اس دنیا میں ہر انسان اپنے جیسے دیگر انسانوں کے ساتھ مختلف خونی اور معاشرتی رشتوں کے بندھن میں بندھا ہوتا ہے۔ مثلاً ایک مرد کو ہی لیجیے وہ باپ، بھائی، بیٹے، خاوند اور داماد جیسے خونی رشتوں سے بندھا ہے تو وہیں دوست، کولیگ، استاد وغیرہ جیسے معاشرتی رشتوں کی ڈور اسے ایک مہذب انسان کا روپ دیتی ہے۔
دیکھا جائے تو درجہ بالا تمام رشتے جن کا میں نے ذکر کیا ہے ان میں خاوند کا رشتہ سب سے زیادہ اہمیت اور ۔۔۔۔ کا حامل ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نا ہو گا کہ ایک خاوند یا میاں کا رشتہ ان تمام رشتوں کو بنیاد فراہم کرتا ہے اور ہمارے تمام معاشرتی رشتوں کی اساس اس ایک رشتے میں پوشیدہ ہے۔
ہمارے معاشرے میں جب کوئی فرد کسی عورت کے ساتھ خاوند کے رشتے سے جڑ کر اپنی ازدواجی زندگی کی ابتداء کرتا ہے تو یکا یک اس پر بےپناہ مسائل اور فرائض اور ڈیوٹیوں کا انبار لد جاتا ہے۔ جنہیں نبھاتے نبھاتے اس کی تمام عمر گزر جاتی ہے۔ اسے جہاں بحیثیت ایک اچھے خاوند کے اپنی بیوی کی تمام ضروریات زندگی کا خیال رکھنا ہوتا ہے وہیں ماں باپ اور دیگر رشتوں کے درمیان توازن رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ اپنی اولاد اور سسرال سمیت ہر کسی کا خیال یوں رکھنا پڑتا ہے کہ حرف شکایت کسی کی زباں پر نا آئے۔ ایسے میں بہت کم افراد ہوتے ہیں جو کہ ان تمام رشتوں میں توازن رکھ پاتے ہیں اور اپنے سے جڑے ہر شخص کے فرائض کو کماحقہ پورا کر پاتے ہیں۔
راقم الحروف کے والد محترم عبدالرزاق کھوہارا شہید بھی ایسی ہی نابغہ روزگار شخصیات میں سے ایک تھے جنہوں نے نا صرف اپنے سے جڑے تمام خونی رشتوں کے ساتھ انصاف کیا بلکہ ایک بہترین خاوند کے طور پر ایسی زندگی گزاری کہ پورے حلقہ عزیز و احباب میں ان کی مثال دی جانے لگی اور یوں ایک مثالی خاوند کے درجہ پر بھی فائز قرار پائے۔
والد محترم کی شادی ان کے عزیزوں میں یوں کہیے ان کی اپنی پسند کے مطابق ہوئی۔ اور اس پسند کا پاس انہوں نے تمام عمر قائم رکھا۔ انہوں نے ایک مثالی خاوند کی حیثیت سے اپنی رفیق حیات کا تمام زندگی اس طرح خیال رکھا کہ اپنے تو اپنے غیر بھی رطب اللسان نظر آئے۔ ایک خالصتاً مشرقی اور دیہی معاشرے کا حصہ ہونے کے باوجود انہوں نے ان تمام نظریات کو باطل ثابت کیا جن کے مطابق عورت کی حیثیت پاؤں کی جوتی کے سواء کچھ نہیں۔
والدہ محترمہ بتایا کرتی ہیں کہ عبدالرزاق کھوہارا شہید نے ساری زندگی میں صرف ایک بار ہاتھ اٹھا اور وہ ہاتھ بھی غصے کی کیفیت میں آ کر ڈرانے کے لیے صرف فضا میں بلند کیا۔ اور پھر فوراً نیچے گرا لیا۔ ان کی زندگی میں یہ واحد ایسا موقع تھا جب وہ شدید ترین غصے میں نظر آئے لیکن اس کے باوجود کسی قسم کی مار سے گریز کیا۔
واضح رہے ان کا تعلق ایک ایسے معاشرے اور جگہ سے تھا جہاں عورت پر مار پیٹ اتنی معیوب نہیں سمجھی جاتی لیکن اس کے باوجود ان کے اس طرز عمل سے ناصرف عزیز و اقارب بلکہ احباب بھی اپنا گھریلو رویہ بدلنے پر مجبور ہو گئے۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ عبدالرزاق کھوہارا شہید نے اپنے عمل سے پورے معاشرے کے قبیح فعل کو بدلنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
کہتے ہیں کہ میاں بیوی ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک بھی خراب ہو جائے تو زندگی کی گاڑی کا چلنا محال ہو جاتا ہے۔ بعینہ تالی ہمیشہ دو ہاتھوں سے بجتی ہے۔ یعنی اگر ایک فریق بھی اپنی جگہ سے پیچھے ہٹے تو روزمرہ کے گھریلو معاملات درہم برہم ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہم نے اپنی پوری زندگی میں یہ مشاہدہ کیا کہ والد محترم نے ہزارہا مرتبہ مصلحتاً اپنے قدم کو پیچھے ہٹایا تا کہ کوئی بدمزگی پیدا نا ہو۔
عبدالرزاق کھوہارا شہید میں صبر، تحمل اور برداشت کا مادہ بہت زیادہ تھا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انہیں غصہ نہیں آتا تھا، حقیقت تو یہ ہے کہ وہ ایک سخت اور بارعب شخصیت کے طور پر مشہور تھے اور پورے خاندان میں اپنا بے پناہ اثر و رسوخ رکھتے تھے البتہ وہ اپنے غصے کو پینے پر قادر تھے۔ موقع اور محل کی مناسبت سے غصے اور رنج و غم کی کیفیت کا اظہار کرنے یا اس پر قابو پانے کی قدرت رکھتے تھے۔
کسی بھی باشعور اور شادی شدہ انسان کے لیے ازدواجی زندگی۔۔۔ مختلف اتار چڑھاؤ، پیچ و تاب، عروج و زوال اور بہت سے معاملات پر کمپرومائز کرنے کا نام ہے۔ گویا یوں سمجھ لیجیے کہ رشتہ ازدواج میں بندھنے کے بعد زندگی کے نشیب فراز سے اس طرح گزرنا پڑتا ہے جس طرح کانٹوں بھری جھاڑی سے اپنا دامن بچا کر گزرنا ہوتا ہے۔ اور جو شخص اپنے دامن کو ناصرف کامیابی کے ساتھ گزار کے بلکہ ہر کانٹے کو اپنی پلکوں پر چن کر صاف کرتا رہے اسے مثالی خاوند کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ اور والد صاحب اسی درجہ پر فائز تھے۔
میری خانگی روایات اور معاشرتی رحجان مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ میں والد محترم کی زندگی سے اخذ کی گئی مثالوں کے ذریعے اپنے مؤقف کی وضاحت کروں۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ والد صاحب اور والدہ صاحبہ نے ہم تمام بہن بھائیوں کے لیے ایک مثال قائم کی کہ کس طرح ایک مثالی زندگی گزاری جا سکتی ہے۔
دعا ہے کہ اللہ پاک والد محترم عبدالرزاق کھوہارا شہید کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے، کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی خانگی و ازدواجی زندگی احسن طریقے سے گزارنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین۔