سہیل احمد خان پروفیسر‘ڈاکٹر ‘سکالر اور نقاد تو تھے ہی‘ ان کا اصل کارنامہ اور ہے!اورنٹیل کالج (پنجاب یونیورسٹی) اورگورنمنٹ کالج لاہور کے بلند ترین تدریسی مقامات پر فائز رہے۔جاپان میں اردو پڑھائی۔ تنقید پر لکھا کم‘لیکن ان کی رائے صائب ہوتی تھی۔تاہم اردو ادب کے چوکس طلبہ کو چھوڑ کر‘ کم ہی لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ سہیل احمد خان اردو نظم کے رجحان ساز شاعر تھے۔انہوں نے ایسی ایسی جدید نظمیں لکھیں جن سے اردو ادب کا دامن پہلے تہی تھا۔صرف دو مختصر کتابیں ۔ایک موسم کے پرندے‘ اور… راہ کی نشانیاں۔ لیکن سینکڑوں پر بھاری۔ خاص طور پر ’’ایک موسم کے پرندے‘‘جدید اردو نظم کے حوالے سے سنگ میل سے کم نہیں۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ خارج ازوزن یا ٹین ایجرز کے لیے گھسی پٹی شاعری کرنے والے‘ جو پوری دنیا میں اردو شاعری کی نمائندگی کرتے پھرتے ہیں‘سہیل احمد کی شاعری سے آشنا ہی نہیں!
آج کی سیاست کا رنگ دیکھ کر اصل میں سہیل احمد خان کی ایک نظم یاد آ رہی ہے۔
’’ایک لمحے کا سمندر‘‘ایک ایسا ادب پارہ ہے جو سمندر کی سطح پر ایک لمحے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا احاطہ کرتا ہے۔ایک لمحہ گزرنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے !لیکن ایک لمحے میں سارے کا سارا منظر نامہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ کہنے کو فقط ایک لمحہ ہے لیکن اس ایک لمحے میںکیا کچھ نہیں ہوا۔لہروں سے پروں کو دھونے والے پرندے اڑ گئے ہیں۔تیزی سے آنے والی موج کنارے سے ٹکرا گئی ہے۔کشتی جو سطح آب پر ساکن تھی‘چل پڑی ہے ۔جہاز کے عرشے سے اٹھنے والی بلند آواز گم ہو چکی ہے۔ایک اڑتے پرندے کا پر ٹوٹ کر کنارے پر آ گرا ہے۔بادل کی اوٹ سے سورج نکل کر ساحل پر دھوپ بکھیر گیا ہے۔دور افق پر ایک جہاز نمودار ہو گیا ہے‘ جو ساحل کا رخ کر رہا ہے۔یہ سب کچھ… ایک لمحے میں ہوا ہے ؎
مگر اب وہ لمحہ کہاں ہے؟
ہر اک سمت بکھرے مناظر کی حیرانیاں ہیں
ہر اک سمت نیلا سمندر رواں ہے!!
بس یہی حال آج کی سیاست کا ہے۔وہ ایک لمحے کا سمندر ہے تو یہ ایک لمحے کی سیاست ہے!ایک ایک لمحے میں کیا کچھ نہیں ہو رہا۔عدالت عالیہ فوج بلانے پر حکومت سے جواب طلب کر رہی ہے۔مسلم لیگ نون تحریک انصاف کے مطالبات پر غور کرنے کے لیے تیار ہو گئی ہے۔خورشید شاہ نصیحت کرتے ہیں کہ عمران خان سے بات کرنی ہے تو جلد کرو۔جنرل راحیل فوجی جوانوں کے ساتھ میران شاہ اور عمران خان بنوں عید مناتے ہیں؟وزیر اعظم حرمین شریفین کی زیارت کے بعد واپس پہنچتے ہیں اور بنوں پر انہیں بریفنگ کون دیتا ہے؟متعلقہ وفاقی وزیر جنرل عبدالقادر بلوچ؟نہیں!خیبر پختونخوا کے گورنر جناب مہتاب عباسی؟ نہیں!وزیر داخلہ‘ جن کا مجموعی حوالے سے یہ قلمدان بھی بنتا ہے؟ نہیں؟فوج کا کوئی نمائندہ؟نہیں!نہیں!نہیں!نہیں!وزیر اعظم کا اسلوب حکمرانی یہ ہے ہی نہیں کہ وہ اس سے بریفنگ لیں جس کی ذمہ داری ہے! ان کا اسلوب سیاست یہ ہے کہ اختیارات خاندان کے اندر ہوں۔یا برادری کے اندر یا…اگر وہ بہت زیادہ لبرل ہو جائیں تو… ایک خاص علاقے کی ایک خاص پٹی کے اندر!چنانچہ بنوں کے حالات پر بریفنگ انہیں پنجاب کے وزیر اعلیٰ دیتے ہیں۔آپ اگر حیران ہو رہے ہیں کہ بنوں کے حالات پر وزیر اعظم خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ سے بریفنگ کیوں نہیں لیتے ؟لے ہی نہیں سکتے اس لیے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تو وزیر اعظم کے بھائی ہیں!خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ یا گورنر یا متعلقہ وفاقی وزراء… آئینی طور پر ذمہ دار تو ہیں لیکن… خاندان کے افراد کے ہم پلہ نہیں ہو سکتے!
ایک لمحے کی سیاست!بہت کچھ ہو چکا ہے!عمران خان نے کہا ہے کہ ’’چودھری نثار نون لیگ میں واحد شخصیت ہیں جو درباری نہیں! ان کے لیے ہماری پارٹی کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں!‘‘عمران خان کا یہ بیان اگر جام جہاں نما نہیں‘ تو آئینہ ضرور ہے ۔اس میں بہت کچھ دیکھا جا
سکتا ہے!اس کالم نگار نے آج تک یہ حرکت نہیں کی کہ اپنے کسی گزشتہ کالم سے بڑا یا چھوٹا اقتباس دوبارہ پیش کیا ہو۔لیکن قارئین سے معذرت کے ساتھ۔آج یہ حرکت کرنا پڑ رہی ہے۔پورے چھ ماہ قبل اپنے کالم ’’آرزوئے وصال کرتے ہو۔‘‘میں جو ستائیس جنوری 2014ء کو روزنامہ دنیا میں چھپا تھا‘ اس کالم نگار نے لکھا تھا۔
’’یہ کالم نگار پہلا شخص تھا جس نے مہینوں پہلے لکھا تھا کہ مسلم لیگ کی حکومت وسطی پنجاب کے اردگرد گھومتی ہے اور چودھری نثار علی خان کے سوا تمام کے تمام اہم کردار اس تنگ پٹی سے ہیں جو فیصل آباد سے شروع ہوتی ہے اور رائے ونڈ لاہور اور گوجرانوالہ کے نواح سے ہوتی ہوئی سیالکوٹ جا پہنچتی ہے‘‘۔
پنجاب سے باہر تو مسلم لیگ نون ہزیمت کب کی اٹھا چکی ہے ۔غوث علی شاہ ہوں یا لیاقت جتوئی‘تھرپارکر کے ارباب ہوں یا نوشہرو فیروز کے جتوئی یا ٹھٹھہ کے شیرازی یا ممتاز بھٹو۔بقول ناصر کاظمی ؎
اڑ گئے شاخوں سے یہ کہہ کر طیور
اس گلستاں کی ہوا میں زہر ہے
یا یوں کہیے کہ ؎
جبیں سے بخت آخر اڑ گیا یہ کہہ کے اظہار
یہاں اب ختم میرا آب و دانہ ہو رہا ہے
پیر صابر علی شاہ اسلام آباد کلب میں کبھی کبھی غم غلط کرتے نظر آ جاتے ہیں۔اب مسئلہ پنجاب کے اندر کا ہے۔صرف دو نمایاں یعنی پہلی صف کے لیڈر وسطی پنجاب کی تنگ پٹی سے باہر کے ہیں۔راجہ ظفر الحق اور چودھری نثار علی خان!نا م تو سرتاج عزیز کا بھی لیا جا سکتا ہے لیکن ایک تو وہ ’’ثُمّ لاہوری‘‘ ہیں۔ دوسرے ان کی حیثیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزارت خارجہ انہیں دی گئی لیکن دودھ میں مینگنیاں ساتھ ہی ڈال دی گئیں۔صدارت کے لیے وہ موزوں ترین شخص تھے لیکن چونکہ وہ ’’یس مین‘‘ ہونے کی ’’قابلیت‘‘ نہیں رکھتے‘اس لیے ایک ایسے نابغہ کو چنا گیا جن کی تحریر و تقریر اور قابلیت سرتاج عزیزسے کہیں ’’زیادہ‘‘ ہے!رہے راجہ ظفر الحق ۔تو وہ اب محض تبرک ہیں۔ ان کے سرگرم ایام سیاست کب کے گزر چکے۔یوں بھی ہر شخص جانتا ہے کہ وہ خاندان میں ہیں نہ ’’برادری‘‘ میں۔ چودھری نثار علی خان وہ واحد سیاست دان ہیں جو مسلم لیگ نون کے لیے ترنوالہ ثابت نہیں ہو رہے ۔چکری اور چونترہ کا علاقہ صدیوں تک انتظامی حوالے سے فتح جنگ کا حصہ رہا ہے۔1930ء میں برطانوی حکومت نے ضلع اٹک کا جو گزٹیئرGazetteerچھاپا تھا‘ اس میں پولیس سٹیشن چونترہ اور چکری کی چوکی کوفتح جنگ کا حصہ دکھایا گیا ہے۔اٹک کا ضلع تو 1904ء میں بنالیکن چونترہ کا علاقہ اس سے پہلے بھی فتح جنگ کا حصہ تھا۔ اور اس کی تاریخ کے سارے دھارے پنڈی گھیپ‘ اٹک اور مکھڈ سے ملتے ہیں۔وسطی پنجاب کے لوگ اس علاقے کی تاریخ سے واقف ہیں نہ نفسیات سے۔یہاں لاہور اور دلی کا درباری کلچر‘ جس میں ہر بات ذومعنی ہوتی ہے‘ مفقود ہے۔یہاں ایک ہی فارمولا ہے۔ یا جان و تن نثار ہے۔یا تیز دھار ہے۔ یہ باریک نکتہ عمران خان کو بھی معلوم ہے جو چودھری نثار علی خان کو بچپن سے جانتے ہیں۔چودھری نثار میں لاکھ کمزوریاں سہی‘لیکن وہ اس گروہ کی طرح جی حضور اور یس مین کا رویہ نہیں اپنائیں گے جو اس وقت پیش منظر پر چھایا ہوا ہے اور ’’خاندان‘‘ یا ’’برادری‘‘ پر مشتمل ہے!عمران خان کو معلوم ہے کہ ع
دل کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا
اسی لیے تحریک انصاف کا دروازہ کھلا رکھا گیا ہے۔ ایک لمحے میں سیاست کے سمندر میں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں‘ اور ہو سکتی ہیں! ؎
ہر اک سمت بکھرے مناظر کی حیرانیاں ہیں
ہر اک سمت نیلا سمندر رواں ہے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“