بچپن کے کُچھ سال شالا مار باغ لاہور کے نزدیک رہائش رہی۔ اُن دِنوں جو بھی مُلکی یا غیر مُلکی نمایاں شخصیت لاہور آتی تو اُنہیں اِس باغ کی سیر کرائی جاتی۔
باغ ، گھر اور سکول کے رستے میں آتا تھا تو سکول آتے جاتے بڑے بڑے لوگوں کا پروٹوکول دیکھا ۔ لمبے لمبے جلوس دیکھے۔ عزت کرانے کے لئیے حکمرانوں کا جَبر دیکھا، دولت والوں کو دولت سے عزت خریدتے دیکھا ۔ لیکن اصلی اور خالص والا جو عزت و احترام ایک فقیر کا دیکھا وہ اور کہیں بھی نظر نا آیا۔
تب میں سترہ اٹھارہ سال کا تھا ۔ بائیک پہ سرگودھا سے پشاور جا رہا ۔ اٹک کے پُل سے سندھ دریا پار کیا تو کچھ آگے نوشہرہ کے پاس ایک قصبہ آیا اکوڑہ خٹک ۔
مُجھے پتا تھا کہ اس قصبہ کے ساتھ ہی دریائے کابل ہے تو ارادہ کیا کہ ذرا قصبے اور دریا کی سیر کر لی جائے ۔ مین بازار میں جا کر کھڑا غور کرنے لگ گیا کہ دریا کنارے جانے کے لئیے راستہ کون سا ہو سکتا ہے ۔
سب ہی لوگ پشتو بول رہے ، نا کوئی میری بات سمجھے اور نا مُجھے کسی کی بات سمجھ آئے ۔ ہر طرف بے تحاشا رش اور شور ۔ میرے لئے یہ علاقہ ، علاقہ غیر جیسا اور ماحول بالکل اجنبی تھا ۔
اچانک ہی بھرے بازار کو جیسے سانپ سونگھ گیا ۔ ایک دم سے شور بالکُل ختم اور ہر طرف مُکمل سناٹا چھا گیا ۔ اِتنا سکوت کہ دل کی دھڑکن بھی سنائی دے ۔ سب لوگ خود بخود ایک روبوٹ کی طرح سر جُھکا کر ہاتھ باندھے بازار کے دائیں بائیں پیچھے ہٹنا شروع ہو گئے جیسے کسی کو رستہ دیا جا رہا ہو یا یوں کہ جیسے کسی کی راہ میں آنکھیں بچھانے کی تیاری ہو رہی ہو ۔
پانچ سات سیکنڈ میں ہی پوری عوام کاندھے سے کاندھا جوڑ کر ، سر جُھکائے ، ہاتھے باندھے اور سر ڈھانپے بازار کی دونوں سائیڈوں پہ کھڑی تھی ۔ سبھی لوگ بالکل بُت سے بن گئے یوں جیسے وقت رُک گیا اور لوگ سانس لینا ہی بھول گئے ہوں ۔ میں بھی لوگوں کی دیکھا دیکھی اِس قطار میں کھڑا ہو گیا لیکن بات کچھ سمجھ نا آئی کہ اللّٰہ پاک خیر فرمائیں ، ایک دم سے یہ بھرے بازار میں کیا ہونے جا رہا ہے ۔
اسی دوران دائیں طرف سے لاٹھی ٹیکنے طرح کی ٹَھک ٹَھک جیسی آواز آئی ۔ اتنے سناٹے میں اُس مدھم سی آواز سے بھی یوں محسوس ہو رہا کہ جیسے زمین کانپ رہی ہو ۔ دیکھا تو ایک نورانی چہرہ ، خمیدہ کمر والے بزرگ دائیں ہاتھ میں لاٹھی پکڑے اور بائیں میں لوٹا لئیے ، بازار کے درمیان آہستہ آہستہ چلتے تشریف لا رہے ہیں ۔
اُن بزرگوں کو آتے دیکھ کر بات سمجھ آ گئی کہ بھرے بازار کی اتنی خاموشی ، اِس درجہ تعظیم ۔ اُن بزرگوار کی خاطر تھی ۔
۔
مدینے والی سرکار کا عاشق ۔ اللّٰہ کی بارگاہ میں راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر رونے اور دوستوں سے زیادہ دشمنوں کی خیر مانگنے والی وہ عہد ساز شخصیت مرحوم حضرت مولانا عبدالحق اکوڑوی تھے ۔
یہ وہ عزت ہے جو دینے کے لئیے اللّٰہ پاک اپنے خاص بندوں کو چُنتے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...