اورنگ آباد سے ایک ادبی رسالہ سہ ماہی’’حاشیہ‘‘ چھپتا ہے ۔ڈاکٹر ہاجرہ بانو اس کی مدیر اعلیٰ ہیں۔ایک واٹس ایپ گروپ’’سوال پوچھنا مشکل کیوں ہے؟‘‘پر مورخہ ۲۶ ستمبر ۲۰۱۸ء کو محترم تنویر اشرف نے سہ ماہی ’’حاشیہ‘‘کے شمارہ مئی تا اگست ۲۰۱۸ء کے دو ایک جیسے صفحات شیئر کرتے ہوئے یہ نوٹ لکھا:
’’سہ ماہی ’حاشیہ‘ مئی تا اگست ۲۰۱۸ء کے ان دونوں مضامین میں کیا فرق ہے؟
صفحہ نمبر ۱۰۷ پر مضمون نگار ڈاکٹر ہاجرہ بانو
صفحہ نمبر ۱۲۰ پر مضمون نگارنثار اللہ نثر
یہ اطلاع ملتے ہی میں نے نجی طور پر ڈاکٹر ہاجرہ بانو سے رابطہ کیا،لیکن میرے رابطہ کی بات بعد میں۔۔۔اس دوران تنویر اشرف نے ایک اور واٹس ایپ گروپ پر بھی اپنی مذکورہ بالا پوسٹ شیئر کی۔اس کے جواب میں ہاجرہ بانو نے ہندوستانی وقت کے مطابق ۳۹. ۱۱ پر اپنی طرف سے یہ جواب تحریر کیا۔
’’ایک موضوع پر نثار صاحب کے اور میرے خیالات ہیں۔‘‘
اس پر تنویر اشرف نے پھر پوچھا: ’’شروع تا اخیر بالکل ایک جیسے؟‘‘
اس پر ڈاکٹر ہاجرہ بانو کا یہ ناقابلِ فہم جواب ملا:’’پہلا وہ نہیں ہے،نثار صاحب کا ہے۔‘‘
عین اسی دوران جب میں نے ڈاکٹر ہاجرہ بانوکو تنویر اشرف کی مذکورہ پوسٹ بھیجتے ہوئے ۳۵.۱۱ پر پوچھا کہ:’’یہ کیا ماجرا ہے؟‘‘
تو ۴۰. ۱۱ پر محترمہ ہاجرہ بانو صاحبہ کا جواب آیا: ’’میرا مضمون نہیں ہے،نثار صاحب کا ہے۔‘‘
میں نے پھر پوچھا: ’’پھر یہ غلطی کیسے ہو گئی؟‘‘
ڈاکٹر ہاجرہ بانو کا جواب ملا:’’عنوان ایک ہیں اور چند کاپیز میں(غالباََ عجلت میں ’غلط‘ لکھنا بھول گئی ہیں۔ناقل) پیسٹنگ ہوئی ہے ۔غلطی سے وہی کاپی تنویر صاحب کو چلی گئی ہو گی۔‘‘
پہلی وضاحت تو یہ کردوں کہ متنازعہ مضمون کے اصل مصنف کا نام نثار اللہ نثر نہیں ہے بلکہ نصراللہ نصر ہے۔مضمون کے آخر میں ان کا پتا اور سارے کنٹیکٹ بھی درج ہیں۔
اب صورتِ حال یہ سامنے آئی ہے کہ ایک منٹ پہلے تنویر اشرف کے استفسار پرڈاکٹر ہاجرہ بانواپنے مضمون پر اصرار کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہ ایک موضوع پر نثار صاحب(در اصل نصر صاحب)کے اور میرے خیالات ہیں۔۔۔۔لیکن ایک منٹ کے بعد میرے استفسار پر لکھتی ہیں : ’’میرا مضمون نہیں ہے،نثار صاحب(نصر صاحب) کا ہے۔‘‘
بات یہیں ختم ہو جاتی لیکن میرے اس استفسار پر کہ : ’’پھر یہ غلطی کیسے ہو گئی؟‘‘۔۔۔۔۔۔انہوں نے یہ تاثر دیا کہ گویا لفظ بہ لفظ چربہ یا سرقہ نہیں ہے بلکہ ایک دو کاپیوں میں غلط کاپی پیسٹنگ ہو گئی تھی ۔کبھی کہہ رہی ہیں یہ مضمون میرا نہیں ہے۔۔۔کبھی کہہ رہی ہیں غلط کاپی پیسٹنگ ہو گئی ہے۔جبکہ تنویر اشرف سے مسلسل تکرار کر رہی ہیں کہ مضمون ان کا ہے اور ایک ہی موضوع پر دو لکھنے والوں کے خیالات ہیں۔تنویر اشرف حیرانی کے ساتھ پوچھتے ہیں کہ ایک ہی موضوع پر دو لکھنے والوں کے خیالات ’’شروع تا اخیر بالکل ایک جیسے؟‘‘۔اس کا جواب آئیں بائیں شائیں۔۔۔۔غلط کاپی پیسٹنگ والی بات مانی جا سکتی ہے لیکن اس کے ساتھ درست کاپی پیسٹنگ بھی کہیں ہونی چاہئے،جو کہیں نہیں ہے۔
اسی دوران پنجند ڈاٹ کام کو ڈاکٹر ہاجرہ بانو نے حاشیہ کے زیر بحث شمارے کی کاپی فراہم کر دی تھی اور وہ شمارہ اب اس لنک پر آن لائن پڑھا جا سکتا ہے۔
نمبر شمار کے مطابق ۲۳ نمبر پر ڈاکٹر ہاجرہ بانو کا مضمون درج ہے جبکہ نمبر ۲۶ پر نصراللہ نصر کا مضمون درج ہے۔
اصل ماجرا کیا ہے؟اس کی وضاحت ڈاکٹر ہاجرہ بانو ہی کر سکتی ہیں۔ہماری طرف سے ابھی تک کی جو صورتِ حال ہے اسے سامنے رکھا گیا ہے۔اس کی روشنی میں ڈاکٹر ہاجرہ بانو سے امید ہے کہ وہ ایسی وضاحت کر دیں گی جس سے ان کے بہی خواہوں کو شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑے۔
آخر میں مذکورہ دونوں مضامین کا تھوڑا سا ابتدائی اور تھوڑا سا آخری حصہ یہاں درج کر رہا ہوں تاکہ قارئین کاپی پیسٹنگ کی غلطی یا کسی اور غلطی کا اندازہ کر سکیں۔
پہلے دونوں مضامین کا مشترکہ ابتدائی حصہ:
’’ادب زندگی کا خوبصورت وسیلہ اظہار ہے۔ادب کے واسطے سے ہی ایک ادیب یا شاعر اپنے دل کی کیفیات کو منظرِ عام پر لاتا ہے۔دکھ سکھ کو بیان کرتا ہے۔نیز عصر و معاشرے کی خوبیوں اور خامیوں کو اُجاگر کرتا ہے۔تہذیب کا منظر نامہ بھی لکھتا ہے۔زندگی کے تاریک اور روشن دونوں پہلوؤں کو عکس ریز کرتا ہے۔لیکن اس اظہاریہ کے مختلف طریقے ہیں۔نثری انداز کا ایک طریقہ سنجیدگی اور شائستگی کے کا ہے دوسرا طنزومزاح کی شکل میں۔سنجیدہ اظہار کو ادب کا مرتبہ حاصل ہے لیکن طنزومزاح کو ابھی تک ادب نگاری کے حاشیے پر ہی رکھا گیا ہے۔حالانکہ دونوں کا مقصد ایک ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اور اب دونوں مضامین کے آخر کا مشترکہ حصہ:
’’ان اشعار سے معلوم ہوتا ہے کہ چچا واقعی پیروڈی یا مزاحیہ شاعری کا خوبصورت مذاق رکھتے ہیں۔اگر یہ مزاحیہ شاعری بھی کریں اور دو چار آل انڈیا مشاعرے پڑھ ڈالیں تو مزاحیہ شاعری ان کی قدم بوسی پہ اتر آئے۔بے شمار اوصاف کے مالک ہیں کن کن ادبی نعمتوں کا ذکر کروں۔سچ یہ ہے کہ میرے دعوے کو ان کے حریف ہی جھٹلا سکتے ہیں۔ان کے حاسد ہی مجھ پر انگلی اٹھا سکتے ہیں۔ورنہ میں نے جو کچھ بھی لکھا ہے سچ لکھا ہے،سچ کے سوا لکھنے کی میں جرات بھی نہیں کر سکتا۔اس اقتباس کے ساتھ اجازت کہ:
(اقتباس حذف کر رہا ہوں۔۔۔ویسے دونوں نے لفظ بہ لفظ ایک ہی اقتباس دیا ہے۔ناقل)
رؤف خوشتر سے اردو طنزومزاح کو بہت ساری امیدیں ہیں۔اللہ ان کو لمبی حیات دے اور ادبی کام بھی لے۔آمین۔ان کی حوصلہ افزائی بھی لازمی ہے۔‘‘
مضامین کے درمیان میں بھی ’’توارد‘‘کی یہی صورت ہے۔
نصراللہ نصر جب یہ لکھتے ہیں کہ ’’سچ کے سوا لکھنے کی میں جرات بھی نہیں کر سکتا‘‘تو ان کی بات سمجھ میں آتی ہے لیکن جب ڈاکٹر ہاجرہ بانو بھی یہی الفاظ صیغہ تذکیر کے ساتھ
لکھتی ہیں تو بندہ پریشان تو ہوتا ہے کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ اچھی بھلی خاتون صیغۂ تذکیر میں کیوں بات کر رہی ہیں۔
امید ہے ڈاکٹر ہاجرہ بانو اس سارے قضیہ کے بارے میں اپنا موقف واضح الفاظ میں بیان کر دیں گی اور ان کے بعض متضاد بیانات نے جو اُن کے بارے میں مزید کنفیوژن پیدا کیا ہے اسے بھی دور کر دیں گی۔
"