ایک خدا پرست شاعر کی کہانی
بے چین بہت پھرنا ،گھبرائے ہوئے رہنا ۔۔۔۔اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا ۔۔۔۔یہ خداپرست شاعر کا ایک شعر ہے ،جی ہاں آج ہم بات کررہے ہیں منفرد،مختلف اور عجیب و غریب شاعر منیر نیازی کی ۔۔۔ایک اور شعر ہے۔۔۔۔رنج فراق یار میں،رسوا نہیں ہوا۔۔۔۔اتنا میں چپ ہواکہ تماشا نہیں ہوا۔۔۔۔منیر نیازی اردو غزل اور نظم کا سب سے منفرد اور نرالا شاعر ہے ۔ان کی نظموں میں نئی بات ملتی ہے،نئے احساسات ، نئی جدتیں اور جہتیں ان کی شاعری کا خاصا ہیں ۔منیر نیازی نے اردو ادب میں ایک نئی دنیا ایجاد کی۔۔۔اسی وجہ سے وہ اردو ادب کا ایک اہم ترین شاعر ہے ۔منیر کے لہجے میں انوکھی قسم کی پراسراریت ہے۔اسی وجہ سے اردو شاعری سے محبت کرنے والے منیر سے بہت بہت کرتے ہیں ۔پنجابی زبان میں ان کی ایک نظم ہے جو مجھے بیحد پسند ،وہ سنا دیتا ہوں ،اس سے اندازہ ہو جائے گا کہ منیر کیسا شاعرہے۔۔۔اج دا دن وی ایویں لنگیا کوئی وی کم نہ ہویا ،پورب ولوں چڑھیا سورج پچھم آن کھلویا ،نہ ملیا میں خلقت نوں نہ میں یاد خدا نوں کیتا،نہ میں پڑھی نماز تے نہ میں جام شراب دا پیتا،خوشی نہ غم کوئی کول نہ آیانہ ہنسیا نہ رویا ۔۔۔منیر کی خاص بات یہ ہے کہ وہ لفظوں کی تصویریں بناکر خیالات کا اظہار کرتا ہے ۔وہ تصویروں اور امیجز میں بات کرتا ہے ،اسی لئے وہ اردو زبان کا انوکھا اور لاڈلا شاعر مانا جاتا ہے ۔اس بات کا ثبوت ان کی شاعری میں جگہ جگہ ملتا ہے ۔۔۔میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا ،عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا ،شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا،پھر مجھے اس شہر میں نامعتبر اس نے کیا ،شہر کو برباد کرکے رکھ دیا اس نے منیر ،شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا ۔۔اسی طرح کی شاعری کی وجہ سے منیر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک نمایاں شاعر رہیں گے ۔عجیب و غریب بات یہ ہے کہ جس طرح کی ان کی شاعری ہے ،بلکل ویسی ہی ان کی شخصیت تھی،منیر کو ایک حقیقی اور سچا تخلیقی شاعر کہا جاسکتا ہے ۔وہ کسی کی نقل نہیں کرتا ،بلکہ وہ جو کہتا ہے ،اپنے انداز میں کہتا ہے ۔یہی وہ انداز اور لہجہ ہے جو منیر کو منفرد مقام دیتا ہے ۔منیر کہتا ہے کہ ایک وقت تھا جب بھوک ان کا سب سے بڑا مسئلہ تھا ،اس زمانے میں بھوک بھی بہت لگتی تھی ،رہنے کے لئے گھر نہ تھا ،آرام و سکون کے لئے سہولیات نہ تھی ،اسی وجہ سے ان کے لہجے میں جلال و جمال کا رنگ ملتا ہے ۔منیر نیازی جس محفل میں بھی جاتے تھے ،ایسے لگتا تھا کہ وہ دشمنوں کے درمیان بیٹھے ہیں ،اس کی وجہ شاید ان کی انا تھی ،یا کوئی اور بات ۔وہ اپنے علاوہ کسی اور کو شاعر ہی نہیں مانتے تھے ۔شاید یہی ان کی شخصیت کا سب سے بڑا منفی اور مثبت پہلو ہے ۔وہ ساری دنیا کو ہی مکروہ سمجھتے تھے،اس لئے اس طرح کا انسان مشکل بھی ہوتا ہے اور اچھا بھی لگتا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ ان کی حیثیت ایسی ہے جیسے کسی گھنے جنگل میں مہاتما بدھ کسی برگت کے درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے ہوں ۔ان کے اس بیان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کس قدر اناپرستی کا شکار تھے ۔انہوں نے اپنے ہمعصروں کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ،ان کو شاعرماننے سے انکار کیا ،احمد ندیم قاسمی جیسے ادیب کو وہ شاعر اور افسانہ نگار نہیں مانتے تھے ۔منیر ایک دلچسپ انسان ہیں ،جب ان سے کسی نے سوال کیا کہ وہ کیوں اپنے علاوہ کسی کو شاعر نہیں مانتے ،کیا یہ وہ نفرت یا تعصب کی وجہ سے تو نہیں کرتے ،تو اس پر منیر نے کہا تھا ،ہو سکتا ہے ،ایسا ہو ،لیکن انہیں سمجھ نہیں آتی کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔اسی لئے منیر ایک دلچسپ شاعر ہیں اور یہی دلچسپی ان کی شاعری میں جھلکتی ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ منیر وہ شاعر ہیں جو شاعری کے بل بوتے پر زندہ رہے ،کبھی موقع ملے تو ان کی ایک نظم ہے ،ہمیشہ دیر کردیتا ہوں ،ضرور پڑھیئے گا ۔مرنے سے پہلے انہوں نے اپنے آخری انٹرویو میں کہا تھا کہ اب ان کا شاعری کرنے کو دل نہیں کرتا ،انہوں نے لکھنا چھوڑ دیا ہے ،محفلوں میں جانا چھوڑدیا ہے ،کہتے تھے اب شہر کی محفلیں اچھی نہیں لگتی ،اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ایک ستم زدہ صوفی اور درویش انسان تھے ۔آخر میں منیر نے لکھنا ،پڑھنا بند کردیا تھا ،کہتے تھے اب شاعری کرنا ان کے بس کی بات نہیں ۔اس کی وجہ وہ یہ بتاتے تھے کہ اب وہ مزید جذباتی تجربات سے نہیں کرسکتے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ منیر اپنے جذبات کو ہی شاعری سمجھتے تھے ۔کسی ٹی وی انٹرویو کے دوران انہوں نے ایک واقعہ سنایا جو مجھے بہت ہی دلچسپ اور پراسرار لگا ،کہتے ہیں کینیڈا میں ایک فرانسیسی کالونی تھی،وہاں ایک لڑکی نے انہیں آنکھ اٹھا کر دیکھا ،اس لڑکی کی آنکھوں میں معلوم نہیں کیا تھا ،وہ آنکھیں انہیں کبھی نہیں بھولتی ،لڑکی کا چہرہ ،اس کا حسن ،سب بھول بھال گیا ہے ،لیکن وہ آنکھیں آج بھی ان کا تعاقب کررہی ہیں ۔اس واقعے سے منیر کی شخصیت کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے ۔وہ ایسے صوفی اور درویش تھے جو ہمیشہ اپنے آپ سے ہی ہمکلام رہے ،اسی وجہ سے وہ منفرد اور مختلف شاعری کر گئے ۔ان کے کچھ اور شعر سنا دیتا ہوں ۔۔۔وہم یہ تجھ کو عجب ہے ائے جمال کم نما ،جیسے سب کچھ ہو مگر توں دید کے قابل نہ ہو ،وہ کھڑا ہے ایک باب علم کی دہلیز پر ،میں یہ کہتا ہوں اسے ،اس خوف میں داخل نہ ہو،ان کی شاعری پراسرار بھی ہے ،خوبصورت بھی ہے اور خواب ناک بھی ہے ۔منیر کی شاعری کی عجیب و غریب سی پراسراریت کی وجہ سے اردو سمجھنے والے ان کے دیوانے ہیں ۔جب ایک بار ان سے پوچھا گیا کہ یہ پراسراریت ان کی شاعری اور شخصیت میں کیوں ہے؟تو ان کا جواب تھا ،اس کی وضاحت نہیں کی جاسکتی ۔شاید تقدیرکا یہی مقصود تھا ۔وہ دیومالائی انسان تھے ،دیومالائی انسانوں کی اپنی ہی دنیا ،اپنے ہی امیجز ہوتے ہیں ۔وہ کہتے تھے وہ معلوم اور نامعلوم میں اٹکے پڑے ہیں ،اسی وجہ سے وہ دنیا کو مکروہ اور بدصورت بھی کہہ جاتے ہیں اور کبھی کبھار اسی مکروہ پن میں انہیں خوبصورتی بھی نظر آتی ہے ۔۔۔۔آواز دے کہ دیکھ لو شاید کوئی مل ہی جائے،ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے ۔۔۔ایسا سوچنے اور فکر کرنے والا وہ انسان تھا جنہیں زندگی کی رائیگانی کا بھی مکمل ادراک اور احساس تھا ۔شہر کے تصور کے بارے میں وہ کہتے تھے کہ وہ چاہتے ہیں یہ شہر بدل جائے ،ایسا شہر جہاں ظلم ہے ،مہنگائی ہے ،بدماشی ہے ،کرپشن ہے ،ایسے شہر کو ختم ہوجانا چاہیئے اور اس شہر کی جگہ ایک نیا شہر لے لے جہاں انصاف ہو ،انسانیت ہو اور خوشی و غم کے درمیان احساس کا رشتہ ہو ۔جس شاعر کی شاعری میں حیرت ہو ،اور حیرت بھی بچے جیسی ،ایسے شاعر کے خیالات کا اظہار منفرد و مختلف ہی ہونا چاہیئے ۔کبھی موقع ملے تو ان کی شاعری کے مجموعے ،تیز ہوا،جبگل میں پھول ،جنگل میں دھنک وغیرہ ضرور پڑھیں ۔منیر نیازی جس کمرے میں رہائش پزیر تھے ،اس کمرے کا کوئی دروازہ نہیں تھا ۔ان سے ملنے کے لئے کھڑکی کے راستے سے کمرے میں داخل ہونا پڑتا تھا ۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ انہوں نے اپنے کمرے کا دروزہ کیوں نہیں بنوایا ،تو منیر نے جواب میں کہا کہ کھڑکی کے راستے داخل ہونے میں ایک تھرل ہے ۔ایسے جیسے کوئی چور دروازے سے کسی کو ملنے جارہا ہے ۔وہ کہتے تھے شاعر سائنسدان اور مفکروں سے بڑا ہوتا ہے ۔شاعروں کی وجہ سے ہی سائنسدان سائنسدان بنتا ہے ۔منیر نیازی کی زندگی کے کچھ روزانہ کے معمولات تھے ،جو انتہائی دلچسپ ہیں ،تسبیح کرنا اور قرآن کی تلاوت کرنا ان کا روز کا معمول تھا ،گھر کے لان میں واک کرنا انہیں بہت پسند تھا ،وہ اعلی قسم کے شرابی تھی ۔شراب وہ کھل کر پیتے تھے ۔اپنے ایک انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان میں تخلیقیت ہے،تو اس پر انہوں نے کہا کہ پاکستان بننے کے بعد تخلیقی جذبہ ختم ہو گیا تھا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کے معاشرہ معاشرہ ہی نہیں ہے ،اس ملک کے مکین قوم نہیں ہیں ،ہجوم ہیں اور ہجوم کبھی بھی تخلیقی صلاحیت کا حامل نہیں ہو سکتا ۔تقسیم کا ان کے خیالات پر گہرا اثر تھا ۔وہ کہتے تھے صرف ماضی ہی تخلیق پر اثر انداز ہو سکتا ہے ۔منیر کسی حد تک فیض کو شاعر مانتے تھے ۔لیکن وہ فیض کو بڑا شاعر تسلیم نہیں کرتے تھے ۔۔۔۔۔پاکستان کے بارے میں ان کا شعر ہے کہ ۔۔۔منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے ۔۔۔۔حرکت ہے تیز تر اور سفر آہستہ آہستہ۔۔۔ہمیشہ شرابی کیفیت میں بدمست رہتے تھے ۔کہتے تھے پہلے وہ چیزوں کو دکھتے ہیں ،پھر محسوس کرتے ہیں ،اس کے بعد مشاہدہ کرتے ہیں ،پھر ہی جاکر وہ فتوی صادر کرتے ہیں ۔منیرنیازی کا کہنا ہے کہ وہ ایک خداپرست انسان ہیں ،اس لئے ان کا ایمان ہے کہ جو ہورہا ہے وہ ہونا ہے ،اس ہونے کو ٹالا نہیں جاسکتا ،اس لئے زندگی نے ان کے ساتھ جو کچھ کیا ،وہی ان کی تقدید تھی ۔اس تقدیر پر انہیں کوئی پچھتاوا یا ملال نہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔