خدا لگتی کہوں ۔۔تو صاحب ، ہم علم سے بیگانہ ،ناآشنائے زمانہ ہیں اسی لیے دردر کی ٹھوکریں کھانا ہمارا مقدر ہے ۔ زمانہ ساز ہوتے تو زندگی اتنی بے ساز نہ ہوتی ۔ نباض زمانہ ہوتے تو غم زمانہ سے یوں چمٹے نا رہتے اگر آج کے متشاعر کےسے کسی بڑے شاعر سے چمٹے رہتے یا کسی بے ادب سیاسی تنظیم سے جڑے رہتے تو اپنی شہرت کے بھی ڈنکے بجتے ۔۔بھلے ہی قوم وملت کو ڈنک ماررہے ہوتے ۔ یا پھر کسی مفلوک الحال شاعر سے ، جو قلم فروشی تو نہ کرے ،البتہ قلم گھسائی کے نذرانے سے اس کا دو وقت کی روٹی کا انتظام ہوجائے اور ہمارا ستیہ کام ۔ اس کی خون جلا کر لکھی غزل ، ہم برموقع،برمحل پڑھتے ، وہی غزل دلی میں مشہور ہوتی تو اسے ایک ماہ بعد لکھنؤ میں سناتے ، پندرہ دن بعد حیدرآباد میں ،کچھ دن گزرنے کے بعد اجین، رتلام ۔۔۔۔میں سناتے رہتے اور مرغ مسلم اڑاتے رہتے ۔۔۔پر صاحب ، ہم ان ہتھکنڈوں سے ناواقف ۔۔۔جو ہماری بے وقوفی کے مترادف ہے ۔۔۔۔بس ہم دوسروں کی غلطیاں نکال کر وہیں کے وہیں کھڑے ہیں ۔۔۔جبکہ زمانہ شناس غلطیاں کر کرکے آگے بڑھ گئے ۔۔۔اتنے کہ آسمان میں تھگی لگا ۔۔ سمندر میں غوطے لگا سات سمندر پار اترگئے۔۔۔ اور اردو کی مٹی پلید جو وطن عزیز میں کرتے تھے ، غربت میں بھی کرنے لگے ۔۔۔ اپنی غربت کا پیچھا چھڑانے کے لیے ۔۔۔اور آج بھی یہ متشاعر روبہ عمل ہے کہ ،
لو جان بیچ کر بھی جو لعل وگہر ملے
جس سے ملے ، جہاں سے ملے ، جس قدر ملے
جاری ہے ۔۔۔