۸؍ مارچ ۲۰۲۲ء کو عالمی یوم خواتین منایا گیا جس کا نعرہ جنسی مساوات پر مبنی ہے۔Gender Equality Today For A Sustainable Tomorrowجنسی نا برابری ایک عالمی مسئلہ ہے۔مرد سماج نے خواتین کو زندگی کے ہر شعبے میں کمتر گردانا۔گو کہ ماضی کے مقابلے آج خواتین کو آگے بڑھنے کے مواقع میسر ہیں اور اب خواتین سائنس تکنیک، کھیل کود ، سیاست اور دیگر شعبوں میں آگے آئی ہیں تاہم اب بھی دنیا کے تمام شعبوں میںخواتین کی نمایندگی مرد حضرات سے بہت کم ہے۔ اقوام متحدہ کی ۲۰۱۹ء کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ۲۴؍ فی صد خواتین پارلیمنٹ میں حصہ داری کر رہی تھیں۔ان میں ۲۷ ؍ممالک کی خواتین شامل تھیں۔افریقہ کا روانڈہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں حکومتی وزارتوں پر ۶۷؍ فی صد خواتین قابض ہیںوہیں امریکہ جیسے ملک میں آج تک کوئی خاتون ریاست کی سر براہ نہیں بن سکی اور نہ ہی اقوام متحدہ کی سیکریٹری شپ کسی خاتون کو ملی۔جب کہ ہندوستان کی سربراہی آنجہانی اندرا گاندھی کر چکی ہیں۔موجودہ وقت میں ۳۲؍ ممالک یا خود مختار ریاستیں یا علاقے ایسے ہیں جہاں اعلیٰ ترین عہدوں پر خواتین متمکن ہیں۔ملکہ برطانیہ طویل عرصے سے سریر آرائے تخت ہیں۔نیو زی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن حال ہی میں اپنی عمدہ کارکردگی کے لئے جانی گئیں۔عائشہ موسیٰ السعید جن کا تعلق سوڈان سے ہے ، آپ تعلیم کے انتشار پر کام کر رہی ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ مراقش کی سیدہ الحراء کا مغربی بحیرۂ روم پر تسلط قائم تھا ۔اس کا زمانہ ۱۴۸۵ء سے ۱۵۴۲ء کے درمیان ہے۔ترکی کی نور بانو سلطان (۱۵۲۵ء سے ۱۵۴۲ء ) بہت مشہور ہیں۔ بابر کی نانی دولت ایسان بیگم جن کی وفات ۱۵۰۵ء میں ہوئی ، ایک زبردست خاتون تھیں اور ملکی امور میں دخل رکھتی تھیں۔اسی طرح چاند بی بی نے جس کا زمانہ ۱۵۵۰ء سے ۱۵۹۹ء کا ہے ، اس نے احمد نگر کی سلطنت کے دفاع کے لئے مغل بادشاہ اکبر سے مقابلہ کیا۔اس طرح تاریخ کے اوراق میں خال خال خواتین کا نام درج ہوا ہے۔ ایسی ہی خواتین میں ایک قابل ذکر نام رضیہ سلطان کا ہے۔امسال عالمی یوم خواتین کے جنسی مساوات کے دئے ہوئے نعرے کے پیش نظر رضیہ سلطان کا ذکر یوں معنی خیز ہے کہ اس کی شخصیت سازی میں اس کے باپ التتمش نے اہم کردار نبھایا ۔در اصل جنسی مساوات کے ہدف کو حاصل کرنے کے لئے یہ نکتہ خاص ہے۔
تیرہویں صدی کی اوایلی تاریخ میں ایک پر تضاد واقعہ درج ہے اور وہ ہے سلطان رضیہ کا دہلی کے تخت پر متمکن ہونا۔ سلطان رضیہ کی زندگی سے واقف ہوکر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیںکہ تیرہویں صدی سے ہوتے ہوئے آج اکیسویں صدی میںہماری ہندوستانی معاشرت خواتین کے معاملے میں کتنی پیشرفت کر سکی ہے ؟ منہاج سراج رضیہ کے وقت کا خاص مؤرخ ہے۔ وہ اپنی کتاب طبقات ناصری کے اکیسویں طبقے میںرضیہ کے اوصاف اس طرح بیان کرتا ہے ؎
۔ـ’بادشاہ بزرگ و عاقل و عادل و کریم و عالم نواز و عدل گسترو رعیت پرور و لشکر کش بود‘۔
چند سطروں کے بعد منہاج لکھتا ہے ؎
’چون از حساب مردان در خلقت نصیب نیافتہ بود ‘ این ہمہ صفات گزیدہ چہ سودش کند ‘۔ یعنی مرد پیدا نہیں ہوئی تھی اس لئے باوجود حکمران ہونے کے یہ تمام اوصاف حمیدہ اس کے کس کام کے۔رضیہ سلطان التتمش کی بیٹی ہے۔ وہ اپنے بھائی رکن الدین فیروز کے بعد دہلی کے تخت پر ۶۳۴ھ یعنی ۱۲۳۶ء میںجلوہ افروز ہوئی ۔ وہ ہندوستان کی مسلم خاتون حکمران تھی جس نے ۳۷۔۶۳۴ھ یعنی ۴۰۔۱۲۳۶ء تک حکومت کی ۔اس میں حکمرانی کے تمام اوصاف موجود تھے جو اس کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا ثبوت ہیں ۔ منہاج اسے عاقل ‘عادل ‘کریم‘عالم نواز‘عدل گستر اور رعیت پرور ہونے کے ساتھ ہی لشکر کش بھی لکھتا ہے۔ آگے ’این ہمہ صفات گزیدہ چہ سودش کند ‘بھی لکھ دیتا ہے ۔ یہ ایک جملہ اس وقت تک کے پدر سری کے نظرئے کو جاننے کے لئے کافی ہے۔ رضیہ ایک خاتون ہے ۔اسے کن حالات کا سامنا کرنا پڑا ‘اس پر ایک اجمالی نظر ڈالنا ضروری ہے ، ملاحظہ فرمائیں ؎
۱۲۰۶ءسے لے کر۱۲۹۰ء تک دہلی کے تخت پر تین زبردست بادشاہ جلوہ افروز ہوئے۔قطب الدین ایبک‘شمس الدین التتمش اور غیاث الدین بلبن۔ان میں شمس الدین التتمش اپنی لیاقت کی بنا پر ممتاز نظر آتا ہے ۔ رضیہ اسی باصلاحیت سلطان کی بیٹی ہے ۔ اس کی معتبر تاریخ پیدایش تو نہیں معلوم ہاں کہیں کہیں ۱۲۰۵ء لکھاملتا ہے لیکن تاریخ وفات ۱۴ / اکتوبر ۱۲۴۰ء بمقام کیتھل درج ہے ۔ دیگر سلاطین کی مانند رضیہ کی تفصیلات نذر قلم نہیں کی گئیں لیکن اس کے خاندان کے ضمن میں اس کا ذکر آ جاتا ہے۔ رضیہ کا باپ شمس الدین التتمش سلطان بننے سے قبل ایک غلام کا غلام تھا لیکن اس نے اپنی ذہانت اور ہوشمندی کے سبب تقریباً ایک چوتھائی صدی ہندوستان پر حکومت کی۔ وہ وسط ایشیا کے البریٰ نامی ایک معزز ترک خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اسکے حاسد بھائیوں نے اسے تاجر جمال الدین کے ہاتھوں فروخت کر دیا تھا ۔ وہ اسے پہلے غزنین اور پھر دہلی لے آئے جہاں وہ قطب الدین کا غلام بنا۔ چونکہ اچھے خاندان سے تعلق رکھتا تھا لہٰذا اس کی ذہانت بچپن ہی سے عیاں تھی۔ ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ وہ خوبرو بھی تھا ۔ قطب الدین نے اس کی عمدہ تربیت کی ۔ شمس الدین نے تیزی سے ترقی کی۔ اسے مختلف اہم امور سونپے گئے۔ یہاں تک کہ قطب الدین ایبک نے اپنی بیٹی اس کے عقد میں دے دی ۔ ۱۲۱۰ء میں جب اس نے تخت سنبھالا تب تک وہ ایک ہوشمند مدبر اور عمدہ ناظم کی حیثیت سے پہچانا جا چکا تھا۔ اسے غلامی سے آزادی کا پروانہ بھی مل چکا تھا۔ وہ دیندار ‘سنجیدہ اور اعتدال پسند تھا۔ اس نے کئی اہم کارنامے انجام دئے ۔ قطب الدین ایبک نے جو کام ناتمام چھوڑے تھے‘شمس الدین التتمش نے انھیں پورا کرکے شمالی ہند میں ترکوں کی ایک مضبوط سلطنت قائم کردی۔ اس نے محمد غوری کے فتح کئے ہوئے علاقے واپس لے لئے ساتھ ہی نئے علاقے جیسے راجپوتانہ اور موجودہ اتر پردیش کے شمالی علاقے حاصل کئے۔ اس طرح ترکوں کی سلطنت کا وقار پھر سے قائم کیا۔ منگولوں کے حملوںسے اس نے اپنی سلطنت کو بچائے رکھا۔ اس نے اپنے ترک حریفوں کو بھی مغلوب کیا اور ان سے اپنی سلطنت کی حیثیت منوائی۔ اس طرح اس کے تین کارنامے قابل ستائش ہیں ۔ (۱)َ۔اس نے ایک نوزائیدہ حکومت کو ختم ہونے سے بچایا۔
(۲)۔سلطنت کو ایک قانونی حیثیت بخشی۔
(۳)۔دہلی کے تخت پر اپنے خاندان کو دوامی بنانے کی کوشش کی ۔
۱۲۲۹ء میں اسے خلیفہ المستنصرباللہ کی جانب سے ایک خلعت بھی عطا ہوئی جو اس بات کا مظہر ہے کہ اس کی حکومت کو مذہبی جواز بھی حاصل تھا۔
شمس الدین التتمش اپنے بڑے بیٹے ناصر الدین محمود کو بہت عزیز رکھتا تھا۔ ۱۲۲۹ء میں جب خلیفۂ بغداد نے التتمش کو خلعت سے نوازا تو اس کے فوراً بعد ناصرالدین محمود کا انتقال ہو گیا۔ یہ وہ وقت تھاجب عالی مرتبت لوگ سلطان کی جانب سے ایک وارث کے اعلان کے منتظر تھے ۔ ان حالات میں حکومت کے جانشین کی نامزدگی کا مسٔلہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کا دوسرا بیٹا فیروز غیر ذمہ دار‘ کاہل اور عیش پرست تھا۔ باقی بیٹے کمسن تھے۔ ایسے میں اس کی نظر انتخاب رضیہ پر پڑی ۔ وہ رضیہ کی صلاحیت سے مطمٔن تھا۔ رضیہ نے اپنی زندگی کے شب و روز کوشک فیروزی میں ترکان خاتون کے ساتھ گزارے تھے ۔ لہٰذا التتمش کی نگاہ اس کی نقل و حرکت پر ہوتی تھی۔ التتمش جب گوالیار کی مہم پر روانہ ہوا تواس نے دہلی کا نظام رضیہ کے ہاتھوں سونپا تھا۔رضیہ نے اپنی ذمہ داری بہت عمدگی سے نبھائی تھی۔ ۱۲۳۲ء میں التتمش گوالیار سے لوٹا تو اس نے تاج الملک محمود دبیر کو حکم دیا کہ وہ ایک فرمان تیار کرے کہ التتمش رضیہ کو ولیعہد نامزد کرتا ہے ۔ جب یہ فرمان تیار ہوا تو امراء نے التتمش کی بیٹی رضیہ کے ولیعہد نامزد ہونے پراعتراض جتایا۔ چند نے تو سلطان کوسمجھایا بھی کہ چونکہ حضور کے پاس نوجوان بیٹے ہیںجو بادشاہت کے لائق ہیںتو پھر بیٹی کو ولیعہد نامزد کرنے کا کیامقصد؟التتمش کا جواب تھا کہ اس کے بیٹے ملکی امور کے انتظام کی صلاحیت نہیں رکھتے اور بیٹی رضیہ ان سے کہیں زیادہ لائق و فائق ہے۔منہاج سراج طبقات ناصری میں شمسیان ھند کے تحت یوں رقم طراز ہے ؎
’’وچون سلطان در ناصیٔہ او آثار دولت و شھامت میدید، اگر چہ دختر بود و مستورہ بعد آنکہ از فتح کالیور مراجعت فرمود، تاج الملک محمود دبیر را رحمہ اللہ ،کہ مشرف مملکت بود فرمان داد : تا اورا ولایت عہد نبشت و ولیعہد سلطنت کرد، و در وقت نبشتن آن فرمان ، بندگان دولت کہ بحضرت سلطنت او قربتی داشتند ، عرضہ داشت کردند: کہ باوجود پسران بزرگ کہ سلطنت را شایانند ، دختر را پادشاہ اسلام و ولیعہد میکند، چہ حکمت است ؟ و نظر پادشاہانہ بر چہ معنی است ؟ این اشکال را از خاطر بندگان رفع فرماید، کہ بندگان را این معنی لایق نمی نماید۔ سلطان فرمود : کہ پسران من بعشرت و جوانی مشغول باشند ، و ہیچکدام تیمار مملکت ندارند و از ایشان ضبط ممالک نیاید شما را بعد از فوت من معلوم گردد کہ ولیعہد را ہیچ یک لایق تر ازو نباشند۔‘‘
یہاں ایک نکتہ غور طلب ہے کہ جہاں ایک طرف امراء نے تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے رضیہ کی صلاحیتوں پر شک کیا وہیں
دوسری طرف التتمش کا یہ جرائت مندانہ قدم ہے۔ اس سے اس کی وسیع النظری اور تمام سماجی ممنوعات سے آزادی کا اظہار ہوتاہے ۔ اس موقعہ پر ایک سکہ بطور یادگار ڈھالا گیا اور التتمش کے نام کے ساتھ اس پررضیہ کا نام بھی لکھا گیا۔ التتمش اپنی آخری سرحدی مہم سے واپسی پر شدید بیمار پڑ گیا اس لئے وہ رکن الدین فیروز کو لاہور اپنے ساتھ لیتا آیا۔ چونکہ اس کے بڑے بیٹے ناصرالدین محمود کا انتقال ہو چکا تھا اس لئے لوگوں کی نگاہیںرکن الدین فیروز پر ٹکی تھیں۔ اسی موقعہ پر ایک چاندی کا سکہ جاری کیا گیا جس پر التتمش کے ساتھ اس کے دوسرے بیٹے فیروز کا نام بھی لکھا گیا ۔
التتمش کی موت کے فوراً بعد امراء خاص طور سے صوبائی افسروں نے رکن الدین فیروز کو تخت پر بٹھایا ۔ اس کی ماں شاہ ترکان ایک ترکی کنیز تھی اور سلطان کے حرم کی سردار بھی۔ رکن الدین کے تخت نشین ہونے پر اس نے ریاست کے معاملات اپنے ہاتھ میں لئے اور من مانی کرنی شروع کر دی ۔ جس کے سبب تمام سلطنت میں لا قانونیت پھیل گئی۔ شاہ ترکان کے ساتھ رضیہ کے تعلقات کشیدہ تھے۔ دراصل شاہ ترکان رضیہ کے قتل کا ارادہ رکھتی تھی۔ ان حالات میں رضیہ نے اپنی ذکاوت اور تدبر کا مظاہرہ کیا ۔ اس نے سرخ لباس پہنا اور دہلی کے لوگوں سے جو اس وقت فرض نماز کی ادایگی کے لئے مسجد میں جمع تھے ،براہ راست اپیل کی کہ وہ اسے شاہ ترکان کی سازشوں سے بچائیں۔ اس زمانے میں سرخ لباس مظلوم انصاف کا مطالبہ کرنے کے لئے پہن لیا کرتے تھے ۔ رضیہ کی اپیل پر مجمع نے محل پر حملہ کر دیا اور شاہ ترکان کو قید کر دیا ۔ فیروز اس وقت دہلی سے باہر تھا۔ جب وہ دہلی لوٹا تو اس دوران شاہ ترکان سے خفا امراء رضیہ کے وفا
دار بن چکے تھے ۔ رکن الدین کو گرفتار کر لیا گیا۔ ۱۸ /ربیع الاول۶۳۴ھبمطابق ۱۹ /نومبر ۱۲۳۶ء اس کی چھ ماہ اور اٹھائیس دن کی ناکام حکومت کے بعد اسے قتل کر دیا گیا۔
رکن الدین کے قتل کے بعد رضیہ دہلی کے تخت کی مالک ہوئی۔ اسے دہلی کے عوام کی زبردست حمایت حاصل رہی ۔ رضیہ نے لوگوں سے کہا کہ اگر وہ ان کی توقعات پر پوری نہیں اترتی تو انھیں حق ہے کہ وہ اسے حکومت سے بے دخل کر دیں۔ اس طرح تخت نشینی کو اس نے ایک معاہدے کی شکل دے دی ۔ عوام نے ایک عورت کو اپنا حکمران تسلیم کر لیا۔ منہاج سراج اسے سلطان رضیۃ الدنیا و الدین بنت السلطان لکھتا ہے ۔ ۔نیلسن کے مطابق سکوں پر بھی رضیہ کو سلطان جلالۃ الدنیاوالدین یا پھر سلطان المعظم رضیۃبنت السلطان درج ہے۔ ہندوستان کی یہ زبردست خاتون حکمران تھی ۔ قئرآن میں ملکہ سبا کا ذکر آیا ہے ۔ ترکی اور ایران کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیںجب خواتین نے زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لی ۔ مثلاً گور خان ختائی کی بیوہ اور اس کی بیٹی کونیک خاتون ‘ حلب کی صفیہ خاتون ‘ مصر کی شجرۃ الدروغیرہ لیکن ہندوستان کے تناظر میں یہ ایک جرأت مندانہ قدم تھا ۔ لین پول ایسی عورتوں کا تذکرہ اس طرح کرتا ہے۔۔۔
“The only three women who were ever elected to the throne in the Mohammadan East ‘reigned in the thirteenth century Shajar-ad-Durr
,the high spirited slave wife of Saladin,s grand nephew ,the woman who defeated the crusade of Louis ix and afterwards spread the saintly hero,s life, was queen of the Mamluks in Egypt in 1250A.D. Abish the last of the princely line of Salghar, patrons of Sadi ruled the great province of Fars for merely a quarter of a century during the troubled period of Mongol suprimacy. Razia ,the daughter of Iltutmish was less fortunate . She was endowed with all the qualities , befitting a king ,but she was not born a man.”
بزم مملوکیہ میں تاریخ فرشتہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ رضیہ سلطان ایسے تمام اوصاف سے مزین تھی جوایک عاقل اور صاحب رائے بادشاہ کے لئے ضروری ہیں ۔ اصحاب نظر اس میں سوائے اس کے کہ وہ ایک خاتون تھی اور کوئی عیب نہیں پاتے۔ وہ قرآن مجید پورے آداب کے ساتھ پڑھتی تھی۔ دوسرے علوم سے بھی آگاہی رکھتی تھی۔ اپنے باپ کے زمانے سے ہی ملکی معاملات میں دخل د یتی اور فرمانروائی کیا کرتی تھی۔ سلطان اس کی عقل و فراست اور فرزانگی دیکھ کر مانع نہ ہوتاــ۔ان سب کے باوجود جب تخت نشینی کی باری آئی تو اس کے نا اہل بھائی کو ترجیح دی گئی۔ رضیہ کی مدت کار تین برس سے کچھ زیادہ ہے ۔ اس کے عہد کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے گویا یہ مدت صرف انتشار میں گزری۔
رضیہ کو پہلی مشکل اس وقت پیش آئی جب التتمش کے مشہور وزیر نظام الملک جنیدی نے اس کی تخت نشینی کو منظور کرنے سے انکار کر دیا ۔ اسے کئی طاقتور امراء کی حمایت حاصل تھی اور اس کے حوصلے بلند تھے۔ اس نے ایک محاذ بنا کر دہلی کا رخ کیا۔ رضیہ کو چونکہ عوام کی حمایت حاصل تھی اس لئے وہ کامیاب نہ ہو سکا ۔ یہ باغی دہلی کے اطراف میں موجود رہے اور مستقل خطرہ بنے رہے۔ رضیہ نے عقل وتدبر سے کام لیا اور تمام سرکش عناصر کو یا تو ختم کر دیا یا ان پر مکمل قابو پا لیا۔ اس کے بعد اس نے انتظامیہ کی تشکیل نو کی۔ تھوڑے ہی عرصے میں دیبل سے لکھناوتی تک کے امراء نے اس کے اقتدار کو تسلیم کر لیا ۔ رضیہ نے تخت نشین ہونے کے فوراً بعد فوجی افسران
اور مختلف اقطاع کے لئے گورنر بحال کئے اور ساتھ ہی شاہی دربار کے افسروں کو بھی ۔ اس سے فارغ ہو کر اس نے تمام اقتدار پر اپنا کنٹرول رکھنے کی کوشش کی۔ وہ اب پردے سے باہر آ گئی۔ ابھی تک جب وہ دربار لگاتی تھی تو درباریوں اور عوام سے ایک پردے سے الگ کر دی جاتی تھی۔ محافظ خواتین اس کے ارد گرد کھڑی رہتیں اور اس کے بعد اس کے خون کے رشتے کے لوگ۔ ان سب کو الگ ہٹا اب وہ براہ راست اپنے دربار کو مخاطب کرتی۔ وہ ہاتھی پر سوار ہوکر باہر نکلتی اور مرد حکمرانوں کی طرح تمام معاملات انجام دیتی۔اس نے اہم عہدوں پر غیر ترکوںکا تقررکر ترکی شرفاء کو ناراض کر دیا۔ وہ اندر ہی اندر اسے تخت سے اتارنے کا منصوبہ بنانے لگے کیونکہ احسان مندی ترکوں کا شیوہ نہ تھی۔ ابتگین اور اختیار الدین التونیہ جیسے بڑے افسروں نے رضیہ کے خلاف سازش رچی جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس نے ایک حبشی جمال الدین یاقوت کو بڑا عہدہ دے دیا تھا ۔ رضیہ جب ۱۳ /اپریل ۱۲۴۰ء کو کبیر خان کے معاملات نپٹا کر دہلی واپس لوٹی تو اسے التونیہ کی بغاوت کا پتہ چلا ۔ اس سازش کو فرو کرنے کے دوران یاقوت کا قتل ہوا اور رضیہ کو گرفتار کر تبر ہند کی جیل میں ڈال دیا گیا ۔ اب سازشیوں نے دہلی کے تخت پر ایک خاتون کی جگہ معز الدین بہرام کو بٹھا دیا۔ معز الدین نے سب سے پہلے ابتگین کو ختم کیا اور اس کے بعد التونیہ کی باری تھی۔ رضیہ نے صورت حال کا فائدہ اٹھایااور التونیہ سے شادی کر لی ۔ یہ ایک ایسا رشتہ تھا جو دونوں کے لئے فائدے کا سودا تھا ۔ رضیہ نے اس رشتے کے ذریعے اپنی قید سے آزادی کی توقع کی تھی اور التونیہ نے اسے اپنی ترقی کا ذریعہ سمجھا تھا۔ ماہ ربیع الاول۶۳۸ھمیں سلطان معز الدین بہرام ان لوگوں کے خلاف ایک فوج لے کر دہلی سے روانا ہوا۔ رضیہ اور التونیہ کو شکست ہوئی۔ پسپا ہوکر جب وہ لوگ کیتھل پہنچے تو رضیہ کے سپاہیوں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا حالانکہ سارے سپاہی دشمنوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ اس کے دوسرے دن رضیہ بھی شہید ہو گئی۔ رضیہ نے نسلی بنیاد پر کھڑے ہو جانے والے محاذ سے شکست کھائی۔ اس کے زوال کی دوسری وجہ اس کا خاتون ہونا تھا۔ یہ دشواری اس کے دل و دماغ کی پوری صلاحیتوں کے آزادانہ عمل کی راہ میںرکاوٹ بن جاتی تھی۔ رضیہ کی ہوش مندانہ تدبیروں سے اس کا وقار دنوں دن بڑھ رہا تھا ۔ اس کی قلمرو وسیع ہو رہی تھی لیکن امراء ایک مضبوط اور مطلق العنان حکمران کو تخت پر دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے تھے۔ اس لئے وہ رضیہ کی مخالفت پر اتر آئے تھے۔
مذہبی طبقہ رضیہ کو اس لئے ناپسند کرتا تھا کہ وہ مردانہ لباس پہنتی ‘ گھوڑسواری کرتی اور خود دربار میںموجود رہتی اور اپنی حکومت کو مضبوط اور مستحکم بنانے کی کوشش کرتی۔ اس نے فقط ساڑھے تین برس حکومت کی اور اس قلیل مدت میں اس نے خود کو ایک غیر معمولی کامیاب حکمران ثابت کر دیا۔وہ دہلی کے تخت پر جلوہ افروز ہونے والی ایسی خاتون تھی جو دلیر اور بہادر ہونے کے علاوہ کامیاب سپاہی بھی تھی ۔ سیاسی سازشوں اور جوڑ توڑمیں بھی مشاق تھی۔ اس کی وجہ سے ہندوستان میں ترکوںکی سلطنت کا وقار بڑھا۔ اس نے تخت و تاج کی منزلت بڑھا کراسے مطلق العنان بنا دیا اور اپنے حکم کو امراء و ملوک پر نافذ کیا ۔ قطب الدین خود کو امراء کا محض قائد سمجھتا تھا۔ التتمش اپنے امراء کے سامنے تخت پر بیٹھنے میں جھجھکتا ۔ رضیہ سے پہلے اور اس کے بعد بھی التتمش کے خاندان کے افراد اپنے کردار اور شخصیت کے لحاظ سے کمزور تھے لیکن رضیہ اپنی صلاحیت اور لیاقت کی بنا پر سلطنت دہلی کی سیاست پر حاوی رہنے کی کوشش کرتی رہی۔ طبقات ناصری کا مصنف ہمیشہ اسے سلطان لکھتا ہے۔ وہ اسے جلیل القدر ‘ عاقل‘ عادل‘کریم ‘عالم نواز‘ عدل گستر‘ رعیت پرور اور لشکر کش حکمران بتاتا ہے۔ وہ رضیہ کو عالم نواز تو کہتا ہے لیکن اس کے حالات کے ضمن میں علماء و فضلاء کا ذکر نہیں کے برابر کرتا ہے جب کہ التتمش کا دربار اہل علم وفضل کا گہوارہ تھا ۔ تاج الدین ریزہ جیسا مشہور شاعر رکن الدین کے دربار سے وابستہ تھا ‘اس کے یہاں رضیہ کے تعلق سے کچھ بھی دستیاب نہیںجب کہ رضیہ کے بعد تخت نشین ہونے والے رضیہ کے بھائی معز الدین بہرام (۶۳۷ھ تا ۶۳۹ھ )کی شان میں کہا گیا قصیدہ موجود ہے، ملاحظہ فرمائیں ؎
زہی در شان تو منزل ز لوح سلطانی ببین در رایت شاہی ، علامات جہانبانی
معز الدین و الدنیا ، مغیث الخلق بالحقی سلیمان سانت در فرمانست ہم انسی و ہم جانی
اگر سلطانی ہند است ، ارث دودٔہ شمسی بحمد اللہ ز فرزندان ، توئی الشمس را ثانی
چو دیدندت ہمہ عالم کہ بر حق وارث ملکی درت را قبلہ گہ کردند ، ہم قاصی و ہم دانی
چو منہاج سراج اینست خلقان را دعای تو کہ یارب بر سریر ملک و دولت جاودان مانی
ظاہر ہے رضیہ سلطان تو تھی مگر ایک خاتون بھی تھی اس لئے اس کی مدح سرائی کا جواز نہیں بنتا تھا۔ ذرا سوچئے کیا آج اکیسویں صدی میں خواتین رضیہ جیسے کرب سے نجات پا سکی ہیں ؟