ایک لیفٹسٹ پنجابی ادیب اور شاعر کی کہانی
چار دن پہلے ایک عظیم سیکولر،لیفٹسٹ اور لبرل پنجابی ادیب اور شاعر خاموشی سے اس جہان فانی کو چھوڑ کر کسی اور جہان میں چل گئے ۔آیئے آج اس عظیم انسان کی کچھ باتیں کر لیتے ہیں ۔ ہمارے سماج میں نایاب اور انتہائی تعلیم یافتہ انسان خاموشی سے گزر جاتے ہیں اور بدقسمتی سے ہمیں ان کےا بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا ،جب وہ زندہ ہوتے ہیں تو ہمارا سماج ان سے ناواقف رہتا ہے اور جب مر جاتے ہیں تو تب بھی سماج بے خبر ہی رہتا ہے۔آیئے آج اس عظیم پنجابی ادیب کی کچھ باتیں کرکے انہیں خراج عقیدت یا خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔افضل احسن رندھاوا کا شمار پنجابی کے عظیم ادیبوں میں ہوتا ہے ۔وہ پنجاب کے مشہور شاعر،ناول نگار ،ڈرامہ نگار،کہانی نویس ،وکیل اور سیاستدان تھے ۔پنجابی زبان کے لٹریچر اور فروغ میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا ۔چار دن پہلے یعنی 19 ستمبر کو 80 سال کی عمر انتقال کر گئے ۔پنجابی ادب کے پھیلاو کے لئے انہو نے ساری زندگی وقف کر دی تھی ۔افضل احسن رندھاوا کے پنجابی زبان میں پانچ ناول شائع ہوئے ،پہلا ناول دیوا تے دریا 1961 میں شائع ہوا ،1984 میں ان کا دوسرا ناول دوآبہ کے نام سے شائع ہوا ،اسی سال ان کا ایک اور ناول منظر عام پر آیا جس کا نام سورج گرہن تھا ۔ان کا آخری ناول پندھ 2001 میں شائع ہوا تھا ۔ رندھاوا صاحب کو پاکستان میں افرو ایشیا کے ادیبوں کی انجمن کا پہلا سیکرٹری جنرل ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس تنظیم کے صدر فیض احمد فیض تھے۔ ناول ’دیوا تے دریا‘ میں قیام پاکستان سے قبل پنجاب اور اس کی قدروں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ہر پنجابی شخص کی زمہ داری ہے کہ وہ اس ناول کو ضرور اسٹڈی کریں۔ان کے ناول دو آبہ میں پنجاب میں خاندانی دشمنی کے آئندہ نسلوں پر بُرے اثرات اور قاتل و مقتول کے خاندانوں کی ذلت و رسوائی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ تیسرےناول ’سورج گرھن‘ کا موضوع انسانی آزادی ہے۔ان کے کل چھ شعری مجموعے شائع ہوئے ۔ ’شیشہ اک لشکارے دو (1965)، رُت دے چار سفر (1975)، پنجاب دی وار (1979)، مٹی دی مہک(1983) ‘ اور ’چھیواں دریا‘ (1997) شامل ہیں جبکہ آپ کی پنجابی غزلوں کی ایک کتاب ’پیالی وچ اسمان‘ (1983) میں شائع ہوئی۔پنجاب کے بائیں بازو کے اس ادیب نے شاعری میں روایتی اور جدید دونوں طرح کے موضوعات پر لکھا ہے۔ناول پنجاب دا وار 1971 میں شائع ہوا،جنرل ضیاٗالحق کے دور میں اس کتاب پر پابندی لگا دی گئی تھی ۔1973ء میں شائع ہونے والی 'رن گھوڑا تے تلوار'، 1989ء میں چھپنے والی 'منا کوہ لہور' اور 2010ء میں شائع ہونے والی ’الہی مہر‘ آپ کی کہانیوں کی کتابیں ہیں۔اس کے علاوہ 1989ء میں انڈیا سے ’رندھاوا دیاں کہانیاں‘ کے نام سے آپ کی کہانیوں کا مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے۔ ان کی کہانیوں کا زیادہ تر پس منظر اور کردار دیہی پنجاب سے ہیں۔اپنی کہانیوں اور ناولوں کے پس منظر اور کرداروں کے حوالے سے وہ کہا کرتے تھے کہ 'میری کہانیوں اور ناولوں کے کردار و واقعات پنجاب کی روزمرہ زندگی سے ہیں جو سانجھے پنجاب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ میں قیام پاکستان سے قبل کے پنجاب کو ہی پورا پنجاب مانتا ہوں۔'پاکستان، انڈیا، کینیڈا اور برطانیہ کی مختلف ادبی تنظیموں کی جانب سے بھی رندھاوا صاحب کو 20 کے قریب ایوارڈز سے نوازا گیا۔آپ نے انگریزی سے پنجابی میں تراجم بھی کئے ہیں۔نائیجریا کے ایک ادیب کا ناول تھا جس کا نام تھا things fall a part اس کا پنجابی زبان میں ترجمہ کیا اور پنجابی میں اسے ٹٹ بھج کا نام دیا ۔عظیم ہسپانوی ناول نگار گبرئیل گارسیا مارکیز کا ایک مشہور ناول تھا A CHRONICLE OF DEATH FOR TOLDاس کا ترجمہ انہوں نے موت دا روزنامچہ کے نام سے کیا ۔افضل احسن رندھاوا سیاست میں بھٹو صاحب کے بہت قریب تھے ،اپنے آپ کا تعارف سیکولر ،لبرل اور لیفٹسٹ دانشور اور سیاستدان کے طور پر کرانا پسند کرتے تھے ۔1974 میں فیصل آباد سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ،جنرل ضیاٗ کے دور میں ایک فوجی عدالت نے سات سال کے لئے انہیں سیاست سے نااہل قرار دیا تھا ۔پچاس سال تک وکالت کرتے رہے ،پاکستان اور بھارت میں دوستی کے سب سے بڑے حامی تھے ،ان کا شمار ان ادیبوں میں کیا جاتا ہے جنہیں بھارت میں بھی ادب و احترام سے نوازا جاتا تھا ۔ان کا پنجابی ادب کسی بارڈر کا محتاج نہیں تھا ۔انسانی حقوق ،لبرل سیاست اور لٹریچر پر انہیں بھرپور عبور حاصل تھا ،گھنٹوں گھنٹوں ان موضوعات پر باتیں کرتے رہتے تھے ۔پنجاب جہاں پڑھنے لکھنے کا رواج بہت ہی کم ہے ،وہاں پر ان کے بارے میں مشہور تھا کہ ان کا بہت ہی گہرا مطالعہ ہے اور ہر وقت مطالعے میں مصروف رہتے تھے ۔پنجاب میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں میں ان کا شمار کیا جاتا تھا ۔پنجاب جہاں گھر میں پنجابی زبان بولنا مناسب سمجھا نہیں جاتا ،گھر سے باہر بھی پنجابی زبان میں بولنے کو احساس کمتری کہا جاتا ہے ،وہاں پر ایسے ادیب کا ہونا ایک خوش قسمتی کی بات تھی ،لیکن پنجابی زبان کی بدقسمتی یہ ہے کہ ایسا انسان بھی اب جہان فانی سے کوچ کر گیا ہے ۔پنجاب کی لسانی احساس کمتری کی دنیا میں افضل احسن رندھاوا نے پنجابی زبان کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا تھا ،اب وہ روشن مینار بھی نہیں رہا ۔پنجابی لٹریڑی ہال آف فیم اور لبرل انسانی حقوق کی جدوجہد کے حوالے سے انہوں نے اپنا نام بنایا ۔افضل احسن رندھاوا کی پنجابی زبان و ادب کے لیے خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔1937ء کو مشرقی پنجاب (بھارت) کے ضلع امرتسر کے علاقے حسین پورہ میں آنکھ کھولنے والے افضل احسن رندھاوا نے ایک بھرپور ادبی و سیاسی زندگی گُزاری ۔ بطور پنجابی شاعر، کہانی کار، ڈرامہ نگار، مترجم اور ناول نگار خوب نام کمایا اور اپنی زندگی میں 20 سے زائد کتابیں لکھیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ رندھاوا صاحب نے ادبی سفر کا آغاز 50ء کی دہائی میں اردو زبان میں کہانیاں لکھنے سے کیا تھا۔ اُن کی اردو میں کہانیاں لاہور سے نکلنے والے رسالوں ’اقدام‘ اور ’قندیل‘ میں شائع ہوتی تھیں۔۔ء1958 سے آپ نے باقاعدہ طور پر پنجابی میں لکھنا شروع کر دیا تھا۔1981ء میں فیصل آباد میں نظر بندی برداشت کرنا پڑی۔ اس کے علاوہ لبرل خیالات کی وجہ سے ان پر ریڈیو اور ٹی وی پر بات چیت کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی ۔اُن کا ایک خوبصورت شعر پیشِ خدمت ہے۔۔۔۔۔رتّ سیاہی ابلے قلم دے سنگل ٹٹن ۔۔۔۔ قید چوں اندر والے حرف کدے تے چھٹن۔۔۔۔۔اس کا اردو ترجمعہ یہ ہے کہ سرخ سیاہی ابلے اور قلم کی زنجیریں ٹوٹ جائیں ۔قید حروفوں اور خیالات کو کبھی تو آزادی نصیب ہو ۔آٹھ ستمبر انیس سترہ کو فیس بک پر انہوں نے اپنی آخری پوسٹ یہ کی تھی ،یہاں پر بندر نے بندوق پکڑی ہوئی ہے ،اندھے کے ہاتھ غلیل ہے ،اس میں تیری کیا حکمت ہے رب سائیں،اس میں تیرا کون سا خیال کارفرما ہے ۔رندھاوا کے ضمیر میں بغاوت ،مزاحمت ،انکار ،للکار اور انحراف جیسی خصوصیات تھی ،اس لئے وہ ایک نایاب انسان تھے ،کاش یہ مزاحمت پنجاب کے سماج اور زہنیت میں بھی ہوتی ۔وہ پنجاب جس نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیا ۔رندھاوا صاحب نے پنجابی کلچر میں انقلابی ،مزاحمتی اور باغیانہ سوچ پیدا کرنے کی کوشش کی ،یہی ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے ،کاش پنجاب کے کلچر میں افضل احسن رندھاوا جیسے ادیبوں کی سوچ کو پزیرائی مل سکے ،ایسا ہوگیا تو پاکستان کو ترقی پسند اور فلاحی ریاست بننے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔