میں شوگر کے مرض سے پہلے بھی پریشان تھا اور اب بھی ہوں ۔ کہا جاتا ہے شوگر کچھ نہیں کرتی اور بہت کچھ کرتی ہے ۔ میری نظر میں گویا شیطان صفت ہے جو مارتا نہیں پریشان کرتا ہے ۔ چھوٹے موٹے ڈاکٹروں سے کچھ افاقہ نہیں ہوا تو یار دوستوں نے ایک مشہور شوگر اسپیشلسٹ کا پتہ دیا اور اسی کے ساتھ درجنوں مریضوں کی شفایابی کے قصے اس انداز میں سنائے کہ میں نے خود کو آدھا شفایاب محسوس کیا ۔ اس پہ طرہ یہ کہ بعض نے معالج مذکورہ کی شان میں قصیدہ خوانی کرتے ہوئے زمین آسمان کے قلابے ملادیے اور ہم بھی قائل ہوکر جھانسے میں آگئے ۔ اگلے ہی دن باقی آدھی بیماری جو بچ رہی تھی اسے ٹھکانے لگانے ، سوئے مقتل کے پئے سیر چمن جانے کی ٹھان لی ۔
یہ پہلے ہی معلوم ہو چکا تھا کہ موصوف جن کو دست مسیحائی مل چکا تھا ان سے بغیر اپائمنٹ لیے نہیں مل سکتے ، شاید کسی ڈاکٹر کی شہرت یا حیثیت کا پیمانہ یہی ہے کہ بغیر وقت لیے وہ کسی سے نہیں ملتے ، شاید اہل خانہ کو بھی اپائمنٹ لینا پڑتا ہو کیونکہ سویرے سے رات دیر گئے تک وہ اپنی مرسڈیز میں ایک اسپتال سے دوسرے ،اور دوسرے سے تیسرے ، ان کی اوقات ،، مطلب وہ وقت کے خانوں میں بٹے ہوتے ہیں ۔ ڈائری دیکھ کر دن اور گھڑی دیکھ کر وقت دیا کرتے ہیں ۔
بہرحال ایک بجے کا وقت خاکسار کو دیا گیا تھا ۔ لیکن چونکہ اپنے پاس وقت ہی وقت ہے اس لئے مقررہ وقت سے پہلے ہی پہنچ گئے ۔ کہ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں ۔ کاؤنٹر پر مسکراہٹ نے استقبال کیا ۔ تاکہ گراں فیس کا ملال نہ رہے ۔ رجسٹر میں اندراج کرتے ہوئے ، اپنی مسکراہٹ ، قمقموں کی جگمگاہٹ ، اےسی کی سرسراہٹ اور ڈاکٹر کی چودھراہٹ ( اتفاق سے ڈاکٹر کا نام ۔ ۔ ۔ چوہدری ہے ) سمیت فیس وصول کر ایک نرم و گداز صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا جس میں گراں فیس کی کیلیں پیوست تھیں اور اے سی سے گردشِ آلام کے گرم تھپیڑے نکلتے محسوس ہورہے تھے ۔
شرف ملاقات کا بگل بجا ، اندر داخل ہوا تو انکساری نے استقبال کیا ۔ میں نے جائزہ لیا ۔ گول مٹول چہرہ ، چمکدار آنکھوں پر سنہری فریم کی عینک چڑھی ہوئی ،سر پر ٹوپی ،لمبی کھچڑی داڑھی ۔ ان کی تیز گھورتی ہوئی نظروں سے میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھے تول رہے ہیں ۔