(Pickthal Marmaduke William)
اسلامی نام محمد مارما ڈیوک پکتھال ہے۔17/اپریل1875ءکو لندن میں پیدا ہوئے،18/مئی1936ءکو کارن وال(Cornwall) میں انتقال کرگئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم لندن میں حاصل کی۔اپنی مادری زبان کے علاوہ اطالوی، جرمن،ہسپانوی اورعربی زبانیں سیکھیں۔1894ءمیں انہیں شام اور مصر میں زندگی گزارنے اورمسلمانوں کی تہذیب وثقافت کو قریب سے دیکھنے اورعلوم اسلامیہ کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔وہ ان سے اتنا متاثرہوئے کہ اپنے تاثرات کو اپنی تصنیف Oriental encounters میں بیان کیا ہے۔انہوں نے اسلامی طرز زندگی کے حوالے سے ایک عمدہ ناول بعنوان Said the Fisherman” ماہی گیر سعید“لکھاجس کا یورپ کی کئی زبانوں مثلاً فرانسیسی،جرمن اورڈینش میں ترجمہ ہوا۔دوسری بار مصر وہ1904ءمیں لارڈ کرومرکی دعوت پر گئے،کچھ مدت بیروت میں بھی رہے جہاںوہ عربی بولنے کی مشق بھی کرتے رہے۔1913ءمیں پکتھال ترکی کی سیاسی اور سماجی زندگی کے مطالعے کے لیے وہاں گئے یہ وہ زمانہ تھا جب ترکی جنگ عظیم اول کی دہلیز پر کھڑا تھا۔اس کے بعد پکتھال نے اسلام قبول کرلیا اورعمر بھر اسلام کی تبلیغ اور اشاعت میں کوشاں رہے۔
جنگ عظیم کے دوران ان کی تین کتابیں شائع ہوئیں۔جنگ عظیم اول کے بعد وہ کچھ عرصے لند ن میں ادارۂ معلومات اسلامی(Islamic Information Bureau) سے منسلک رہے۔1920ءکے اواخر میں پکتھال بمبئی کے ایک صاحب دل شخص عمر سبحانی کی دعوت پر بمبئی گئے اور بمبئی کرونیکل(Bombay Chronicle) کے مدیر مقرر ہوئے اور1924ءتک اس کی ادارت سے وابستہ رہے۔اس کے بعد ڈاکٹر سر راس مسعود اور سر اکبرحیدری کی دعوت پر وہ نظام دکن کے محکمہ تعلیم میں ملازم ہوگئے اور انہیں چدرا گھاٹ ہائی اسکول کا پرنسپل مقرر کیا گیا۔اسلامک کلچرنامی ایک سہ ماہی رسالہ نکالاجوہندوستان میں علمی حلقوں میں بہت مشہور ہوااوردس برس تک اس کی ادارت انجام دیتے رہے ۔اکتوبر1928ءمیں نظام دکن نے پکتھال کودو برس کی رخصت دی تاکہ وہ قرآن مجید کے انگریزی ترجمے کی تکمیل کریں جب انہوں نے یہ ترجمہ مکمل کرلیا تواُسے لے کر قاہرہ گئے جہاں انہوں نے احمد بے الغمراوی اورجامعہ ازھرکے شیخ (ریکٹر)مصطفی المراغی کے صلاح مشورے سے اپنے مسودے پر نظرثانی کی۔اس کے علاوہ دیگر عرب علماءسے بھی برابرمشورے کرتے رہے۔قرآن کریم کایہ انگریزی ترجمہ The Glorious Quran کے نام سے 1930ءلندن اورنیویارک سے شائع ہوا۔اس کے بعد کئی دفعہ متن کے ساتھ یا عربی متن کے بغیر شائع ہوچکا ہے یہ ترجمہ صحت،سلاست اورفصاحت کے لحاظ سے مقبول ترین تراجم میں شمار ہوتاہے۔ 1930 کا شائع شدہ نسخہ میرے دادا سسر، منور ظہیر صاحب نے 1934 میں خریدا، یہ عربی متن کے بغیر ہے۔منور ظہیر صاحب کی بہت ہی شاندار لائبریری تھی، ان کے انتقال کے بعد یہ نسخہ میرے سسر شاہد ظہیر صاحب کے پاس آیا اور یوں مجھے ملا ۔پوسٹ میں جو تصویر ہے وہ اسی نوے سال قدیم نسخے کی ہے ۔
اس میں تعارف کے طور پر پکتھال نے دو فصلیں قائم کی ہیں، پہلی فصل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں نزول قران، اور دوسری فصل میں رسول اللہ کی مدنی زندگی میں نزول قران کی تاریخ بڑے دلکش انداز میں بیان کی گئی ہے ۔
پکتھال نے زندگی کے آخری سال اسلامک کلچرکی ادارت،چدراگھاٹ ہائی اسکول کی پرنسپل شپ اور آخر میں نظام دکن کے چھوٹے بھائی صاحبزادہ بسالت جنگ کے دفتر میں گزارے۔وہ پہلی راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں شرکت کے لیے حیدرآبادی مندوب کی حیثیت سے لندن گئے۔
جنوری1935ءمیں وہ حیدرآباد ایجوکیشن سروس سے مستعفی ہوکراپریل میں لندن چلے گئے۔اپنی زندگی کا آخری موسم سرما انہوں نے کارنوال میں گزارا جہاںوہ اپنی بعض تصانیف پر نظرثانی کا کام کررہے تھے۔انہوں نے اشاعت اسلام کے لیے ایک انجمن کی بنیاد بھی ڈالی۔ بروز منگل18/مئی1936ءکو ایک مختصر علالت کے بعد انتقال کرگئے انہیں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔
پکتھال کی بیس سے زائد تصانیف ہیں، جن می سفر نامے اور ناول بھی شامل ہیں ۔
“