تو صاحب ۔۔بعض آل۔۔۔۔۔مشاہرے۔۔یعنی مشاعرے ہوتے ہیں ۔ بعض متشاعر کی ناز برداریاں دیکھو جنھیں عمر بھر سائیکل نصیب نام ہوئی وہ ہوائی سفر کے بغیر آمادگی ظاہر نہیں کرتے ۔۔ اس فرمائش پر بعض منتظمین کی ہوا نکل جاتی ہے ۔۔۔۔ کہاں وہ زمانہ کہ غالب دیر شب بیرونی مہمان کے ہمراہ پیدل لوٹے ۔۔ نہ تانگہ نہ بگھی ۔۔جابجا شب گزیدہ گدھوں نے ان کا استقبال کیا ۔ مہمان نے چٹکی لی۔۔ غالب دلی میں گدھے بہت ہیں ۔ ۔ غالب نے برجستہ کہا ،نہیں بلکہ باہر سے آجاتے ہیں ۔۔زمانہ ترقی کرگیا ۔۔اب ہوا کے گھوڑے پر سوار، شاعر حمار۔۔مطلب شاعر ذی وقار بڑی آن بان اور طمطراق کے ساتھ اپنے ٹولے کے ساتھ آتے ہیں ، بالکل سیاسی لیڈروں کی طرح بس فرق یہ کہ نعرے بازی نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔ آگے بڑھو۔ہم تمہارے ساتھ ہیں یا جب تک سورج چاند رہے گا ۔۔۔ وغیرہم قسم کے ۔ نعرے بازی مشاہرہ گاہ کے لیے مختص ہے ، واضح کرتا چلوں کہ سند رہے ۔۔موصوف کے ہر اچھے برے شعر پر تالیاں پیٹنا ان کے لیے فرض عین اور دوسروں کے لیے فرض کفایہ ہے ، کیوں نہیں ہو صاحب کہ ان کا نمک کھایا ہے ۔ مخالفین کی ہوٹنگ کا ٹھیکہ بھی انہیں کے ذمہ ہوتا ہے ۔ آج کل ہر کام ٹھیکے پر جو چل رہا ہے ۔ بس ہم جیسے چند سرپھروں نے سچائی کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ۔۔۔لعنت ہے ۔
تو۔ صاحب یہ سیاس شاعر ۔۔ سیاسی توپ کے دہانے کھول ، چنونی چھاپ مجمع کہ ٹٹول ،دل کھول کر داد وصولتے ہیں ساتھ ہی بھاری لفافے ، جن پھر کوئی ٹیکس عائد نہیں ہوتا ،کسی بہی کھاتے میں اندراج نہیں ہوتا ۔ اوپر کی کمائی اسٹیج پرحسب استطاعت ، جو جتنا بڑا اداکار یا گلوکار۔۔یا یوں کہہ لو جہاندیدہ ہوگا اتنا ہی خوابیدہ مجمع سے محنتانہ وصول کرے گا ۔۔۔۔نیز منٹوں میں ، کسی کلاس ون آفیسرکی مہینے بھر کی کمائی سے کہیں زیادہ کمائی ، نغمہ سرائی ،ہوا ہوائی یا منھ دکھائی سے ہوتی ہے ۔۔۔ اس میں آخر حرج ہی کیا ہے ۔۔۔۔!!
(جاری ۔۔ہے )