سیاست کی دکانیں شاعروں کے مکانوں سے لگی ہوتی ہیں ۔ مشاعرے سیاسی اکھاڑے بن چکے ہیں پر اس میں مضائقہ بھی کیا ہے ؟ جدید شاعری نے ہر موضوع کو سمیٹ جو رکھا ہے ۔ رنگ تغزل ہو نہ ہو پر رنگِ تفضل ہونا ہی چاہیے کہ اسے تفضل حسین کی پارٹی نے پرموٹ جو کیا ہے ۔ شاعر کو املا نویسی سے کیا نسبت ؟ اسے کون سی اردو کی کلاس اٹینڈ کرنی ہے کہ ٹیچر کان کھینچے اور دو طمانچے رسید کرے پر انہیں اردو کے کان اور سروں کی تان کھینچنے کی پوری آزادی ہے اور ان سے بنیادی حق بھی ، بھلا جمہوریت میں کوئی کسی کے حق کیسے سلب کرسکتا ہے ۔ بعض اردو دوستوں نے انہیں سرقہ حتیٰ کہ ڈاکہ زنی کی بھی آزادی دے رکھی ہے اور وہ بڑے جوش وخروش سے تالیاں پیٹتے ہیں اور سر دھنتے ہیں ، جبکہ ہم جیسے بےادب سرپیٹتے ہیں اور دکھ کے کنکر چنتے ہیں ۔
تو صاحب بات چلی تھی کی ، کہ املا بھلے نہ آتی ہو ، صفحۂ قرطاس پر ، علم ، کو ، الم، لاکھ لکھیں مگر اسٹیج پر یہ المناک سانحہ کیونکر نظر آئے گا کہ سمعی کے ساتھ بصری لوازمات اوجھل ۔۔۔۔ بس کبھی کبھی ، ظلم ، کے ساتھ جلم، ہوجاتا ہے یا ،زندگی ، کو جندگی، عطا ہوجاتی ہے ۔۔جو قطعی ناقابلِ معافی جرم نہیں یہ تو ،، الم،، کے جھنڈے گاڑرہے ہیں اور ہم جیسے بغلیں بجا رہے ہیں ۔۔۔ لو صاحب ۔۔ میں بھی کہاں سے کہاں پہنچ گیا کہ اچھے بھلے ، مشاعرہ ، کو مشاہرہ اور شاعر کو متشاعر بنا بیٹھا ۔۔۔
( جاری ۔۔)