زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں
ـــ___
ایک لاہوری دوست
ایک درویش شاعر کا مدفن اور میانی صاحب کا ایک گوشہ دوستی میں جبکہ وہ بےلوث ہو ایک جادوئی حس ہوتی ہے
ہم کہیں بھی جاتے ہوئے لاہور سےگزریں عرفان کوخبرہوجاتی ہے اور وہ ہمیں قابوکرلیتاہے
عرفان خالص لاہوریا ہے سو اس شہردلپذیر میں گزرے ہرپل میں آپ اس کی دسترس میں ہوتے ہیں
اور عرفان کی دسترس میں ہونے کا تجربہ ہم نے صرف محاورتاً ہی نہیں حقیقتاً بھی کیا ہے۔ سی ایم ایچ لاہور میں بائیں گھٹنے کی جراحت کے لازمی نتیجے میں جب ہم واقعتاً بستر سے لگ گئے تو یہ عرفان ہی تھا جس نے اس دو بیڈ والے کمرے میں ہمارے ہمسائے السر کی شکایت پر اسپتال داخل ہوئے مجاہد بٹالین کے کیپٹن عبدالرؤف کو کچھ چرب زبانی اور کچھ السر کے علاج کے دیسی ٹوٹکے جن کا جزوِاعظم تازہ گدارئے ہوئے امرود تھے جنہیں عرفان بطور ہدیہ ساتھ لیتا آیا تھا، کپتان صاحب کو تھما انہیں قصور میں مسز عبدالرؤف کی طرف روانہ کردیا کہ تسیں کیہڑی مکی دی راکھی بیٹھے او، رنّاں والے گھر ہی سوندے چنگے لگدے نیں۔
اور خود کپتان صاحب کی شناخت اوڑھ کر نہ صرف ہمارے ساتھ والے بستر پر دراز ہوگیا بلکہ ایک رغبت سےالسر کی دوائی کاکورس بھی مکمل کیا۔ یہ سب کچھ اس لیے کہ سی ایم ایچ کےبے نیاز اٹینڈینٹس کےرحم وکرم پر لیٹےحرکت سے معذور اس کےدوست پر سی ایم ایچ کی ایک رات بہت بھاری گزری تھی اوراسے یہ قبول نہیں تھاکہ ہم مزید کسی تکلیف میں مبتلاہوں دیکھیے ایک یار دلدار کا ذکر آیا تو قلم لکھتا ہی چلا گیا۔ واپس موضوع کی طرف پلٹتے ہیں۔
2008 کی دوپہرکا ذکر ہے میں ابھی لاہورپہنچا ہی تھااور کچھ گھنٹوں کی دوری پر لاہور ریلوےسٹیشن سےکراچی ایکسپریس کامسافرتھا
وقت کم تھااور مقابلہ سخت۔عرفان نےمسافراورسامان دونوں کوسموچا کارمیں ڈھو
سیدھامیانی صاحب کےایک گوشےمیں آبسرام کیااورگویاہوا’مینوں لگیا کہ ایہہ جگہ ساڈے مطلب دی جے’
قبروں کےدرمیان ایک نسبتاً کشادہ جگہ پرجتنی کشادگی ایک قبرستان میں ہوسکتی ہےایک تھڑا جسکی چوگوشیہ حدملگجے نارنجی رنگ میں رنگی اینٹوں کی ایک قطارسے کی گئی تھی
نشست گاہ فقیردرویش باباساغرصدیقی
ساتھ چبوترے پر قبرکے نشان کی لوح مزار۔ آخری آرام گاہ فقیرشاعرساغرصدیقی
سو اس پل دو پل کےوقفۂ سکوت میں دو درویش (ایک مسافراور ایک لاہوریا) ایک تیسرے درویش سے اس کے مدفن کی نشست گاہ پر ملے اس کتبے سے ڈھو لگائے
جس کے ماتھے پہ نئی صبح کا جھومرہوگا
ہم نے اس وقت کی دلہن کو بہت یاد کیا
سلیم یزدانی کے ساتھ ایک انٹرویو نما گفتگو میں ساغرؔ نے بتایا تھا کہ انہیں اپنی پیدائش، ماں باپ کے بارے میں کچھ خبرنہیں اور نہ ہی اس ستم زدہ زندگی نے انہیں کسی خونی رشتے کا ساتھ بخشا جسے و ہ بھائی یا بہن کہ سکتے ۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے لوگوں سے اپنا نام محمد اختر سنا
یہ انبالےکےاساتذ ہ کااعجازتھاکہ وہ اردوزبان اورشعروادب سےبہرہ ورہوئے
ناصرحجازیؔ کےتخلّص سےشعرموزوں کرنےکی ابتدا کرنےوالے نےجس دم اپنےلیےساغرؔ صدّیقی پسند کیااسی لمحےاردو شاعری میں ایک نئےاسلوب نےدرویشی کی کالی چادر اوڑھ بے نیازانہ انگڑائی لی
ہمارےدوست حکیم خلیق الرحمٰن لکھتے ہیں
اس کا پہلا مجموعہ کلام ایک ناشر نے ساغر کے اشعار سن سن کر جمع کرنے کے بعد چھپوایا تھا جس کا پہلا ایڈیشن ہی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گیا۔۔۔لیکن اس ناشر نے ساری آمدن اپنی جیب میں ڈال لی۔۔۔۔۔۔۔ساغر آج بھی مشہور ہے اسکا کلام بہت سے ” مشہور” افراد کی روزی روٹی کا ذریعہ آج بھی ہے۔۔۔۔
کتنی غزلیں تھیں جو اس تخلّص کے اعجاز سے معتبرٹھہریں اورنہ جانے کتنی اور ہوں گی جو ہوش وخرد کی سرحدوں سے پرے، جنوں اورپری کے عوض معاوضے او ر ایک بےخود ی و بےگانگی کی قیمت اداکرنے میں بے توقیرہوئیں
انبالے کے مہاجر کو تقسیم اور لاہورکی آب وہوا راس نہ آئے
ایک شہر دلربا کے در وبام نے ایک جوانِ رعناکو بے خودی کے نشے میں امان تلاش کرتے اورجوگ کی سیاہ چادرکے چیتھڑے اوڑھتے اسی بے نیازی اور کٹھورپن سے دیکھا جو دلرباؤں کا خاصہ ہے۔اگر ڈھونڈنے والی نظرہو تو آج بھی ایک شکستہ ساغرؔ کی کرچیاں لاہورکے کونے کھدروں میں مل جائیں گی۔
موری دروازےکاگم گشتہ ریڈنگ روم۔ گئےوقتوں کےپاک لینڈ پریس کےسامنےکا فٹ پاتھ۔ داتا دربارکےباہر کہیں ملک تھیٹر کےپاس ایک بند دکان کا زیریں تھڑا۔ چوک رنگ محل کا آستانۂ قلندریہ۔
جابجا ایک چھلکتے ساغرؔ کی باقیات بکھری پڑی ہیں
ہوش وخردسےبےگانہ سیاہ پوش ساغرؔبابا کوجب دم رخصت کاالہام ہوا
تو اس نےکالی چادرتیاگ سفیدکفنی اوڑھ لی
اس مقتلِ گُل میں کچھ دن اس کےچاہنےوالوں نےایک عمرکی بے کسی کے عالم میں اسے خون تھوکتے دیکھا
یہاں تک کہ اس کاسفر تمام ہوا اور ایک درویش کےماننےوالے اسےمیانی صاحب کےمدفن میں گاڑ آئے۔
یونس ادیب نےجب شکست ساغرؔ لکھی تو ہمارےدرویش شاعرکو میانی صاحب میں دفن ہوئےنو سال گزرچکے تھے۔ اسوقت کےکتبے پرلکھاتھا، اورصاحبونقل کتبہ، کتبہ باشد
عاشق کو سجدہ کرنے کی مستی میں اس بات سے کوئی سروکارنہیں ہوتاکہ اس کی پگڑی کہاں گری ہےاور اس کا سر محبوب کے قدموں پرکس انداز سے گرتاہے
اورپھرساغرؔکا ہی ایک شعر
سنا ہے اب تلک واں سونے والے چونک اٹھتے ہیں
صدا دیتے ہوئے جن راستوں سے ہم گزر آئے
بہت بعد کےسالوں میں جب میں عرفان کی ہمراہی میں دعاکے لیےہاتھ اٹھاتاتھا تووہاں کالےاور کچھ ملگجےنارنجی رنگوں میں رنگی قبرتھی اوربہت سارےساغرکےشعر
بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے
ساغرؔ کسی کے حسن تغافل شعار کی
بہکی ہوئی ادا ہوں مجھے یاد کیجیے
اگر آپ آج کے میانی کی بھول بھلیوں میں ثابت قدم رہتے ہوئے ساغرؔ کا کھوج لاتے ہیں جیسا کہ ہمارے دوست طلحہ شفیق لائے تو معلوم پڑے گاکہ
قبرپر اب چھت ڈل چکی ہےا ور اب وہاں میلہ لگتا اور لنگرتقسیم ہوتاہے۔
جسکی زندگی درویشی کے چیتھڑے اوڑھنے میں گزری وہ مرنے بے بعد بھی غنی رہا۔ اس کے مرنے کے بعد اس کے ہم عصروں نے اسے یاد کیا۔
اے حمید کو ساغر امرتسر کی نسبت سے یاد ہے کہ امرتسر اے حمید کے روم روم میں بستا تھا اور وہ ہر چاہنےوالےکوامرتسر کے آئینے میں ہی دیکھتے تھے۔ امرتسر میں ساغر صدیقی سے پہلی ملاقات میں اے حمید کو جو یاد رہے وہ ساغر کے بال تھے۔ ’نسواری بال جو بڑے چمک رہے تھے اور جن میں کنڈل پڑے تھے۔ ہم نے کیا باتیں کیں؟ مجھے یاد نہیں۔ مگر مجھے ساغر کے کنڈلوں والے چمکیلے بال آج بھی یاد ہیں۔‘
اور پھر اے حمید کا لہجہ کچھ کٹیلا کچھ بے سوادا ہوجاتاہے
‘ساغر صدیقی پر کسی بھی نشے کا کچھ اثر نہیں ہوا۔اس کےاعصاب آخر تک بڑے تنومند رہے۔ جتنی چرس ساغر صدیقی نے پی، جتنا مارفیا ساغر صدیقی نے لگایا، اتنی چرس آج کے سب سے بڑے شاعر کو پلادیں، اتنا مارفیا آج کے سب سے بڑے شاعرکولگا دیں
اور پھر اسے کہیں کہ یہ شعر لکھ کر دکھا دے
میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں ‘
’اردو کے ممتاز شاعر مسٹرساغر صدیقی‘کے انتقال پر لاہور کے ایک اخبار میں ایک ڈیڑھ انچی کی خبر چھپی جس پر طنز کرتے ہوئے اپنے مخصوص پیرائے میں انشاء جی نے لکھا
ممتاز شاعر کا لفظ تو رپورٹر نے ترس کھاکر اپنی طرف سے لکھ دیا ہے، زندگی میں تو کسی نے اسے ایسا بھی نہ لکھا تھا۔ ’آج یہاں انتقال ہو گیا‘ میں آج کا لفظ بھی جائے تامل ہے۔ آج کی کیا قید ہے، اس کا تو پیدا ہوتے ہی انتقال ہوگیا تھا۔ ’انتقال ہوگیا‘ کہنا بھی بے صرفہ ہے۔
اس شخص کا اور کیا ہوسکتا تھا، سوائے انتقال کے۔ کیا اس کا کچھ اور بھی ہوسکتا تھا۔ شادی، ولیمہ، استقبال، تاج پوشی، دعوت، ضیافت، عہدہ، عہدے میں ترقی ؟ سپرد خاک کرنے کی بھی ایک کہی۔ وہ تو مدت سےسپردِ خاک تھا۔ خاک کےفرش پر پڑارہتا تھا، خاک پھانکتا تھا۔ خاک میں مل چکاتھا، خاک ہوچکاتھا۔
لوگ اس پر خاک ڈال چکے تھے۔ ہاں اتنا نکتہ خبر میں شاید نیا ہوکہ قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔ اس سے پہلے قبرستان میں سپردِخاک نہ تھا۔اس سے باہر تھا۔
___
ہم نے اپنے محبوب شاعر کی برسی پر اسے یاد کیا۔ اللہ ساغرؔ صدیقی سے راضی ہو۔ آمین
یادوں کو اک لڑی میں پروتے اس دھاگے میں جو ساغرؔ کی تصویروں کے عکس ہیں وہ یونس ادیب کی مرتب کردہ کتاب ’ساغرؔ صدیقی شخصیت فن اور کلام‘ سے لی گئی ہیں۔