ہم نے سوچا کہ بیکار مباش کچھ کیا کر کے مصداق کسی مشہور شاعر کا انٹرویو لیا جائے کہ ہم جیسے غیر معروف کسی پارس سے رگڑ سونا بن جائیں کہ ہم سوئے سوئے بہت اوب چکے تھے لہٰذا سوئے ہوئے ادب نوازوں کو جگانے کا ذمہ لیا اپنے تئیں یہ سوچ کر کہ یہ بھی ادبی خدمت ہے ۔ کیا جاتا ہے قلم گھسا ، ہینگ لگی نہ پھٹکری رنگ آیا چوکھا ، ادب نوازوں جاگو۔۔ ایسے ایسے نگینے ادب کی آنکھوں کو خیرہ اور بے بحروں ۔۔۔ مطلب بے بہروں کو بہرہ آور کررہے ہیں ۔
غور کیا کہ انٹرویو کس کا لیا جائے ؟ سوچا ایسے شاعر کا جو معروف بھی ہو اور مصروف بھی ، محذوف یا مجذوب قسم کے شاعر کا خاک انٹرویو لیا جائے جو نہ اپنی جیب بھر رہا ہو نہ عوام کی ، اس کی شاعری کس کام کی کہ گھر میں نہیں دانے اماں چلی بھنانے ۔۔ خون جلاکر کاغذ سیاہ کیے مگر گھر میں دیا بھی نہ جلے ۔۔اور دوست یار اوروں سے لکھوا کر ایک جیب میں غزل کا کاغذ رکھیں جبکہ دوسری جیب میں کرنسی کاغذ سمیٹ سماٹ اے سی کمروں میں گزارا کریں ۔
میری نظر مشاعروں کے متشاعروں ۔۔۔۔ نہیں نہیں جنوں میں کیا کچھ کہہ گیا ۔۔۔صف اول کے شاعروں پر ٹکی کہ ان کی دھوم اقصائے عالم میں مچی نہیں بلکہ کہرام برپا کیے ہوئے ہے ۔ اللہ محفوظ رکھے ، ہمیں گلہ پھاڑنے والوں سے گلہ نہیں ،اداکاری کرنے والوں سے شکوہ نہیں ،زلفیں سنوارنے والوں سے شکایت نہیں ۔ ہم تو ان کے حمایتی ہی نہیں مشکور بھی ہیں کہ ایک ہی حمام میں ۔۔۔مطلب ایک ہی اسٹیج پر سب نظر آتے ہیں ۔۔ وااہ ۔ وااہ ادب اب اس اسٹیج پر پہنچ گیا ہے کہ جہاں ادب سازوں کی بولیاں ، ادب نوازوں کی ٹولیاں اور بے ادبوں کو نیند کی گولیاں لگتی ہیں ۔
اگر تلخ حقیقت حلق سے نیچے نہ اترے تو اس سلسلے کو موقوف کردوں !!