(Last Updated On: )
کردار
پاپا :- پپو کے پاپا
ممی :- پپو کی ممی
پپو :- ایک بدھو لڑکا
جمن : – پپو کا پڑوسی
لڑکا :- پپو کا ہم جماعت
ایک دوپڑوسی اور ایک آدمی
(منظر : پپو کے گھر کے ڈرائنگ روم کا منظر پپو کے پاپا کہیں جانے کی تیاری کررہے ہیں پپو کی ممی اندر سے آتی ہیں)
ممی : سنتے ہو کہیںجانے کا ارادہ ہے کیا؟
پاپا : ہاں!
ممی : میں کہتی ہوں تھوڑی دیر رک جاتے!
پاپا : خیریت۔
ممی : آج پپو کا رزلٹ ہے پپو اسکول رزلٹ لانے گیا ہے ۔
پاپا : اچھا تو آج ہی وہ منحوس دن ہے ۔ جس دن مجھے وہ بری خبر سننی ہے جس کا مجھے ایک مہینے سے انتظار ہے ۔
ممی : کونسی بری خبر؟
پاپا : اور کونسی بری خبر آج کے دن آنے والی ہے ! یہی خبر آئے گی کہ تمہارا لاڈلا نویں کلاس میں چوتھی بار فیل ہونے والا ہے ۔
ممی : مجھے بھی یہی لگتا ہے کہ پپو اس بار بھی فیل ہو جائے گا۔ لیکن ہمیں امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑ نا چاہئے۔
پاپا : تو کیا تمہیں لگتا ہے پپو پاس ہو جائے گا۔ !
ممی : شاید پاس ہوجائے ۔
پاپا : اگر پاس ہوگیا تو میں سارے محلے میں مٹھائی بانٹوں گا۔ تمہارے سارے خاندان والوں کی دعوت کروں گا۔ تمہیں چار نئے سوٹ سلوا کر دوں گا اور ہاتھوں میں سونے کے کنگن بنوادوں گا۔
ممی : اپنے بیٹے پر ذرا بھی بھروسہ نہیں ہے ۔
پاپا : ارے بھروسہ! ایسا کند ذہن لڑکا تو ہمارے سارے خاندان میں آج تک پیدا نہیں ہوا۔ ممکن ہے تمہارے خاندان میں اس طرح کی کئی مثالیں ہوں۔
ممی : (بگڑ کر) میرے خاندان والوں کا نام مت لو۔ میرے خاندان کے بچوں نے بورڈ میں ٹاپ کیا ہے ٹاپ… یہ سب تمہارے خاندان کا اثر ہے جو پپو ایک ہی کلاس میں تین سال سے فیل ہورہا ہے ۔
پاپا : کیا کریں ہماری اکلوتی اولاد ہے۔ ہم نے اسے کلیجہ کا ٹکڑا سمجھ کر پالا ہے ۔ اسے خود سے نہ جدا کرسکتے ہیں نہ بار بار فیل ہونے پر سزا دے سکتے ہیں۔
(پپو منہ لٹکائے آتاہے)
پاپا : لو آگیا تمہارا شہزادہ۔
ممی : کیا بات ہے بیٹا! تم اتنے اداس کیوں ہو؟ یہ منہ کیوں لٹکا ہے ۔
پاپا : اور کیوں لٹکا ہوگا۔ جو تین سال سے ہوتا آرہا ہے وہی ہوا ہوگا۔
ممی : بیٹا تمہارا رزلٹ تھانا! اسکول سے رزلٹ لائے؟ کیا ہے تمہارا رزلٹ۔
(بنا کچھ کیے رزلٹ ممی کی طرف بڑھا دیتا ہے ۔ ممی الٹ پلٹ کر رزلٹ دیکھتی ہے)
پاپا : اب تم سمجھ نہیں سکتیں یہ رزلٹ کیا ہے ۔ پپو پاس ہوا ہے یا نہیں آخر تم بھی پپو کی ماں ہو۔
ممی : (غصے سے) مجھے ان پڑھ ہونے کا بار بار طعنہ نہ دیا کرو۔ تم کو نسے پڑھے لکھے ہو۔ ۱۰ بار کوشش کرکے میٹرک کا امتحان پاس نہیں کرسکے تو میرا بیٹا بار بار فیل ہوتا ہے تو کونسی بری بات ہے یہ تو تمہاری خاندانی روایت ہے ۔ جسے میرا پپو قائم رکھے ہوئے ہے۔
پاپا : بس بس … ذرا منہ بند کرو۔ مجھے رزلٹ دیکھنے دو اس بار ہمارا شہزادہ کس طرح فیل ہوا ہے۔ انگریزی میں ۸۰ مارکس… یا حیرت پپو نے انگریزی میں ۸۰ مارکس لیے؟ اس کی انگریزی کب سے اتنی اچھی ہوگئی۔
ممی : کیوں ہو نہیں سکتی کیا؟ چار سال سے ایک ہی کلاس میں پڑھ رہا ہے ۔
پاپا : ہاں ہاں۔ چار سال ایک کلاس میں رہنے کا کچھ نہ کچھ فائدہ تو ہونا ہی چاہئے وہ فائدہ مل گیا۔ بچے کی انگریزی اچھی ہوگئی بچے نے انگریزی میں ۸۰ نمبر حاصل کئے۔ اچھا … اردو میں ۹۰ نمبر… ارے یہ پپو کی اردو کب سے اتنی اچھی ہوگئی؟
ممی : کیوں ؟ کیا اردو اچھی نہیں ہوسکتی! آخر اس کی مادری زبان ہے ۔
پاپا : ارے ہاں میں یہ تو بھول گیا اردو تمہاری زبان ہے ۔ لیکن تمہاری زبان اتنی اچھی کہاں ہے کہ اسے اردو میں ۹۰ نمبر ملے ۔
ممی : اب بک بک بند کرو اور دیکھو رزلٹ کیا ہے ۔
پاپا : پپو پاس ۔ فرسٹ کلاس فرسٹ ۔ ۸۵ فی صد مارکس…
ممی : پپو پاس ہوگیا؟ مجھے تو یقین نہیں آرہا ہے ارے دیکھو کمبخت ہمیں بے وقوف بنانے کے لیے کسی اور کی تو مارکس شیٹ نہیں لے آیا۔
پاپا : مارکس شیٹ پر تو اسی کا نام لکھا ہے ۔ اسامہ احمد محمد جاوید۔
ممی : ارے میرے لعل ۔ آ آکر میرے گلے لگ جا۔ میرے کلیجے کے ٹکڑے میری آنکھوں کی ٹھنڈک آخر تو پاس ہو ہی گیا اور وہ بھی اتنے اچھے نمبروں سے ۔
پپو : ممی میں پاس ہو گیا ہوں؟
ممی : ہاں میرے لعل۔ تیرے پاپا تیرا رزلٹ پڑھ کر سنارہے ہیں۔ کیوں جی۔ تم بہت کہتے تھے نا کہ اگر پپو پاس ہوگیا تو سارے محلے میں مٹھائی بانٹوں گا۔
پاپا : ارے نیک بخت! محلے میں کیا سارے شہر میں مٹھائی بانٹنے کا وقت آیا ہے ارے فیل ہونے والا ہمارا لعل ۸۵ فی صد مارکس لیکر پاس ہوا ہے ۔
ممی : تو منگوائو مٹھائی۔ میں اپنے ہاتھوں سے سارے محلے میں مٹھائی بانٹوں گی۔
پاپا : ابھی فون لگا کر مٹھائی منگواتا ہوں۔
ممی : تم مٹھائی منگوائو ۔ تب تک میں سارے پڑوسیوں کو خبر سناکر آتی ہوں کہ پپو پاس ہوگیا ہے ۔ پپو کے بار بار فیل ہونے پر بہت ہنستے تھے۔ ابھی جاکر ان کے منہ میں کالک لگاتی ہوں۔
(جاتی ہے پاپا موبائل پر کسی سے بات کرتے ہیں)
پاپا : ہیلو ایوب بھائی میں محمد جاوید مرزا بول رہا ہوں۔ مجھے فوراً دس کلو پیڑے چاہئے۔ فوراً میرے گھر بھجوا دیجئے۔ میں فورا پیسہ دے دوں گا۔ مجھے پتہ ہے آج آپ کو مٹھائی کے بہت آرڈر ہوں گے لیکن میں دس کلو کا آرڈر دے رہا ہوں۔ فوراً بھجوایئے ۔ میرا پپو پاس ہوگیا ہے اس خبر کو سنتے ہی ملنے والوں کا تانتا لگ جائے گا۔
(جمن چاچا آتے ہیں)
جمن : السلام علیکم مرزا بیٹے…
پاپا : وعلیکم السلام جمن چاچا۔ آئیے آئیے…
جمن : ارے آج تو تمہارے گھر سے بڑی خوشی کی خبر آئی ہے ۔ تمہارا پپو پاس ہوگیا۔
پاپا : چاچا اس خبر کو سننے کے لیے میں چار سالوں سے ترس رہا تھا۔ چار سال پہلے ان کانوں نے یہ الفاظ سنے تھے کہ پپو پاس ہوگیا۔ اب آج سنائی دیئے ۔
جمن : کہاں ہے پپو… بیٹے جیتے رہو۔ اسی طرح ماں باپ کا نام روشن کرو۔
پاپا : ماں باپ کا نام روشن! چاچا مجھے تو لگتا ہے میرے پپو نے شاید سارے محلے کا نام روشن کیا ہے۔
جمن : سارے محلے کا نام روشن کیا ہے؟وہ کس طرح بیٹا۔
پاپا : ارے ۸۵ فی صد نمبر لیکر پاس ہوا ہے ۔ کلاس میں فرسٹ کلاس فرسٹ آیا ہے ۔
جمن : واہ بیٹا تم تو بڑے تیس مار خاں نکلے۔ رن نہیں بنا رہے تو رن بنائے تو ڈائریکٹ سکسر مارا۔
پاپا : واہ چاچا! کیا مثال دی ہے ۔
جمن : ارے ہمارے پپو نے جو کام کیا ہے اس کے لیے ایسی ہی مثال دینی چاہئے ٹھیک ہے اب کچھ میٹھا ہوجائے ۔
پاپا : دو منٹ رکئے چاچا۔ ایوب بھائی کو مٹھائی کاآرڈر دیا ہوں ان کا آدمی ابھی مٹھائی لیکر آتا ہوگا۔
(ممی آتی ہے)
ممی : میں نے سارے پڑوسیوں کو پپو کے پاس ہونے کی خوش خبری سنادی ہے سب مجھے مبارک باد دے چکے اور تمہیں مبارک باد دینے کے لیے آنے والے ہیں۔ تم نے مٹھائی منگوائی یا نہیں؟
پاپا : مٹھائی بس آیا ہی چاہتی ہوگی۔
ممی : ارے اتنی بڑی خبر! میں نے ابھی تک میرے خاندان والوں تک نہیں پہنچائی۔ لائو موبائل دو۔ میں ابھی سارے خاندان والوں کو فون کرکے بتاتی ہوں۔
پاپا : ارے میں نے ابھی تک اپنے خاندان والوں کو نہیں بتایا تو تمہارے خاندان والوں کو کہاں سے بتاتا۔
ممی : ویسے بھی تمہارے خاندان والے اتنی بڑی اہم خبر کی اہمیت سمجھنے سے رہے۔
پاپا : تمہارے خاندان والے بھی کہاں سمجھ سکیں گے۔ وہاں تو سارے جاہلوں کا بازار ہے ۔
ممی : دیکھو میرے خاندان والوں کو برامت کہو۔
پاپا : اب جھگڑا مت کرو۔ اور ان کو میرے بیٹے کے پاس ہونے کی خبر سنائو۔
ممی : تم کہہ رہے تھے نا۔ اگر میرا پپو پاس ہوگیا تو تم میرے سارے خاندان والوں کی دعوت کرو گے۔
پاپا : میں اپنی بات پر اب بھی قائم ہوں۔
ممی : تو ایسا کرتی ہوں پورے خاندان والوں کو آج شام کی دعوت دے دیتی ہوں۔
پاپا : جیسا تم مناسب سمجھو۔ پپو! میرے بیٹے! میرے لعل دنیا میںمیرا نام روشن کرنے والے۔ آ آکر میرے کلیجہ سے لگ جا اور مجھے بتا تو نے اتنی بڑی کامیابی کس طرح حاصل کی ۔
(پپو آکر پاپا سے لپٹ جاتا ہے )
پاپا : بول نا میرے لعل۔ تو اتنے اچھے نمبروں سے کس طرح پاس ہوا۔
پپو : پاپا! یہ تو میں بھی نہیں جانتا۔
پاپا : ایسا مت کہہ میرے لعل۔ مجھے پتہ ہے تونے بہت محنت کی تھی۔ تیری محنت رنگ لائی۔
جمن : ہاں ہاں۔ مرزا بیٹے تمہارے پپو کی محنت رنگ لائی۔
(مٹھائی والا مٹھائی لیکر آتا ہے )
مٹھا ئی والا :مرزا صاحب کا گھر یہی ہے نا؟
پاپا : ہاں۔
مٹھائی والا:ایوب بھائی نے یہ دس کلو مٹھائی بھجوائی ہے ۔
پاپا : ارے واہ! تم بہت صحیح وقت پر آئے… اس مٹھائی کی اس وقت ہمیں سخت ضرورت تھی۔ لیجئے جمن چاچا۔ منہ میٹھا کیجئے۔
ممی : کیسا باپ ہے۔ پہلے بیٹے کا منہ میٹھا کرنا چاہئے جس کی وجہ سے آج یہ خوشی کا دن دیکھنا نصیب ہوا تو پڑوسیوں کا منہ میٹھا کررہا ہے ۔
جمن : پپو کی ماں! پڑوسی اس مٹھائی کے لیے کئی سالوں سے ترس رہے تھے ۔
(تین چار پڑوسی آتے ہیں)
پہلا پڑوسی: ارے مبارک ہو مرزا صاحب! مبارک ہو۔ سنا ہے آپ کا پپو پاس ہوگیا ہے ۔
پاپا : ہاں ہاں ! صحیح سنا ہے ہمارا پپو پاس ہوگیا ہے ۔
دوسرا پڑوسی : مبارک ہو مرزا صاحب ! خدا کرے یہ خوشی کا دن آپ کی زندگی میں ہر چار سال بعد آئے۔
پاپا : چار سال بعد آئے کیا مطلب؟
دوسرا پڑوسی: اوہ ساری … ساری… زبان پھسل گئی ہر سال آئے۔
پاپا : ٹھیک ہے ٹھیک ہے پہلے منہ میٹھا کیجئے ۔
پہلا پڑوسی : ہاں ہاں … کچھ میٹھا ہو جائے ۔
دوسرا پڑوسی : ہاں ۔ اب میٹھا ہو جائے ۔
مٹھا ئی والا:ارے او مرزا صاحب ! لوگوں کا منہ میٹھا بعد میں کرنا پہلے میری مٹھائی کے پیسے دو۔
تیسرا پڑوسی : پیسے پپو دے گا۔
مٹھائی والا : کون پپو یہ لڑکا؟
پاپا : ارے نہیں بابا۔ مٹھائی کے پیسے تو پپو کا باپ ہی دیگا۔
(ممی موبائل بند کرکے پاپا کی طرف مڑتی ہے )
ممی : سنو! میں نے میرے سارے خاندان والوں کو یہ خوش خبری سنادی ہے ۔ سارا خاندان خوشی سے جھوم رہا ہے ۔ میں نے انھیں رات کے کھانے کی دعوت بھی دے دی ہے ۔ میرے سارے خاندان والے دو پہر سے آنے لگیں گے۔ اب تم فوراً ادریس کیٹر کو کھانے کا آرڈر دے دو۔
پاپا : اچھا اچھا دیتا ہوں۔ کتنے لوگوں کا آرڈر دوں۔
ممی : سو لوگوں کے کھانے کا آرڈر دینا۔
پاپا : ارے سو تو تمہارے خاندان والے ہی ہیں۔ میرے خاندان والے ؟اور پڑوسی؟
ممی : اب تم جتنے لوگوں کا مناسب سمجھو کھانے کا آرڈر دو۔
پاپا : اچھا اچھا۔
ممی : اور مجھے پیسے دو۔ تم نے وعدہ کیا تھا اگر پپو پاس ہوگیا تو تم مجھے سونے کے کنگن بنوا ئو گے۔ چار ڈریس سلوائو گے۔ میں آج رات کی دعوت میں وہ سونے کے کنگن اور سوٹ پہننا چاہتی ہوں۔
پاپا : دیتا ہوں بابا! میں اپنی بات سے مکر تھوڑی رہا ہوں۔ ذرا ادریس بھائی سے بات تو کر لوں۔ (موبائل پر بات کرنے لگتے ہیں) ہیلو ادریس بھائی رات کے لئے دوسو لوگوں کے کھانے کا آرڈر دینا ہے ۔ بڑھیا سے بڑھیا کھانا ہونا چاہئے۔ فی آدمی سو روپیہ ٹھیک ہے ۔ اپنے آدمی کو بھیج دو میں بیس ہزار روپیہ ابھی دے دیتا ہوں لیکن کھانا اچھا بننا چاہئے۔
مٹھا ئی والا : اور صاحب میری مٹھا کے پیسے تو دیجئے۔
پاپا : ارے ہاں۔ یہ لو۔
(مٹھائی والے کو پیسہ دیتے ہیں ۔ مٹھا ئی والا سلام کرکے جاتا ہے )
ایک پڑوسی : ایسی خوشی محسوس ہورہی ہے کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔
دوسرا پڑوسی : ہاں۔ چار سال بعد جو ملی ہے ۔
پاپا : (غصے سے) یہ تم بار بار میرے بیٹے کو چار سال کا طعنہ کیوں دے رہے ہو؟ جانتے ہو وہ صرف پاس نہیں ہوا ہے کلاس میں فرسٹ بھی آیا ہے سمجھے۔
دوسرا پڑوسی : ساری مرزا صاحب ! وہ زبان پھسل جاتی ہے ۔
پاپا : اپنی زبان کو قابو میں رکھو۔ نہیں تو میرا ہاتھ پھسل جائے گا۔
ممی : ارے مجھے پیسے دو۔ مجھے بازار جاکر شاپنگ کرنی ہے ۔ شام کو دعوت کی تیاری کرنی ہے۔
پاپا : بیگم تجوری میں رکھے ہیں۔ جتنے چاہیے اتنے پیسے نکال لو۔
ممی : پورے چالیس ہزار روپیہ لوں گی۔
پاپا : ساری تجوری تمہاری ہے ۔ اور شاپنگ کے لیے جارہی ہو تو پپو کے لیے دو چار اچھے سے ڈریس بھی لے آنا۔ رات کی دعوت میں وہ پہن سکے ۔
ممی : میرے لعل کے لیے تو میں ایسا ڈریس لائوں گی کی ساری دنیا دیکھتی رہ جائے گی ۔
( جاتی ہے ۔ ایک آدمی آتا ہے )
آدمی : مجھے ادریس بھائی نے بھیجا ہے رات کی دعوت کا بل ۲۰ ہزار روپیہ۔
پاپا : ابھی لو ۔ ابھی دیتا ہوں۔
( اندر جاکر اسے پیسہ لاکر دیتے ہیں۔ پیسہ لیکر وہ سلام کرکے چلا جاتا ہے )
پہلا پڑوسی : پپو کا پاس ہونا مرزا صاحب شاید کافی مہنگا پڑے۔ لگتا ہے آپ کے لاکھوں روپیہ خرچ ہو جائیں گے۔
دوسرا پڑوسی : ہونا بھی چاہئے آخر چار سالوں بعد ہورہے ہیں۔
پاپا : تم نے پھر چار سال کا طعنہ دیا۔
دوسرا پڑوسی : ساری۔ مرزا صاحب ۔ ساری۔
پہلا پڑوسی : اچھا مرزا صاحب جاتے ہیں۔ رات میں ملا قات ہوگی ۔ہمیں رات کے کھانے کی دعوت ہے یا نہیں؟
پاپا : ارے آپ کو کیا ساری بلڈنگ کے لوگوں کو رات کے کھانے کی دعوت ہے ۔
(سب چلے جاتے ہیں)
پاپا : (پپو سے) پپو بیٹا یہ بتا تونے کب پڑھائی کی ۔ تو تو ہمیشہ کھیلتا رہتا تھا۔ پھر تجھے اتنے اچھے نمبر کس طرح ملے ہیں۔
پپو : یہ تو میں بھی نہیں جانتا پاپا۔
پاپا : تو نہیں جانتا۔ پھر پاس کس طرح ہوا؟ وہ بھی اتنے اچھے نمبروں سے ۔
پپو : پتہ نہیں پاپا۔
پاپا : خیر جو بھی ہو۔ پاس تو ہوگیا۔ اب دسویں میں میری طرح ۱۰ سال بھی پاس نہیں ہوا تو چلے گا۔
( ایک لڑکا آتا ہے )
لڑکا : ارے پپو! تو یہاں ہے تو نے کیا گڑ بڑ کر ڈالی۔
پاپا : گڑ بڑ کر ڈالی؟ کیا کیا ہے اس نے!
لڑکا : انکل میرا بھی نام اسامہ ہے ۔ میں پپو کی کلاس میں پڑھتا ہوں۔
پاپا : اچھا۔
لڑکا : آج ہمارا رزلٹ تھا۔ رزلٹ دینے میں ہماری مس نے گڑبڑ کردی۔ میرا رزلٹ پپو کو دے دیا اور پپو کا مجھے۔
پاپا : کیا مطلب؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔
لڑکا : کیونکہ ہم دونوں کے نام ایک سے ہیں۔ میرا نام اسامہ احمد جاوید مومن ہے اور پپو کا اسامہ احمد محمد جاوید مرزا۔ تو میرا رزلٹ پپو کو چلا گیا اور پپو کا رزلٹ مجھے آگیا۔ جب میں نے اپنا رزلٹ دیکھا تو چکرا گیا۔ میں اور فیل ہوں ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ پھر جب رزلٹ پر نام پڑھا تو پتہ چلا یہ پپو کا رزلٹ ہے جو فیل ہوگیا ہے اور میرا رزلٹ پپو کو چلا گیا ہے ۔
پاپا : تو کیا پپو فیل ہوگیا ہے ؟
لڑکا : ہاں انکل۔
پاپا : (سر پکڑ کر) ہائے میری خوشی۔ دعوت اتنا خرچ تو پپو پاس نہیں ہوا… فیل ہوا ہے…
(پردہ گرتا ہے )