زندگی ایک سفر ہے اور انسان ایک مسافر۔ تھائی لینڈ کے رنگ کے مسافر ڈاکٹر الطاف یوسفزئی راہ علم اور راہ جستجو کے بھی مسافر ہیں اور اسی شوق و لگن کی وجہ سے ایچ ۔ای۔سی نے انہیں تھائی لینڈ کے دورے کیلئے منتخب کیا اور زیر نظر سفر نامہ ’’تھائی لینڈ کے رنگ‘‘ ڈاکٹر الطاف صاحب کی بہترین تخلیقی کاوش ہے جس میں تھائی سرزمین کے مذہب، سیاست، تہذیب، اخلاقیات، بادشاہت اور تعلیم کی رنگا رنگ دنیائیں سموئی ہوئی ہیں ۔ ڈاکٹر موصوف کی مشاہداتی نظر ایک سیاح کی نظر ہے اور چار اطراف میں بظاہر سرسری دوڑتی مگر بھر پور مشاہدہ کرتی جاتی ہے ۔ انتہائی قلیل وقت اور مختصر سفری دورانیے میں انہوں نے اس سفری دستاویز کے ذریعے جو تھائی رنگ نمایاں کیے ہیں وہ ہر اس فرد کو بھر پور معلومات فراہم کر رہے ہیں جس نے صرف تھائی لینڈ کا نام سنا ہے اور اس سے بڑھ کر وہ کچھ بھی نہیں جانتا مگر اس سفرنامے کے پڑھ لینے کے بعد ہر قاری دعوٰ ی دار ہے کہ وہ تھائی تہذیب سے ضرور واقف ہے اور یہ ہی ڈاکٹر الطاف صاحب کی اصل مہارت اور کامیابی ہے ۔
ڈاکٹر صاحب کا خاصہ ہے کہ ان کا انداز جانبدار اور متعصبانہ نہیں رہا تھائی لینڈ کی سیاست اور بادشاہت کے انداز کی غیر جانب داری اور مکمل صادق رویوں کے ساتھ عکاسی کی ہے ۔ بادشاہ نے جو اقتصادی نظام وضع کیا اور زرعی اقتصادی اصطلاحات لاگو کیے ہیں قابل توجہ ہیں ۔ بادشاہت بھی ہے، سیاست بھی ہے ، پارلیمنٹ بھی اور فوجی حکمران بھی۔ اس وجہ سے ڈاکٹر صاحب کو یہاں بھی اجنبیت محسوس نہیں ہوئی کہ ان کے اپنے دیس میں یہی انداز دکھتے ہیں۔ ہاں فرق یہ ہے کہ وہ لوگ اپنے بادشاہ سے حد درجہ محبت کر تے ہیں۔ بادشاہ کا علمی ترقی پر نظر رکھنا اور موسیقی سے خاص شوق سراہے جانے کے قابل ہے ۔
مغربی تہذیب کے متعلق ایک عام ذہن کی سوچ آزادانہ روی کی عکاسی کر تی ہے ۔ ’’تھائی لینڈ کے رنگ‘‘ میں یہ سوچ بہت نمایاں ہے ۔ تھائی ائیر ہوسٹسوں کی تھائیوں کا ذکر ہو یا باٹ اور سونا اگلتی ہوئی جاگتی راتیں یا ’’بوم بوم‘‘کر تی بے لباس حسین دوشیزائیں یا مساج سنٹر جہاں ہر نوع کے مساج ہوتے ہیں یا جنس کو نظریہ ضرورت کے طور پر اختیار کرنا۔ ان سب کے بیان میں مسافر نے نہ ہی مبالغے سے کام لیا اور نہ ہی حقیقت کے بیان کرنے میں کسی پردہ پوشی کا سہارا لیا مگر ایک بات صاف اور عیاں ہے کہ دیارِغیر میں اپنے دامن کو درویشانہ انداز میں بچا لینا کس قدر جان جو کھوں کا کام ہے اس ضمن میں اگر سفرنامہ نگار کو مشرقی درویش کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔
’’اس حالت میں نظر چرانا اور جسم و جان بچانا فیض صاحب کی طرح ہمارے لیے بھی ممکن نہیں تھا۔ جگر لخت لخت کو خوب سمجھایا کہ یہ تو کچھ بھی نہیں فردوس میں اس کے بدلے ہمیں کئی حوریں ملیں گی۔ مگرد ل ہے کہ مانتا نہیں اور ضدی بچے کی طرح بار بار سرہلا کر کہتا ہے کہ حسن انسان سے نپٹ لوں تو ادھر تک دیکھوں۔ خدا خبران بنات النعش کو سر شام عریاں ہونے کی دھن کیوں سمائی تھی۔ میںنے ہمراہی سے کہا اس سے پہلے کہ ہم شکم خوری کے لیے نکلے ہیں کہیں حوّا خوری کا شکار نہ ہو جائیں اس لیے یہاں سے بھاگنے ہی میں عافیت ہے۔‘‘
پٹھان ہونے کے ناطے ڈاکٹر صاحب نے وہاں موجود پٹھانوں ان کے خاندانوں، محلوں، شہروں کا ذکر بھی دلچسپ انداز میں کیا ہے اس کے علاوہ کثیر مقدار میں ان پاکستانیوں کا ذکر بھی کیا ہے جو عرصہ دراز سے تھائی لینڈ میں آباد ہیں اور نمایاں مقام پر بھی فائز ہیں۔ پھر بالخصوص وہاں کی مسلمان آبادی، مساجد، کمیونٹی سینٹرز اور مسلمانوں کی مذہبی سرگرمیوں کو قریب سے دیکھا اور خوش دلی سے بیان کیا۔ نیز بنگالیوں کی معتصبانہ رویوں اور عربوں کی شاطرانہ چالوں کو بھی لطیف انداز میں بیان کر گئے۔ تھائی لینڈ میں عورت کو جس جبر اور استحصال میں رکھا گیا ہے اور وہاں اخلاقی رویے جس گراوٹ کا شکار ہیں ڈاکٹر الطاف نے ہمدردی کا اظہار کر تے ہوئے وہاں کے باسیوں سے مکالماتی انداز میں سمجھنے سمجھانے کی بہترین کوشش کی۔
’’تھائی لینڈ کے رنگ‘‘ پڑھنے کے دوران سب سے متاثر کرنے والی چیز ڈاکٹر الطاف یوسفزئی کا اسلوب ہے۔ جاندار، شگفتہ رواں اور دلچسپ اسلوب نے سفرنامے جیسی ادبی صف کو مزید پرتوں سے روشناس کرایا ہے۔ شعر و شاعری کا شغف اور دوران تحریر شاعری کا بیان اور زبان زدوعام اشعار کو نثری انداز میں ڈھال کر دلآویز تصویر سامنے لاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا اسلوب بیان بلاشبہ ایک منجھے ہوئے ادیب کے انداز تقریر سے کسی لحاظ سے بھی کم نہیں ہے سب سے زیادہ متاثر کرنے والی خصوصیت حس مزاح ہے۔ بات سے بات نکالنا اور بات بات میں مزاح کے پہلو تلاش کرنا اور ایک خاص سنجیدہ گفتگو کے دوران رگ ظرافت کا پھڑکنا اور مزاحیہ فقرہ جڑ دینا کچھ ان ہی کا خاصہ ہے۔ چند دلچسپ انداز تحریر کیے جاتے ہیں۔
’’نیرو من کا لباس انتہائی سادہ ہوتاتھاتیس دنوں کی اس ٹریننگ میں انہوںنے صرف تین شرٹس تبدیل کیں جب کہ ہمارے ساتھ آئی ہوئی بعض خواتین ایک دن میں تین دفعہ لباس تبدیل کرتی تھیں ‘‘۔
’’ میں نے پوچھا کیا بچے جننا ترقی نہیں‘‘ ’’میرے نصیب میں تو یہ بھی نہیں ‘‘ محترمہ نے پھیکا سے منہ بنا کر روکھا جواب دیا ۔بعد میں معلوم ہواکہ موصوفہ کو شادی کیے کئی برس بیت گئے ہیں مگر آنگن میں کوئی ہریالی نہیں اس لیے جب دواداروسے کام نہ چلا تو پیری و پرہیز گاری میں پھنس گئی‘‘۔
’’ تیسری دنیا کے تقریباً ہر ملک میں یہی ڈراما کھیلا جارہا ہے ۔ نیٹ، مکالمے اور ماسک کی وقتی اور مقامی تبدیلیوں کے ساتھ اور شاہد اسی لیے یوسفی جب اعوذبااللہ من الشیطٰن الرجیم کہتے ہیں تو جیسے رجیم سے یہی Ragimeمرادلیتا ہو‘‘۔
ڈاکٹر الطاف نے موقع محل کی مناسبت سے مشتاق احمد یوسفی کے نثری فن پاروں کو جس کمال مہارت سے پیش کیا ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ نثری ٹکڑے اسی موقع کے لیے تحریر کیے گئے ہیں۔ غالب اور فیض کے اشعار کو تو نثر میں یو ں کھپاتے ہیں کہ ان کے کلام کی ایک اور نئی پرت سے روشناس کر ادیتے ہیں منظر نگاری نے ان کی تحریر پر عبور اور گرفت کو ثابت کیا ہے۔
’’ اتنے وسیع رقبے پر اتنا دلکش اور جاذب نظرباغ میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھا ۔ یہاں پودوں کو اس ہنر مندی سے کاٹا گیا ہے کہ اس سے بہت سے جانے انجانے جانوروں کی شکلیں نمایاں ہوتی ہیں۔ شیر، زیبرا، گھوڑا، ہرن ، ہاتھی ،زرافہ، آبی جانوروں اور پرندوں کی انواع و اقسام شکلیں پودوں کو خاص تراش خراش اور پیچ و خم دے کر پارک میں اس انداز سے ظاہر کی گئی ہیں کہ دور سے بعض جانور بالکل اصلی حالت میں نظر آتے ہیں۔ ہاتھی کو کمال مہارت سے چھوٹی اور بڑی شکلوں میں ان درختوں کی تراش خراش کی مدد سے نمایاں کیا گیا ہے ‘‘۔
مگر جس بات نے قاری کو بہت زیادہ متاثر کیا وہ ڈاکٹر صاحب کے ہاں موازنے کی کیفیت ہے تھائی لینڈ میں ان کی گائیڈ نیرومن اور ایچ ۔ ای ۔ سی کی نور آمنہ کا تقابل بہترین ہے ۔
’’ اپنے کا م میںمستعدی اور تکمیلیت پسندی کی خواہش میں دن رات مگن نیرومن اگر برف ہے تو نور آمنہ نار ایک میں حدت ہے تو دوسری میں شدت ،ایک طلائی تو دوسری نقرئی، ایک شعلہ فگن تو دوسری اجلی اور نورانی،دونوں معمولات زندگی کے لیے درکاراور کار آمد، انتہائی سادہ لباس میں ملبوس اتنی سادہ و پُرکاراور باہمت خواتین جلال، جمال اورجہاد زندگانی میں یقین محکم، عمل پہم اور محبت فاتح عالم کی شمشیروںسے لیس ، زندہ ہوں تو مہان اور گزر جائیں تو تہہ خاک، ازمن و توزندہ تر‘‘۔
اسی طرح تھائی بادشاہوں سے ان کی عوام کی محبت اور ہمارے حکمرانوں سے یہاں کی عوام کا تنافر مہارت اور سلیقے سے پیش کیا ہے۔ وہاں کے بادشاہوں کا تعلیمی اداروں سے تعلق اور پھر اپنے ہاں تعلیمی انحطاط کا موازنہ بھی خاصے کی چیز ہے ۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی اور تھائی لینڈ میں اسراف کا خوبصورت نقشہ کھینچا گیا ہے۔ وہاں کے مالش کے خوبصورت انداز اور اپنے ہاں لاہور یوں کے نام نہاد مالش کے فرق کو ہلکے پھلکے انداز میں پیش کیا ہے۔
سفرنامے کے انجام نے ہر حساس قاری کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کر دیا ہے۔ تھائی تہذیب ، سیاست، بادشاہت اور عسکری قیادت کی ہمارے دیس کے ساتھ یکسانیت بھی ہے مگر ان سب کے باوجود یہ ملک دوسرے ممالک میں اپنا نام اور الگ شناخت بنانے کے بعد ترقی کی شاہراہ میں آگے اور ہم سے تو بہت آگے نکل گئے ہیں اور ہماری حالت کیا ہے ڈاکٹر الطاف یوسفزئی کے حساس دل نے اس حالت کو خون کی روشنائی سے تحریر کیا ہے۔
اب تھائی لینڈ دنیا بھر میں معروف ہے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ معرفت اچھے معنوں میں ہے پھر میں پاکستان کے بار ے میں سوچتا ہوں تو سر جھکا لیتا ہوں کیوں کہ دنیا والے ہمیں اتنے اچھے معنوں میں یاد نہیں کیا کرتے ہیں ویر ویٹ جو کی باتیں اپنے ذہن میں دہراتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ واقعی ہم نے نئی املاک اور اچھی ساخت کو تباہ وبرباد کر دیا ہے تھائی عوام نے نئی دنیا کے ساتھ بہتر شناخت کے ساتھ قدم ملایا اور ہم سے آگے بلکہ بہت آگے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہوئے ‘‘۔
ڈاکٹر الطاف یوسفزئی کا یہ دلچسپ سفرنامہ کثیر الجہتی موضوعات کی بنا پر قاری کو کامیابی سے اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور بے ساختگی اور برجستگی کے ساتھ ساتھ آسان اسلوب کی بنیاد پرادبی حلقوں میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔
حوالہ جات
۱۔ ڈاکٹر الطاف یوسفزئی ، تھائی لینڈ کے رنگ ، مثال پبلشرز فیصل آباد ، ۲۰۱۶، ص ۳۲
۲۔ ایضاً ، ص ۶۱
۳۔ ایضاً ، ص ۲۶
۴۔ ایضاً ، ص ۲۸
۵۔ ایضاً، ص ۳۱
۶۔ ایضاً، ص ۷۰
۷۔ ایضاً ، ص ۲۷
۸۔ ایضاً ، ص ۸۰