن حسین پاکستان آئیں تو گرفتار کر لیے جائیں. پوچھنا یہ ہے ان سے کیا بر آمد کروا لیا جنھیں اڈیالہ میں بند کیا ہے. وہ اربوں ڈالر کیا ہوے جنھیں غیر ممالک سے پاکستان لانا تھا.
ایسے دل جلوں پہ واضح ہو کہ حسن حسین برطانوی شہری ہیں, انھیں گرفتار کر بھی لیا جاے تو اس پاکستانی نژاد برطانوی ٹیکسی ڈرائیور کی طرح چھڑوا لیے جائیں گے, جس نے یہاں پاکستان میں قتل کیا اور اسے پاکستانی عدالتوں سے پھانسی کی سزا ہو گئی تھی. احوال یہ ہے کہ ٹیکسی ڈرائیور کو اڈیالہ جیل سے لاہور ایئرپورٹ لے جایا گیا, جہاں حکومت برطانیہ نے خصوصی طیارہ بھجوایا تھا. پتا کیجیے اس وقت پاکستان میں کس کی حکومت تھی.
پھر یہ کہ ریمنڈ ڈیوس اور امریکی سفارت خانے میں متعین کرنل کی اس ملک سے جانے کی کہانیاں تو سب کے سامنے ہیں. چلیں حسین حقانی ہی کو روک دکھاتے.
بس آپ یہ دھیان میں رکھیں, ہمارے چیف جسٹس نے فرمایا تھا, مشرف پاکستان آئیں انھیں گرفتار نہیں کیا جاے گا; چیف نے راو انور کو عدالت میں پیش ہونے کے لیے کیا بیان دیا یہ سب تازہ ہے. اسی چیف جسٹس کو یہ کہنے کی توفیق نہیں 'دی گئی' کہ پھوٹے منہ کہ سکیں, حسن حسین جنازے کے لیے پاکستان آئیں تو گرفتار نہ کیا جاے. انھیں ایسا کہنا بھی نہیں چاہیے کہ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا. لیکن ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ الیکشن کے کاغذات جمع کروانے کے لیے مشرف کو نہ گرفتار کرنے کا بیان کس قانون کے تحت دیا تھا. مقصود مشرف کا پاس پورٹ بحال کروانے کے سوا کیا تھا, کچھ بھی نہیں.
تو یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون تا حال لاگو ہے. لاٹھی کا جواب لاٹھی ہی سے دیا جاے گا, مستقبل بھی یہی دکھائی دے رہا ہے.