اب سے ستر برس پہلے میں نے حساب پڑھانے والے ہیڈ ماسٹر صاحب سے کہاکہ سر مجھے بلیک بورڈ پر لکھا صاف نظر نہیں آرہا ۔انہوں نے کہا۔ سب سے اگے والی ڈیسک پر بیٹھے ہو۔اب کیا تم کو بلیک بورڈ پر لٹکا دیں۔سب ہنسنے لگے اور میں نے شدت سے محسوس کیا کہ میری مشکل کو سمجھنے والا کوئی نہیں۔ میں بلیک بورڈ پت لکھا ساتھ بیٹھے کلاس فیلو کی کاپی سے نقل کرتا رہا۔۔کچھ ہی دن گزرے تھے کہ طلبا کا میڈیکل چیک اپ ہوا۔( اس زمانے میں ہوتا تھا)۔۔ ڈاکٹر نے کہا کہ تمہاری نظر بہت کمزور ہے۔ میڈیکل رپورٹ ابا نے دیکھی تو بولے’’ڈاکٹر اپنا دھندا چلانے کیلےؑ خواہ مخواہ بیماری کا وہم پیدا کرتے ہیں‘‘۔۔خواہ مخواہ؟ میں بے بسی سے سوچتا رہ گیا۔۔ دنیا مجھے دھندلی اور سارے رنگ پھیکے نظر آتے رہے یہاں تک کہ ابا کے ایک دوست نے میری نظر کی خرابی کو نوٹ کیا اور ابا سے کہا کہ بچے کو چشمے کی ضرورت ہے۔ ابا نے ان کی راےؑ کو مسترد کرنے کیلےؑ مجھے مسدس حالی دی کہ پڑھ کے سناو۔ میں نے سب فر فر پڑھ دیا۔ وہ ویسے بھی م جھے زبانی یاد تھی ۔لیکن ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ مجھے نظر کی خرابی کا کوئی مسئیلہ نہیں
ابا کو اس وقت کون بتاتا کہ ایک قریب کی نظر ہوتی ہے اور ایک دور کی۔ [میری قریب کی نظر تو اسی سال کی عمر میں بھی ٹھیک ہے۔] کالج میں یہ مسیلہ پھر اٹھا تو ابا مجھے کسی ماہر امراض چشم کے پاس لے گےؑ۔اس کا نام تو مجھے یاد نہیں لیکن یہ یاد ہے اس نے مجھ سے کہا تھا کہ۔’’ تم تو اندھے ہو بیٹا؛؛ یہ بڑا بے رحم تبصرہ تھا۔ میں ہرگز اندھا نہیں تھا۔میں نے ماینس ساڑھے چار نمبر کے اسفیریکل لینز والا چشمہ لگایا اور دم بخود رہ گیا ؛دنیا ایک دم روشن اورمکمل ہوگئی۔ میں بہت دور تک کے سارے منظر دیکھ سکتا تھا جہاں پہلے دھندلکا تھا۔میں نے درخت کو دیکھا تو اس کے پتوں کے رنگ اوران سے چھن کر آنے والی دھوپ کو بھی دیکھا۔۔بجلی کا کھمبا دیکھا تو وہ تار بھی دیکھے جوتاحد نظرمتوازی جارہے تھے۔ جس چہرے کے نقوش چار گز کی دوری سے پہچان میں آتے تھے وہ اب میں سو گز سے دیکھ سکتا تھا۔ کالج کی لڑکیوں کے ملبوس جو الجھے الجھے رنگوں کے دھبے تھے یکلخت شوخ اور واضح نقوش ہو گےؑ غنچہ و گل۔۔ گلاب اور گیندا۔ستارے اور کہکشاں بن
گےؑ اور میں ٓارایش جمال مین سرخئی لب و رخسار بھی دیکھنے لگا۔سینیما کے پردے کی رنگینی اور مدھوبالا کے حسن و شباب کی سحر ٓافرینی اچانک تباہ کن ہوگئی
چشمہ لگا کے میں نے اپنی اصل دنیا دیکھی
ستر سال گزر گےؑ۔ فرسودگی کے ایک قدرتی عمل کے نتیجے میں ایک وقت ایس آیا جب رفتہ رفتہ چشمہ کا نمبر بدلنے سے بھی نظارہ محدود ہوتا چلا گیا ماہرین نے متفقہ طور پر حکم لگایا کہ کیٹرکٹ یا موتیا کا چھوٹا سا آپریش ناگزیر ہے اور میں نے سر تسلیم خم کیا
صرف دو گھنٹے کی دوسری سرجری کا مجھے اتنا ہی احساس ہوا جتنا زندگی کی پہلی سرجری کا ہوا تھا جب مجھے سونے کی چڑیا دکھائی گئی تھی۔ اپریشن تھیٹر سے باہر آیا تومیری ایک آنکھ پر پٹی تھی۔ ڈاکٹر نے کہا کہ نہ کوئی پرہیز ہے نہ پابندی ۔ پرانے وقتوں کی ساری باتیں اس وقت پرانی ثابت ہویئیں جب دو گھنٹے بعد میں بے پٹی ہٹائی ۔۔۔۔ اور زندگی میں دوسری بار دنیا اپنی ساری رنگین رعنائی کے ساتھ میرے سامنے آگئی۔۔میں پھر بھونچکا رہ گیا۔یقین نہ آیا کہ جو میں نے پہلی بار بچپن میں چشمے کی مدد سے دیکھا تھا اب ستر سال بعد چشمے کے بغیرکےدیکھ رہا ہوں۔سب سے پہلے میرے مقابل گلابی ریشمی پردے کے گل بوٹے اپنی ساری رنگینی و حوشنمائی کے ساتھ نمایاں ہوےؑ جو میرا خیال تھا کہ پرانے ہوکے ماند پڑ چکے تھے۔پھر میری نظر کلاک پر گئی میں نے ہر ہندسے کوروشن اور سیکنڈ کی سوئی کو بھی متحرک دیکھا اور پھر خود کو یقین دلایا کہ چشمہ ستر سال بعد میری ناک پر سوار نہیں ہے؛۔مجھے سخت حیرانی ہوئی کہ ٹی وی کی تصویر اتنی شارپ اور رنگ اتنے اجلے ہیں شاید یہی نگاہ تھی جس کے ساتھ میں نے پہلی بار دنیا کو دیکھا ہوگا۔
ایک بار پھر میں پر مسرت حیرانی سے بہت کچھ دیکھ رہا ہوں جو میں دیکھنا بھول چکا تھا۔میں درخت کو دیکھتا تھا لیکن اس پر پھیلے پتوں کے رنگ اور ان کے درمیان جھلملاتی روشنی کی آنکھ مچولی کو نہیں دیکھ سکتا تھا۔مجھے بجلی کے تاروں پر بیٹھی مینایئیں اور چڑیاں نظر نہیںآتی تھیں۔میں عمارات کو دیکھ کر حیران ہوا کہ ان کے دیوارو در کتنے مرصع ہیں۔ مری کے نیلگوں سرمئی پہاڑوں کی طرف سے اٹھ کےآسمان کی اجلی نیلی وسعت میں بھٹکنے والے بادل کیسے اپنی رفتار اپنی ہیئیت اور اپنے رنگ بدلتے ہیں۔ میں بہت پرانا کولمبس ایک نئی دنیا کو بہت تاخیر سے دیکھ رہا تھالیکن یہ کاینات اپنی ساری روشنی رنگینی اور خوبصورتی کے ساتھ پھر مجھے مل گئی تھی۔ یہ ایک نیا پر مسرت تجربہ تھا
آغازسفر کی ساعت تھی انجام سفر پر آئی تھی