ایک خاتون کی کتاب سے کچھ اقتباسات
مجھے ہمیشہ بھوکا رکھنے کی کوشش کی گئی‘ کئی دفعہ مجھے ڈانٹ کر کہتے تھے ’’میرا سر نہ کھاؤ‘‘۔میں نے کئی دفعہ فرمائش کی کہ پلیز ایک دفعہ تو مجھے مادھوری کہہ دیں‘ آگے سے جواب ملتا’میم‘ کے بغیر کہہ سکتا ہوں۔ مجھے گنگنانے کا بہت شوق تھا۔ ایک دن کہنے لگے’’تم ٹی وی پر کیوں نہیں گاتیں؟؟‘‘۔ میں خوشی سے نہال ہوگئی‘ وجہ پوچھی تو آرام سے بولے’’بندہ ٹی وی بند تو کرسکتا ہے ‘‘۔اُس دن مجھے اندازہ ہوا کہ میں کدھر پھنس گئی ہوں۔کاش میں نے دوسری کی بجائے تیسری شادی کرلی ہوتی۔ (صفحہ نمبر123 ‘ عنوان۔ ظلم کی اخیر)
ایک دفعہ رات کومیں سوئی ہوئی تھی کہ اچانک تکیے پر کسی کا لمس محسوس ہوا‘ میری آنکھ کھل گئی۔ دیکھا تو وہ آہستہ سے تکیہ اٹھانے کی کوشش کررہے تھے۔ مجھے بہت پیار آیا۔ میں نے مسکرا کر پوچھا’’کیا بات ہے؟‘‘۔ اطمینان سے بولے’’ ٹی وی کا ریموٹ ڈھونڈ رہا ہوں۔‘‘ اُنہیں میرے بال رنگنے پر بھی اعتراض تھا۔ کہتے تھے 35 نمبر شیڈ نہ لگایا کرو ‘ کاکی لگتی ہو۔ اگرچہ وہ کاکی سے پہلے بھی ایک لفظ لگایا کرتے تھے لیکن اصل زور ’کاکی‘ پر ہی ہوتا تھا جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ انہیں میری کم عمری سے بھی چڑ ہے۔(صفحہ نمبر288 ‘ عنوان۔جمعہ جمعہ آٹھ دن)
ہر مرد کو روتی ہوئی عورت اچھی لگتی ہے‘ لیکن میں نہیں روتی تھی ۔ میرے صبر کو دیکھتے ہوئے اکثر کہا کرتے تھے کہ ذرا وہ والا گانا تو سناؤ’’عشق میں بے غیرت جذبات نے رونے نہ دیا‘‘۔ ایک دفعہ میں نے آزمانے کے لیے خود پر رقعت طاری کرلی اور پھر زاروقطار رونا شروع کر دیا۔ جونہی میرے آنسو نکلے‘ اُن کی بے اختیار ہنسی نکل گئی۔۔۔اور پھر وہ ہنستے ہنستے زمین پر لوٹ پوٹ ہوگئے۔میں نے برا منایا اور پوچھا کہ کیا میں روتی ہوئی اچھی نہیں لگتی؟ بمشکل خود پر قابو پاتے ہوئے بولے’’خدا دا واسطہ ای۔۔۔اج توں بعد نہ روئیں‘‘۔(صفحہ نمبر376 ‘ عنوان۔برے نصیب میرے)
مجھے وہ پشاوری چپل میں بہت خوبصورت لگتے تھے‘ ایک دفعہ میں نے فرمائش کی کہ مجھے بھی پشاوری چپل لا دیں۔ لیکن انہوں نے صاف انکار کردیا جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ مجھے اپنے برابر نہیں دیکھنا چاہتے۔لیکن میں نے بھی ہار نہیں مانی۔ اگلے ہی دن خود جاکر مردانہ پشاوری چپل خریدی اورساڑھی کے ساتھ پہن کر یکدم ان کے سامنے آگئی۔ انہوں نے ایک نظر میری طرف دیکھا‘ پھر پشاوری چپل پر نظر ڈالی اورسرکھجانے لگے۔ میں نے پوچھا‘ کیسی لگ رہی ہوں؟ انہوں نے فوراً موبائل سے انٹرنیٹ آن کیا۔ میں سمجھ گئی کہ کسی ہیروئین سے میری مشابہت دکھانے لگے ہیں۔ دو منٹ بعد انہوں نے موبائل میرے سامنے کیا جس پر ایک شیشی کی تصویر تھی اور اوپر لکھا ہوا تھا’زہر‘۔ (صفحہ نمبر399 ‘ عنوان ۔میں اور میرا فیشن)
مجھے کھانا بھی پورا نہیں ملتا تھا۔ کئی دفعہ آدھی پلیٹ سالن کی دی جاتی۔ میں شکایت کرتی کہ اس سے تو پوری روٹی نہیں کھائی جاسکتی تو جواب ملتا’’لا لا کے کھالے‘‘ مجھے کھانے کے ساتھ پودینے کی چٹنی بہت پسند تھی۔ کئی دفعہ میں کھانے کے ساتھ چٹنی رکھتی تو منہ بنا کر پرے کردیتے کہ’’مینوں چٹنی پسند نئیں‘‘۔جی چاہتا ہے سارے ظلم احاطہ ء تحریر میں لے آؤں۔ کیا یہ کم ظلم ہے کہ میری ڈائٹنگ پر بھی قہقہے لگاتے تھے۔ ایک دفعہ پیزا لائے تو کہنے لگے چار پیس کردوں یا آٹھ؟ میں ڈائٹنگ پر تھی‘ میں نے کہاچار ہی کردیں۔ بس اتنی سی بات پر منہ پھاڑ کر ہنسنے لگے۔کیا شوہر ایسے ہوتے ہیں؟ (صفحہ نمبر420 ‘ عنوان ۔میں صابر تھی وہ جابر تھا)
میں ہر وقت اُن کی خدمت کرتی تھی‘ ان کا موبائل گم ہوجاتا تو میں ہی مسڈ کال دیتی تھی۔اُن کے دوست آتے تو میں چھپ چھپ کر باتیں سنا کرتی تھی۔ ایک دن انہوں نے مجھے ڈانٹا کہ یہ کیا حرکت ہے؟ میری آنکھوں میں آنسو آگئے‘ میں نے رُندھی ہوئی آواز میں کہا’’جان! میں ہر وقت آپ کا دھیان رکھتی ہوں‘‘۔ چلا کر بولے’’میں مٹی کھاناں؟‘‘۔کاش وہ مجھے سمجھ سکتے‘ میں تو ہر چیز ان کی بھلائی کے لیے کرتی تھی لیکن وہ میری ہر خواہش رد کردیتے ۔میں اولاد کے لیے ترستی رہی لیکن انہوں نے میرا کوئی خیال نہ کیا۔اذیت کے اس لمحے صرف میرا بڑا بیٹا مجھے دلاسہ دیتا تھا کہ ’ماما حوصلہ رکھیں‘ خدا کے ہاں دیر ہے‘ اندھیر نہیں۔‘‘ (صفحہ نمبر468 ‘ عنوان۔اذیت کے لمحات)
جتنی دیر ہماری شادی رہی انہوں نے کبھی میرے احساسات کو نہیں سمجھا۔ ایک دفعہ میں نے کہاکہ مجھے چوڑیاں لادیں‘ اگلے دن سید نور کی فلم’’چوڑیاں‘‘ اٹھا لائے۔ اسی طرح ایک دفعہ وہ گھر کے گراؤنڈ میں دوڑ لگا رہے تھے‘ سٹاپ واچ میرے ہاتھ میں تھی۔ انہوں نے کم سے کم وقت میں دوڑ کر ایک درخت کو ہاتھ لگانا تھا۔ جیسے ہی وہ دوڑے ‘ میں پرجوش ہوکر چلائی’’گو جان گو‘‘۔ بس اتنا سننا تھا کہ وہیں سٹاپ ہوگئے اور شدید برہم ہونے لگے تم مخالفین کے ساتھ مل گئی ہو۔ایک دفعہ میں نے بڑی محبت سے کہا کہ میں آپ کا سہارا بننا چاہتی ہوں‘ یہ سن کر خوش ہونے کی بجائے گھور کر بولے’’میرے گوڈیاں تے ڈانگ وجی اے؟‘‘۔ (صفحہ نمبر505 ‘ عنوان۔بیدردی بالما)
ہر شادی شدہ عورت اپنے میکے جانا چاہتی ہے‘ یہ اُس کا بنیادی حق ہے۔ لیکن مجھے اس معاملے میں بھی نکتہ چینی کا سامنا رہا۔ ایک دفعہ میں نے کہا کہ میں چار دن کے لیے اپنی امی کی طرف جانا چاہتی ہوں۔ کچھ دیر سوچ کر بولے۔ٹھیک ہے چلی جاؤ‘ لیکن اگر چار دن کے لیے کہا ہے تو اپنی بات پر قائم رہنا‘ تیسرے دن نہ آجانا۔‘‘میں جانے کی تیاری کر ہی رہی تھی کہ ایک ملازم میرے پاس آیا اور ہاتھ جوڑ کر بولا’’بی بی جی آپ نہ جائیں‘‘۔ میں حیران رہ گئی‘ وجہ پوچھی تو اِدھر اُدھر دیکھ کربے بسی سے بولا’’آپ چلی گئیں تو صاحب جی کے لیے کھانا کون بنائے گا؟ اور اگر اُن کے لیے کھانا نہ بنا تو وہ ہماری پلیٹیں صاف کرجائیں گے‘‘۔یہ سن کر مجھے ایک دھچکا سا لگا‘ کتنے دُکھ کی بات تھی کہ ایک بندہ خود تو ملازمین کا کھانا کھالے لیکن اُس میں سے بیوی کے لیے کچھ بھی نہ رکھے۔ (صفحہ نمبر533 ‘ عنوان۔نفرت کا ثبوت)
میں یہ بھی بتانا چاہتی ہوں کہ مجھے تو اخبار بھی تب پڑھنے کو ملتا تھا جب وہ خود پڑھ لیتے تھے ‘ خود ہی بتائیں اگر کوئی پہلے سے اخبار پڑھ جائے تو پھر پڑھنے کے لیے باقی کیا بچتا ہے؟ لیکن میں نے پھر بھی گذارا کیا‘ صرف اس لیے کہ میرے بچوں کو ماں کی کمی محسوس نہ ہو۔ میں چاہتی تواپنے اوپر ہونے والی ناانصافیوں پر بھرپور صدائے احتجاج بلند کر سکتی تھی لیکن میں نے خاموشی اختیار کیے رکھی تاکہ کتاب کے لیے مواد جمع ہوتا رہے۔ یہ سچ ہے کہ میں نے ایک ایسے شخص کے لیے اپنا جیون برباد کردیا جس نے مجھے گھر کے لان میں پینگ تک نہیں لگوا کردی۔۔۔اور تو اور مجھے چائے میں چینی ڈال کر پیش کی جاتی رہی تاکہ میں شوگر میں مبتلا ہوجاؤں‘ وہ تو اللہ کا شکر ہے میں چکھ لیتی تھی ورنہ آج میرا پبلشر برباد ہوچکا ہوتا۔ اب مجھے مردوں سے نفرت ہوگئی ہے‘ عنایت حسین بھٹی نے بالکل صحیح گانا گایا تھا’’دُنیا مرداں دی او یار۔۔۔‘‘ انہی الفاظ کے ساتھ اجازت چاہوں گی کہ ’’یوں تو میرے خلوص کی قیمت بھی کم نہ تھی۔۔۔ہرکسی کو نہیں ملتا یہاں پیار زندگی میں (آخری صفحہ‘عنوان ۔میرا پیار میرا دُشمن)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“