ابھی بہت اندھیرا ہے ! اور میرے پوتے نے مجھے جگاکر جنم دن کی مبارک دی ہے۔ پھر میری گود میں لیپ ٹاپ رکھ کر میرے شانوں سے چپک کر وہ میری دلچسپیوں میں شامل ہو گیا ہے۔
خوش ہوں کہ کورونا وائرس کی بندش سے الگ تھلگ ہونے کے باوجود آج میں فیس بک کے کرشمات سے اپنے پڑوسیوں سے تو کیا اپنے ملک اور بیرونی ممالک میں آباد شناسا اپنوں اور غیر شناسا اجنبیوں سے ملنے کا شرف حاصل کر چکا ہوں۔ مبارکبادی کے پیغامات سن کر، پڑھ کر اور ویڈیو دیکھ کر میں انکی شادمانی کو اظہارات میں اپنایت کےسہانے کرب کو محسوس کر رہا ہوں۔
یہ میری خوش بختی ہے کہ تیس برس پہلے، میری ہی طرح اپنے گھر سے اکھڑ چکے ہم عصروں نے روبرو ہوکر مجھے اپنے آبائی وطن سے جوڑ دیا ہے۔ کشیپ رشی کے کشمیر ميں صدیوں سے آباد موروثی بسکین سے جڑی میری یادیں تازہ کر دی ہیں۔
1990 میں ہجرت کے بعد بھارت، امریکا اور آسٹریلیا کے مختلف شہروں میں چین سےزندگی گزارنے والا کوئی میرے اسکول اور کالیج کی یادیں تازہ کر چکا ہے تو کوئی محلے میں اکثر مچھلیاں بیچنے والی، دریا کنارے رسد دینے والے بہت بڑی ناوکا ذکر چکا ہے۔ کوئی ہمارے محلے کے بازار میں اپنائیت کا احساس دلانے والے سبزی، گوشت اور دودھ فروش کی نقلیں اتارنے والے نائی کی یاد دلا چکا ہے۔ کوئی ساتھ کام کرنے والے افسروں و ملازموں کے حوالوں سےنیکی اور بدی کے کھٹے میٹھے تجربات کا ذکر کرتے ہوئیے مجھے چھوٹی بڑی ان خوشیوں کا احساس دلادیا ہے جو اب عالیشان جدید بستیوں میں رہ کر نہیں مل پاتی ہیں۔ نتیجا" اپنے سبھی دوستوں کی خواہشات سے ہم آہنگ ہوکر دل چاہتا ہے کہ جہاں میں نے اپنی اسّی برس کی عمرمیں پچاس سال بسر کئے ہیں وہیں زندگی کی شام ہوجائے۔
خوش ہوں کہ میری دلچسپی سے متاثر ہوکر میرا پوتا میرے شانوں سے چپک کر فیس بک پر آ رہے میرے دوستوں کے پیغامات پڑھتا رہتا اورویڈیو دیکھتا رہتا ہے اور لڑکپن کے تجسّس کو نظر انداز کرتے ہویے وہ میرے 60۔80 کی عمر کے دوستوں کے سبھی پیغامات دیکھ رہا ہے۔ انگریزی میں لکھے جملے وہ خود پڑھ لیتا ہے جبکہ اردو میں بھیجے گیے پیغامات میں پڑھ کر اسکو سنا تا ہوں۔
جب کسی ویڈیو میں کوئی نیا/پرانا کشمیری نغمہ بجتا ہے تب وہ میرے ساتھ گنگنا کر اپنے کشمیری ہونے کے فخر کو عیاں کرتا ہے اور میری دلچسپی سے ہم آہنگ ہوکر بیشتر پیغامات کو اپنے تجسّس کا مرکز بنا لیتا ہے۔ اسکی یہ کیفیت بھانپ کر میں اسکو صدیوں پرانی کشمیری روایات کی جانکاری دینے کی خاطر مقامی حکایتیں سنا دیتا ہوں۔ میری صلاحیتوں پر بیشتر دوستوں کے قصیدے سنکر اسکا پیار امنڈ کر ایک عمدہ جنونی اظہار بن جاتا ہے۔ مگر مجھے 'کشمیر کا گوگل' کا لقب دینے والا،میرے شانوں سے چپک کر، میری گود میں رکھے لیپ ٹاپ پر اپنی نگاہیں جمی رکھنے والا میرے بچپن سے جگری دوست خالد کے ویڈیو کو دیکھ کر وہ اچانک چونک پڑا ہے۔ اور میں اپنی پسند پر حیران ہونے والےپوتے کو یہ سمجھا نہیں پا رہا ہوں کہ میرا ہمدرد یار مجھے گویا صحرا میں چلتے چلتے کوئی نخلستان دکھا کر ہم دونوں پر کرم کر رہا ہے۔ یا سراب دکھا کر ستم کی اطلاح دے رہا ہے۔
اسکی سراسیمگی کے اظہار کو نظر انداز کرتے ہویے جو ویڈیو بار بار دیکھ رہا ہوں وہ خالد نے مجھے میرے جنم دن پر خاص طور پر بھیجا ہے۔ خالد اور میں ایک ہی دن پیدا ہویے تھے۔
خالد کا ویڈیو ایک مختصر دستاویزی فلم ہے۔ آغاز میں دریا کنارے ایک قدیم شو مندر سے جڑا وہ گنجان محلہ یاد آتا ہے جہاں میراہم عمر دوست خالد میرا پڑوسی تھا۔ آغازمیں ایک لمبے کوچے کے دونوں طرف مکانوں کی نمائیش سے ہمارے گنجان محلے کی شناخت کی گئی ہے جہاں خالدتیس برس پہلے شناسا ہندوؤں کے ساتھ رہنے والا واحد مسلمان تھا۔ تب وہ میرا ہم نفس نیک پڑوسی ہوا کرتا تھا۔ ویڈیو میں شامل مسلمانوں کے گنجان گاؤں کی نمائش کی گئی ہے۔ وہاں موجود بہت بڑا ہندوؤں کا واحد مکان تیس برس پہلے میرے مرحوم نانا کا گھر ہوا کرتا تھا۔
آخر میں بیشتر اردو، انگریزی اور کشمیری اخباروں کے تراشوں کا ایک غور طلب کولاج ہے۔ اور اس سنسنی خیز خبر کی اطلاح دے رہا ہے "1990 میں دہشت گردی کی بربریت سے اپنے موروثی گھروں سے اکھڑے لاکھوں کشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی! مرکزی سرکار کا اعلان۔۔۔!!" ۔کولاج کی نمائیش کے بعد خالد کی آواز ابھر کرسنائی دے رہی ہے۔
" اوتار میرے یار! خوش ہوں کہ ہم تیس برس بعد اپنے یوم پیدائش پر مل پائے!۔کہاں ہو۔۔۔؟ ۔۔۔ نوئیڈا میں یا نیو یارک میں۔۔؟ بغلگیر ہونے کو جی چاہتا ہے! اپنے وطن کی یاد آرہی ہے تو لوٹ کر آجاؤ۔ ساتھ رہکر اپنا بڈھاپا گزارین! مگر ر ہینگےکہاں ۔۔؟ تمہارا صدیوں پرانا گھر ایک بک چکا مکان ہے اور گنجان گاؤں میں تمہارے نانا کا گھر ایک مہاجر کا ویران مکان ہے ۔۔۔!
تمہارا اپنا ہوں اسلیے تصویریں بھیج کر زمینی حقیقت عیاں و بیاں کر رہا ہوں۔ تم بتادو کہ اخباروں کی سرخیوں میں صداقت کی مٹھاس ہے یا سیاست کی کڑواہٹ۔۔۔؟ جواب کا منتظر ۔۔۔!"
پچاس برس ساتھ ساتھ گزارے دنوں کی یادیں اکثر تنہائیوں کا احساس دلا رہی ہیں۔ شہر اور گاؤں کی یہ تصویریں حقیقت کو عیاں و بیاں کر رہی ہیں۔ گھر واپسی کے بارے میں اخباروں کی سرخیاں دیکھ کر جان نہیں پاتا کہ اطلعات میں صداقت کی مٹھاس ہے یا سیاست کی کھٹاس۔۔؟
اب شام ہو چکی ہے۔ اور میں دن بھر بار بار لیپ ٹاپ کھول کر دیش بدیش سے آ چکے شناسا اپنوں اور غیر شناسا اجنبی فیس بک کے سبھی دوستوں کے پوسٹ کئے پیغامات پڑھتا رہا اور ویڈیو دیکھتا رہا۔ مگر خالد کا ویڈیو دیکھ کر میری کھوج سکتے میں آ جاتی ہے۔ میرا پوتا میری دلچسپی سے اوبھ کر کب کا چلاگیا ہے۔ مگر میں شہر میں اپنے پشتینی مکان اور گاؤں میں اپنے نانا کے قدیم مکان کوکھوجتی نگاہوں سے ٹکٹکی لگاکر دیکھ رہا ہوں۔ ایک بک چکا مکان ہے اور دوسرا ایک ویران مکان ہے ! اور میں دونوں میں ماضی کے عکس دیکھ کر اپنے کھو چکے وجود کو تلاش کر رہا ہوں ۔۔۔ !!!