یہ خفیہ اجلاس امریکہ کے ایک نامعلوم مقام پر منعقد ہوا۔ اس میں گستاخانہ فلم بنانے والے تینوں افراد مصنف، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر شریک ہوئے۔ مبصر کے طورپر ایک بھارتی اور ایک اسرائیلی نمائندہ بھی موجود تھا۔ وہ مصری قبطی بھی شریک تھا‘ جس نے فلم کا عربی میں ترجمہ کیا تھا۔ بائیس ستمبر کو ہونے والے اس خفیہ اجلاس کا انعقاد اس قدر احتیاط سے کیا گیا تھا کہ میڈیا کو ہواتک نہ لگنے دی گئی ۔
کارروائی شروع ہوئی۔ سب سے پہلے گستاخانہ فلم کا پروڈیوسر کھڑا ہوا۔ اس کی آواز میں ارتعاش تھا۔ لیکن تھوڑی ہی دیر میں وہ خوداعتمادی سے بھرپور تقریر کررہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا ”حضرات ! ہم نے یہ فلم بناکر بہت بڑا خطرہ مول لیا۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمان جہاں بھی ہوں اور جیسے بھی ہوں۔ اپنے پیغمبر کی توہین نہیں برداشت کرسکتے۔ اس معاملے میں جدید مسلمان، دقیانوسی مسلمان، گنہگار مسلمان اور عابد وزاہد مسلمان سب برابر ہیں۔ یہ ان کی دکھتی رگ ہے۔“
ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ فلم کے مصنف نے اسے ٹوکا ”بات مختصر کیجئے، یہ بتائیے کہ خطرہ کون سا تھا جو ہم نے مول لیا۔“
”میں اسی طرف آرہا تھا۔“ پروڈیوسر نے سلسلہ¿ کلام دوبارہ شروع کیا۔ ”ہم نے بہت بڑا خطرہ مول لیا۔ اس بات کا بہرطور امکان تھا کہ مسلمان اس کے جواب میں اہل مغرب کو نقصان پہنچاتے۔ یہ نقصان کئی طرح کا ہوسکتا تھا۔ وہ ہماری مصنوعات کا بائیکاٹ کرسکتے تھے۔ اگر چوّن پچپن مسلمان ممالک ہماری مصنوعات کا بائیکاٹ کردیتے تو ہمیں لینے کے دینے پڑجاتے۔ یہ خطرہ بھی موجود تھا کہ گستاخانہ فلم ریلیز ہونے کے بعد تمام مسلم ملکوں کے سربراہ مل بیٹھتے اور کچھ ایسے فیصلے کردیتے جن کے آگے اہل مغرب ، خاص طورپر ، امریکہ کے عوام اور حکومت بے بس ہوجاتی۔ مثلاً یہ مسلمان سربراہ اگر امریکہ سے مطالبہ کربیٹھتے کہ ہولوکوسٹ کی طرح مسلمانوں کے رسول اور قرآن کی توہین کے خلاف بھی قانون سازی کی جائے۔ انکار کی صورت میں اگر تمام کے تمام مسلمان ملک امریکہ سے سفارتی تعلقات توڑ لیتے، امریکی سفیروں کو اپنے اپنے ملک سے نکال دیتے اور امریکیوں کو ویزے دینے سے بھی انکار کردیتے تو امریکہ
سفارتی تنہائی
(ISOLATION)
برداشت نہ کرسکتا۔ پچپن مسلمان ملکوں سے امریکہ کے لاتعداد مفادات وابستہ ہیں۔ وہ کبھی نہ برداشت کرتا کہ ان تمام ملکوں میں امریکیوں کا داخلہ بند ہوجائے۔ مسلمان ملکوں کے ان متحدہ اقدامات کا نتیجہ یہ نکلتا کہ امریکہ گھٹنے ٹیک دیتا۔ قانون سازی کرنا پڑتی اور فلم بنانے والوں کے خلاف بھی کارروائی کرنا پڑتی۔
ایک اور خطرہ یہ تھا کہ مسلمان ملکوں کے سنجیدہ اور صف اول کے دانشور اکٹھے بیٹھ کر بڑے بڑے تھنک ٹینک بنادیتے‘ جن میں میڈیا ، سائنس، ٹیکنالوجی، آئی ٹی اور اقتصادیات کے ماہرین ہوتے۔ یہ لوگ ایسی منصوبہ بندی کرتے کہ اگلے دوعشروں میں مسلمان ممالک مغربی ممالک کے ہم پلہ ہوجاتے اور سائنس، ٹیکنالوجی اور اقتصادیات کے میدانوں میں اس قدر منظم کام کرتے کہ اہل مغرب کے محتاج نہ رہتے۔“
یہ کہہ کر پروڈیوسر بیٹھ گیا۔
اس کے بعد فلم کا ڈائریکٹر اٹھا اور اپنی تقریر کا آغاز کیا۔
”ٹھیک ہے یہ سارے خطرے موجود تھے لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہوا اور میں اس پر آپ حضرات کی خدمت میں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ہم نے خطرات مول لیے اور ہم کامیاب ٹھہرے۔ پروڈیوسر نے ہماری مصنوعات کے بائیکاٹ کا ذکر کیا ہے۔ مسلمانوں نے آج تک مغربی ملکوں کی مصنوعات کا موثر بائیکاٹ نہیں کیا اور نہ وہ کرسکتے ہیں۔ ان کی بقا کا انحصار ہی ہماری مصنوعات پر ہے۔ کچھ مذہبی رہنما مسلمان عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے کوکا کولا جیسے مشروبات اور اسی قبیل کی چیزوں کا بائیکاٹ کرتے ہیں لیکن بائیکاٹ کا اعلان کرتے وقت ان کی جیبوں میں ہمارے بنائے ہوئے موبائل، ان کے گھروں میں ہمارے ایجاد کردہ انٹر نیٹ، اور ان کی صحت مند تشریفات کے نیچے‘ ہماری بنائی ہوئی کاروں کی آرام دہ نشستیں ہوتی ہیں۔ آخر جاپان ، اٹلی، جرمنی اور کوریا بھی تو ہمارے ہی ساتھی ہیں۔ مسلمان اگر حقیقی معنوں میں ہماری مصنوعات کا بائیکاٹ کریں تو لائف سیونگ ادویات، بچوں کے حفاظتی ٹیکے، ایکسرے مشین، اور درجنوں ایسی اشیاءکہاں سے لیں ‘جن کے بغیر ان کا ایک دن بھی نہیں گزرسکتا۔ ان کی حالت یہ ہے کہ ان کے حکمران اور امرا عام بیماریوں کے علاج کے لئے بھی ہمارے ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔ رہا یہ امکان کہ مسلم ملکوں کے سربراہ امریکہ سے سفارتی تعلقات منقطع کرلیتے اور امریکیوں کا داخلہ مسلمان ملکوں میں بند کردیتے تو اس کا دور دور تک امکان نہیں۔ لاہور اور فیصل آباد سے شائع ہونے والے ایک پاکستانی قومی اخبار نے ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان ”صرف تین فیصلے“ تھا۔ اس میں مسلمان سربراہوں پر یہی زور دیا گیا لیکن یہ نقارخانے میں طوطی کی آواز تھی۔ درجنوں مسلمان ملکوں نے ہمیں
عسکری مستقر
(BASES)
دیئے ہوئے ہیں۔ ہم نے عراق پر حملہ کیا تو ہمارے جہاز آخر مشرق وسطیٰ کے مسلمان ملکوں ہی سے اڑتے تھے اور افغانستان پر چڑھائی کی تو وسط ایشیائی مسلم ریاستوں اور پاکستان نے ہمارا ساتھ دیا۔ جو مسلمان سربراہ برطانیہ کے سپرسٹوروں اور ہسپانیہ اور یونان کے تفریحی جزیروں میں اربوں ڈالر عیاشی پر خرچ کرڈالیں، وہ ہمیں دھمکی کس منہ سے دیں گے؟ ان مسلمان حکمرانوں کی ریڑھ کی ہڈی میں اتنا زور بھی نہیں جتنا کینچوے کی کمر میں ہوتا ہے! اور جہاں تک اس امکان کا تعلق ہے کہ اس فلم کے ردِّعمل میں مسلمان منصوبہ بندی کرکے اگلے ایک یا دوعشروں میں ہمارے ہم پلہ ہوجاتے تو اس خطرے کا بھی دور دور تک کوئی وجود نہیں۔ مسلمان ملکوں کے عوام کی اکثریت ناخواندہ ہے۔ ان پر مورثی بادشاہ حکومت کررہے ہیں یا جاگیردار اور کرپٹ سیاستدان۔ ان طبقات کا مفاد اس میں ہے کہ مسلمان عوام غربت ، ناخواندگی جہالت اور توہم پرستی کے کیچڑ میں سر سے پیرتک لتھڑے رہیں۔ اس ساری گفتگو کا لب لباب یہ ہے کہ میڈیا، پریس سائنس، ٹیکنالوجی اور ایجادات ہمارے ہی قبضے میں رہیں گی۔ انٹرنیٹ ،یوٹیوب، فیس بک اور ٹوئٹرجیسے آلات ہماری ہی تحویل میں رہیں گے۔ ہم گستاخانہ خاکے بنائیں یا فلمیں، مسلمان شور تو مچاسکتے ہیں، ہمارا بگاڑ کچھ نہیں سکتے۔
اجلاس کے آخر میں بھارتی نمائندے کو، جو مبصر کی حیثیت سے شریک تھا خطاب کی دعوت دی گئی۔ وہ اٹھا تو مسکرارہا تھا اور مسکراہٹ کی چوڑائی ایک کان سے دوسرے کان تک تھی۔ اس نے اپنی دھوتی کا پلو ٹھیک کیا اور یوں گویا ہوا:
”معزز حضرات !میرا فلم کے معاملے سے براہ راست تو کوئی تعلق نہیں لیکن میں واحد ایٹمی مسلمان ملک کا ہمسایہ ہوں اور اسی حوالے سے کچھ عرض کروں گا۔ کل اکیس ستمبر کو پاکستان میں یوم عشق رسول منایا گیا۔ احتجاج کے لئے حکومت پاکستان نے عام تعطیل کا اعلان کیا۔ میں آپ سب حضرات کو تہنیت پیش کرتا ہوں کہ اس یوم احتجاج نے ثابت کردیا کہ اہل پاکستان اخلاقی پستی کی بدترین گہرائی میں ہیں اور ان کے باہر نکلنے کا کوئی امکان نہیں۔ اس احتجاج میں جولوگ سنجیدگی سے شریک تھے، انہیں اس حقیقت کا ذرہ بھر ادراک نہیں تھا کہ ان کے نعرے ان کے جذبات کے عکاس تو ہیں لیکن اس سے فلم بنانے والوں اور اہل مغرب کا بالخصوص امریکہ کا بال تک بیکا نہیں ہوسکتا۔ اس ”احتجاج“ کے دوران دو درجن سے زیادہ پاکستانی مسلمان ہلاک ہوئے۔ درجنوں پولیس والوں کو زخمی کیا گیا۔ بنک اور دکانیں لوٹی گئیں ۔ سینما، دفاتر اور پلازے نذر آتش کئے گئے، سرکاری اور نجی گاڑیاں جلائی گئیں ۔ تقریباً ڈیڑھ ارب روپے کا نقصان اس غارت گری سے ہوا۔ سرکاری تعطیل اور موبائل ٹیلی فونوں کی بندش سے کروڑوں کا زیاں اس کے علاوہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ عوام کو جوش دلانے والے مذہبی رہنما خود، پیش منظر سے غائب تھے۔ ان کی ذہنی حالت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ یہ رہنما الیکٹرانک میڈیا پر اس احتجاج کو کامیاب قرار دے رہے ہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اہل پاکستان کا سارا زور اپنے ہی ملک کو تباہ وبرباد کرنے پر ہے۔ آپ کو ان سے کوئی خطرہ نہیں!“
اب اسرائیلی نمائندے کی باری تھی لیکن کسی نے ٹیلی ویژن کی آواز بے تحاشا بلند کردی اور میری آنکھ کھل گئی۔ سکرین پر ایک مذہبی رہنما، مغرب سے درآمد شدہ مائیک ہاتھ میں پکڑے، زور وشور سے تقریر فرمارہے تھے۔