14 فروری 1990 کو جب وائیجر 1 کائنات کی کھوج میں ہمارے نظام شمسی کے کنارے کی طرف سفر کر رہا تھا تو زمین پر بیٹھے انجینیئرز نے اس کے کیمروں کا رخ زمین کی طرف کر کے ایک تصویر کھینچی۔ اس تصویر کا محرک تھی کارل سیگن کی ذات۔ آپ اگر کارل سیگن کو نہیں جانتے تو یقین مانیں آپ انتہائی بدقسمت ہیں۔ اور اگر آپ جانتے ہیں تو اس عبقری کا میں کیا تعارف کروا سکتا ہوں۔ کچھ نام ہی کافی ہوتے ہیں۔
جب یہ تصویر کھینچی گئی تو اس وقت وائیجر کا زمین سے فاصلہ ساڑھے چھ ارب کلومیٹر تھا۔ وائیجر نسبتا سورج کے قریب تھا اور تیز روشنی بھی ایک اچھی تصویر کی راہ میں مزاحم تھی۔ بہرحال تصویر کھینچ لی گئی۔ اس تصویر کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ ایک گہرے بھورے اور سیاہ رنگ کا ایک کینوس ہے جس پر روشنی کی کچھ لہریں رقصاں ہیں۔ یہ سورج کی قربت کی وجہ سے تھا۔ ارب ہا ارب پر پھیلا خلائے بسیط اس تصویر میں سمٹ آیا ہے اور ایک کونے میں بہت غور سے دیکھنے پر ایک اعشاریہ 12 پکسل کا مدھم نیلا نقطہ دکھائی دیتا ہے۔ یہ مدھم نیلا نقطہ ہماری زمین ہے۔ کارل سیگن نے اس تصویر پر ایک لازوال تبصرہ کیا۔ میں چاہتا ہوں آپ بھی وہ تبصرہ پڑھیں۔
اس نقطے کو پھر سے دیکھو۔ غور سے دیکھو۔ یہ مدھم، تقریبا غیر مرئی نیلا نقطہ ہمارا گھر ہے۔ یہ ہم ہیں۔ اس نقطے پر ہر وہ شخص ہے جس ہم عزیز رکھتے ہیں۔ ہر وہ شخص جو ہم سے کبھی ملا ہے، ہر وہ شخص جس سے ہم نے کبھی محبت کی ہے۔ ہر شخص جو ہے اور ہر شخص جو کبھی تھا ان کی زندگی کی تمام تر کہانی اسی نقطے میں پنہاں ہے۔ ہمارا ہر لمحہ طرب، الم کی سب گھڑیاں، ہزارہا عقیدے، سینکڑوں پریقین مذاہب، ہمارے نظریات، ہماری معاشیات، عمرانیات، معاشرت کے سب صفحے، کیا شکاری اور کیا کھوجی، کیا دلیر اور کیا بزدل، تہذیبوں کے صورت گر، تہذیبوں کے دشمن، ہر بادشاہ اور ہر گدا، محبت کرنے والا ہر دل، ہر ماں اور ہر باپ، امید کی رسی سے بندھا ہر بچہ، ہر موجد، ہر محقق، اخلاقیات کا پاٹھ پڑھانے والا ہر استاد، ہر بدعنوان سیاستدان، ہر مشہور شخص، ہر عظیم رہنما، ہر زاہد اور ہر گناہگار، ہر زندگی جو جس روپ میں بھی گزری جس طور بھی گزری، جب بھی گزری، بس یہیں گزری ہے۔ اس ذرہ ریگ پر جو سورج کی ایک کرن میں معلق ہے۔ ایک ذرہ ہے یہ بس اور کچھ نہیں۔
یہ زمین کائنات کی وسعتوں میں سجا ایک بہت معمولی سا بے حیثیت اسٹیج ہے۔ اس اسٹیج پر کیا کچھ نہیں ہوا۔ سوچو ان سپہ سالاروں کے بارے میں، ان حکمرانوں کے بارے میں جو وقت کے لازوال سفر میں چند لمحوں کے لیے اس نہ نظر آنے والے نقطے کے ایک ناقابل ذکر حصے کی ملکیت کی خاطر خون کے دریا بہاتے رہے۔ اس نقطے کے حصے کر کے دیکھو۔ پہچاننا ممکن نہیں کہ ایک حصہ دوسرے سے مختلف کیونکر ہے پر پھر بھی ایک حصے نے دوسرے حصے کے انسانوں پر ظلم کے کتنے پہاڑ توڑے ہیں۔ اس نقطے پر بسنے والے ایک دوسرے کو سمجھ نہیں پاتے۔ یہ نفرتوں کے اسیر ہیں اور ہر وقت ایک دوسرے کو فنا کرنے کے لیے بے تاب۔
یہ روشنی کا مدھم سا نقطہ، لگتا نہیں کہ یہ تم پر ہنستا ہے، تمہارے خیالی احساس برتری پر، تمہارے نسلی اور نسبی فخر پر، تمہارے پر شکوہ رویوں پر اور تمہاری اس خوش فہمی پر کہ تم مرکز کائنات ہو۔ کائنات وسیع ہے۔ وشال ہے اور اس کائنات کے لامتناہی اندھیرے میں ہم ایک معمولی، بے قیمت، بے حیثیت تنہا ذرے سے زیادہ کچھ نہیں۔ اور ہم اپنی فنا کا اہتمام خود کر رہے ہیں۔ اس عظیم کائنات کے ایک نامعلوم کونے میں ہم تنہا ہیں اور کوئی آثار ہیں تو نہیں کہ ہمیں خود ہم ہی سے بچانے کے لیے کہیں سے کوئی مسیحا آئے گا۔ آسمان کی طرف لگی ہماری نظریں غلط فہم ہیں اور کچھ نہیں۔
ہم لاعلم ہیں، ابھی بہت کم جانتے ہیں پر اب تک جو جانتے ہیں اس میں بس یہی ہے وہ معلوم دنیا جہاں زندگی سانس لیتی ہے۔ اس بے نشاں بے حیثیت ذرے پر۔ اس ذرے سے ہجرت کے امکان مستقبل قریب میں تو ہیں نہیں۔ ہم کچھ زور لگاتے ہیں۔ کبھی ان حدوں سے باہر نکلتے ہیں پر بس کچھ دیر کے لیے۔ ابھی خلا میں ہم کوئی اور مستقل ٹھکانہ نہیں بنا پائے۔ جو بھی ہے ،آنے والے کئی زمانوں تک گھر ہے تو یہیں ہے۔ اس مدھم نیلے نقطے پر۔
علم فلکیات کردار کی تعمیر کرتا ہے کہ اس کی بدولت ہم کائنات میں اپنے وجود کی عاجزی سے روشناس ہوتے ہیں۔ ہم نجانے کس بات پر نازاں ہیں۔ ہماری حماقتوں، خود فریبی اور ہمارے غرور کی اس ننھی سی دنیا کی لہو لہو تصویر سے اور بڑھ کر مثال کیا ہو سکتی ہے۔ کیا ہم اب بھی یہ سمجھنے کو تیار نہیں کہ اس سے بڑھ کر ہماری کوئی ذمہ داری نہیں کہ ہم محبت کرنا سیکھ لیں۔ شاید اسی بہانے ہم اس مدھم نیلے نقطے کو بچا سکیں جو اس لامتناہی کائنات میں ہمارا واحد گھر ہے۔
کارل سیگن نے سب کچھ کہہ ڈالا۔ اس کے بعد کہنے کو کیا رہتا ہے۔ ہاں، کچھ اپنے گریبان میں جھانک لیجیے۔ ان باتوں پر نظر کر لیجیے جو ہم اہم سمجھتے ہیں۔ ہم کہ ابھی بھی پتھر کے دور سے باہر نہیں نکلے۔ ہم کہ ایسے عقیدوں اور ایسے نظریات کو انسانی جان سے محترم جانتے ہیں جن کا تعلق بس تاریخ کے مدفن سے ہے۔ ہم کہ آج بھی اس بحث میں الجھے ہیں کہ صنف نازک پر کس کس طرح کا جبر روا ہے۔ ہم کہ گلی محلوں میں احمق رہنماوں کے نام پر دست و گریباں ہیں۔ ہماری بحث آج بھی اس بات پر ہے کہ ہزاروں سال پہلے کس نے کس سے زیادتی کی۔ ہم آج بھی سر لینے اور سر دینے کی بات پر اپنے بیانیے کی عمارت اٹھاتے ہیں۔ ہم آج بھی بس ایمان اور کفر کا وزن کرتے پھر رہے ہیں۔ زمانہ بہت دن ہوئے اس بستی سے آگے نکل گیا ہے۔ ہم اب بھی عمر رفتہ کے کسی لمحے میں منجمد کھڑے ہیں۔ آنکھیں بند ہیں، عقل پر تالے لگے ہیں اور کنجی ہم کھو بیٹھے ہیں۔ تاریک سرنگ کے سرے پر کسی روشنی کا امکان بھی نہیں ہے کہ ہمارا چہرہ ہی مخالف سمت میں ہے۔ ہر قدم ترقی معکوس کا ہے۔ یہ لمحہ جو ٹھہر گیا ہے یہ بھی اک دن گزر جائے گا اور اس کے ساتھ ہماری بقا کی آخری امید بھی فنا ہو جائے گی۔ ایک نظر پھر اس کائنات پر ڈالو اور پھر سوچو کہ تم کیا، تمہارا یقین کیا، تمہارے جھگڑے کیا اور تمہارا سچ کیا۔ شاید آئن سٹائن نے ہمارے لیے ہی کہا تھا۔” کائنات کی حد ممکن ہے، انسانی حماقت کی نہیں”