سید مظفر حسین برنی نے 22، نومبر 1985 میں علی گڑھ مسلم یونورسٹی میں ایک خطبہ بعنوان "اقبال اور قومی یک جہتی" کے موضوع پر پڑھا۔ اس مقالے کو 1986 میں شعبہ رابطہ عامہ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ سے ایک کتابچے کی صورت مِں شائع کیا گیا۔ یہ مقالہ بڑا متنازعہ بھی رہا اور پاکستان اور ہندوستان میں گرما گرم مباحث، مکالمہ اور محاکمہ ہوتے رہے۔ اس مقالے پر ڈاکٹر وحید عشرت نے اپنے سخت ردعمل کا بھی اظہار کیا۔ ان کا یہ ردعمل اور تنقید اقبال اکادمی پاکستان، لاہور جنوری – مارچ 1988 کے جریدے " اقبالیات " { پچاسویں برسی کے خصوصی نمبر: مدیر: پروفیسر محمد منّور}میں شائع ہوا۔اس مقالے پر ڈاکٹر وحید عشرت نے لکھا ہے۔ "اس کتاب میں اقبال ہی کے بارے میں انتہائی غلط بیانی سے ہی کام نہیں لیا گیا بلکہ علم و تحقیق کے معروف اور مروّجہ اصولوں کی بھی نفی کی گئی ہے۔ اقبال کے پورے فکری تناظر کو ایک طرف رکھ کرجند جزوی باتوں، فقروں اور اقتباسات سے اپنی من مرضی کے مضمون کا استخراج کیا گیا ۔۔۔۔۔۔محب وطن اقبال اور اوبال اور قومی یک جہتی، پاکستان کے خلاف کے نظریات توڈ مروڈ کر پیش کرنے کی ایک غیر دیانتدارانہ سعی نامبارک ہے ۔۔۔۔ اس کتاب کا سب سے افسوسناک پہلو ایک مسلمہ حقیقت کا انکار ہے۔ پنڈت جوہر لعل نپرو، تھامپس اور مولانا راغب احسن کے حوالے سے پروفیسر حسن محمد نے اپنی کتاب" اقبال آن دی کراس روڈ"میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔{ صفحہ444۔445}۔
*** کچھ سید مظفر حسین برنی کے بارے میں ***
سید مظفر حسین برنی المعروف ایس ایم ایچ برنی ،بھارت کے معروف سول سرونٹ، اردو زبان کے نامور محقق، اقبال شناس اور دانشور تھے۔ ان کی مرتب کردہ کتاب کلیاتِ مکاتیبِ اقبال ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ وہ بھارت کی ریاست اوڑیسہ کے چیف سیکریٹری، ناگالینڈ، تریپورہ، منی پور، ہریانہ اور ہماچل پردیش کے گورنر اور بھارت کی مرکزی یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے چانسلر کے عہدوں پر خدمات انجام دیں۔مظفر حسین برنی قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین بھی رہے۔
سید مظفر حسین برنی کی ولادت 14 اگست 1923ء کو بلند شہر، اتر پردیش، بھارت میں ہوئی ۔ بریلی کالج{ یوپی} سے تعلیم حاصل کی اور انڈین ایڈمنسڑیشن سروس کے امتحان میں کامیاب ہوکر دفتر شاہی کا حصہ بنے۔ اور ترقی کرکے اوڑیسہ کے معتمد اعلی کے عہدے تک پہنچے۔ دورانِ ملازمت 1981ء سے 1984ء تک ناگالینڈ، تریپورہ اور منی پور کے گورنر اور 1987ء سے 1988ء تک ہریانہ اور ہماچل پردیش کے گورنر رہے۔ مظفر حسین برنی 1988ء سے 1992ء تک چوتھے اور پانچویں قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین بھی رہے۔ مظفر برنی کو 1990ء سے 1995ء تک جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے چانسلر کے عہدے پر فائزبھی رہے۔ اقبالیات کے موضوع پر ان کی تین کتابیں چھپ چکی ہیں خصوصاً چار جلدوں میں کلیاتِ مکاتیبِ اقبال ان کا دقیق کام ہے جس میں انہوں نے پہلے سے مختلف مجموعوں میں مرتبہ مکاتیب اقبال کو زمانی ترتیب وار یکجا کرنے کے علاوہ متعدد ایسے خطوط بھی شامل کیے ہیں جو کسی اور مجموعے میں شامل نہیں تھے اور بعض نئے خطوط بھی دریافت کیے۔ ان کی دیگر کتابوں میں محب وطن اقبال (1984ء)، اقبال اور قومی یکجہتی (1986ء) شامل ہیں۔ ان کی وفات 7 فروری 2014ء میں ہوئی۔۔ وہ تاحیات ایک متنازعہ نقاد اور محقق رہےکہا جاتا ہے ان کے علمی کاموں کو غیر محققانہ استدلال قرار دیا جاتا ہے جس میں مسلمہ حقائق کو نظر انداز کرکے غیر مصّدقہ روایات پر استور ہونے کی وجہ سے بہت ضعیف ہے۔ لگتا ہے ان کی کتاب " اقبال اور قومی یک جہتی" حاکمیت{ اسٹبلشمنٹ} کے اشارے پر لکھی گئی ہے۔ جس میں تمام دلیلیں اور فکری تجزیات ابہام اور تشّکیک میں قاری کو الجھا دیتے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...