ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
آپ چار یا پانچ بھائی ہوں۔ ایک دن آپ کے والد آپ کے سب سے بڑے بھائی کو ایک مہنگی گاڑی لے دیں اور آپ سے کہیں کہ چونکہ آپ کے بھائی کو دفتر آنے جانے میں بہت مشکلات پیش آتی تھیں وہ اکثر لیٹ ہو جاتے تھے اس لئے اسے یہ مہنگی گاڑی لے دی ہے۔ آپ کا ردعمل کیا یوگا؟ یقیناً آپ بہت خوش ہوں گے کہ آخر کو آپ ہی کے بھائی کو گاڑی ملی ہے۔ لیکن جلد ہی آپ کو پتہ چلے کہ جناب وہ گاڑی بینک سے لیز کروائی گئی تھی اور اس کی قسط کے پیسے ہر ماہ آپ بھی ادا کریں گے۔ جبکہ آپ کا بھائی آپ کو سال میں تین چار بار اس گاڑی میں " جھولے " دے دیا کرے گا۔
دوسری طرف حال یہ ہو کہ آپ کو اپنی تعلیم کے اخراجات بھی والد سے پوری طرح نا ملتے ہوں ۔ بیماری کی صورت میں آپ کا علاج بھی نا کروایا جاتا ہو۔ کالج یونیورسٹی جانے کے لئے ایک پھٹیچر سائیکل ہو یا ویگنوں میں حالت رکوع میں سفر کرکے جانا پڑتا ہو۔ کھانے پینے کپڑے لتے میں بھی بڑے بھائی کو ہی اہمیت دی جاتی ہو لیکن ہر ماہ قسط کے پیسوں میں اپنا حصہ ہر حال میں آپ نے ڈالنا ہے۔
اب آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟؟؟ کیا اب بھی آپ خوش ہوں گے اور باہر سب کو بتائیں گے کہ دیکھو میرے بڑے بھائی کے پاس کیسی اچھی اور مہنگی گاڑی ہے۔ ہاں ہاں سال میں تین چار بار جب بھی میں اس کے گھر جاتا ہوں مجھے اپنی مہنگی گاڑی پر جھولے بھی دیتا ہے۔ ؟؟؟ نہیں ہرگز نہیں۔ تب آپ ایسا نہیں سوچیں گے۔ تب آپ یہ سوچیں گے کہ کیا میں سوتیلا بیٹا ہوں؟ مجھے کس بات کی سزا ہے کہ سہولت اور آسانی تو بڑے بھائی کو ملے اور پیسے میں ادا کروں؟؟ اور وہ بھی ان حالات میں کہ مجھے اپنی ضروریات کے لئے بھی پیسے نا ملیں۔
ٹھیک یہی معاملہ میٹرو بس اور اورنج ٹرین کا ہے۔ ان دونوں سہولیات کے فوائد سے کسی کو انکار نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ لاہور کراچی جیسے میٹروپولیٹن شہروں کو ماس ٹرانزٹ کی ضرورت بھی ہے۔ لیکن۔۔۔۔ لیکن یہ سہولت اگر باقی عوام کا حق غصب کرکے دی جاۓ گی تو یہ انصاف ہرگز نہیں ہوگا۔ لاہور ، پنڈی اور ملتان جی میٹرو بسوں سے کل ملا کر اوسطاً پانچ لاکھ لوگ روزانہ استفادہ کرتے ہیں۔ بہت اچھی بات ہے۔ لیکن پنجاب کے بقیہ گیارہ کروڑ عوام کا کیا قصور ہے؟ ان پانچ لاکھ لوگوں کو سہولت دینے کے لئے وہ کیوں اپنی خون پسینے کی کمائی دان کریں وہ بھی اس صورت میں کہ جب انھیں اپنے اور اپنے بچوں کے لئے نا تو دوا وقت پر ملتی ہو نا ہی اچھی تعلیم۔ نا روزگار میسر ہو نا سر چھپانے کو چھت ۔ ناپینے کا صاف پانی ملتا ہو اور نا ہی کھانے کو دو وقت روٹی۔ آپ نے میٹرو بس بنائی یہ ایک بہت بڑی سہولت ہے لیکن۔۔۔۔۔ میٹرو بس کے ہر ٹکٹ پر 80 روپے کی سبسڈی باقی عوام کی جیب سے کیوں ادا ہوگی؟ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ لاہور پنڈی ملتان کا کوئی بندہ سفر کرے لیکن اس کے سفر کا خرچ راجن پور کے دور دراز گاؤں کا ایک غریب انسان برداشت کرے۔ آخر کیوں؟؟؟؟؟
آخر میں مکرر عرض ہے کہ ماس ٹرانزٹ منصوبوں کی افادیت سے قطعاً انکار نہیں لیکن نانصافی پر احتجاج ہمارا حق ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔