'واک تھرو گیٹ " اور سیکیورٹی چیک پر مستعد محافظوں کے ہاتھ میں لمبے لمبے اینٹینا والے پرانے موباییؑل فون جیسے الیکٹرانک آلات اب کسی شہریا قصبے میں کسی کو حیران نہیں کرتے۔۔ایرپورٹ۔ ہسپتال ،دفاتر اور بینکس ہوں یاعوامی اجتماعات ان بم بارود جیسی تباہ کن اشیا کا سراغ لگانے والے جدید ترین آلات ہر جگہ ہیں ان کے بارے میں عام یقین یہ ہے کہ یہ الیکٹرا میگنیٹک شععوں کی مدد سے اندر تک جھانک کر سب کچھ دیکھ لیتے ہیں۔بعض اوقات ایک لمبے ڈنڈے کو کار کے نیچے گھما کے یقین کیا جاتا ہے کہ آپ کے پاس کسی قسم کا تباہ کن مواد نہیں ہے
یہ سب دھوکا ہے۔۔ جھوٹ فریب کا کھیل ہے۔۔یہ آلات اس سے زیادہ نہیں دیکھ سکتے جتنا اپ یا میں اپنی آنکھ سے دیکھ پاتے ہیں
روز نامہ "ٹریبیون" کی گزشتہ روز کی اشاعت میں پاکستان کے ایک نامور ساینسداں نے اس فراڈ کا پول کھولتے ہوۓ کیا کہ ان آلات کی کار کردگی صفر ہے۔۔یہ عام آدمی کو مطمؑین اور متاثر کر سکتے ہیں لیکن جو تخریب کاری کے کھیل کے ماہر ہیں وہ ان حربوں سے متاثر نہیں ہوتے کیونکہ وہ ان کی حقیقت جانتے ہیں۔۔ یہ ان کیلۓ بھی انکشاف نہیں جو خود کو سیکیورٹی کا ماہر سمجھتے ہیں یا بتاتے ہیں۔۔پانچ چھ سال قبل ان الات کی لغویت سامنے اچکی تھی جب لاکھوں کروڑوں کا زر مبادلہ خرچ کرکے ان آلات کو درآمد کیا جاتا تھا،پھر ایر پورٹ کی حفاظت پر مامور "ایر پورٹ سیکیورٹی فورس" نے یہ آلہ "کھوجی" کے نام سے خود تیار کرنا شروع کیا اور 1500 "کھوجی" ایرپورٹس پر مسافروں کو چیک کرنے کیلۓ فراہم کردۓ گےؑ۔۔ ایسا فرض کرنا ناممکن ہوگا کہ انہیں اس آلے کی کارکردگی کے صفر ہونے کا علم نہ ہو۔۔ لندن کی ایک معروف ساینسداں اس خیال کو مضحکہ خیز قرار دے چکی تھی کہ الیکٹرو میگنیٹک ویوز کی مدد سے دھماکا خیز مود کی موجودگی کا پتا چلایا جاسکتا ھے۔۔
"ٹریبیون" نے آج کے ادراۓ میں اس کا ناقابل تردید ثبوت فراہم کیا ہے جس کا عنوان ہےA dangerous folly۔۔ ایک خطرناک بے وقوفی۔۔"حکومت پاکستاں ایک ایسے کام میں اپنی توانایؑ اور قومی سرمایہ ضایع کر رہی ھے جس کے بارے میں کیؑ سال قبل ثابت ہوچکا ہے کہ تخریبی مواد کا سراغ لگانے والے ان آلات کی کارکردگی صفر ہے۔۔اس کا موجد ہونے کا دعوےٰ James MacCormick نامی ایک شخص نے کیا تھا اور وہ چند ساتھیوں کے ساتھ برظانیہ میں فراڈ کے جرم کی طویل قید بھگت رہا ہے،انہوں نے پاکستان سمیت مختلف ممالک کو اپنی ایجاد فروخت کرکے کیؑ ملین پاونڈ کمالۓ تھے لیکن حقیقت سامنے آنے کے بعد وہ پکڑے گۓ۔۔۔۔ مجھے نہیں معلوم اس فراڈ میں ہماری حکومت کے علاوہ اور کتنے ممالک دانستہ یا نادانستہ فریق بنے ہوۓ ہیں۔۔کراچی میں سڑکوں پر لگاےؑ گۓ خفیہ الیکٹرانک کیمروں کا فراڈ حال ہی میں سامنے آیا تو پتا چلا کہ سینکڑوں ہزاروں میں سے صرف بیس پچیس ہی کام کر رہے تھے۔۔مزید یہ کہ تمام کیمرے 2 میگا پکسل کے تھے۔۔یعنی اتنا ہی دیکھ سکتے تھے جتنا مجھے چشمے کے بغیردکھایؑ دیتا ہے۔۔آج انڈرایڈ فون کیمرہ استعمال کرنے والا بچہ بھی جانتا ہے کہ دو میگا پکسل والا کیمرہ بے کار ہے۔پیچھے والا 13 اور سامنے والا کم سے کم 5 میگا پکسل ہوگا توصحیح تصویر آےؑ گی،،چنانچہ کروڑوں خرچ کرکے جو کیمرے لگاےؑ گۓؑ تھے ان کی تصویر میں نہ مجرم کا چہرہ قابل شناخت ہوتا تھا نہ جرم میں استعمال ہونے والی گاڑی کا نمبر۔۔ ٹھیکے دینے والے سب جانتے ہوں گے لیکن سیکیورٹی میں دلچسپی کس کافر کو تھی،،اہم یہ تھا کہ اپنی جیب میں کتنا آےؑ گا۔۔ رشوت کا عمل بینالاقوامی ہے۔۔ اربوں کی لاگت سے مسافر بردار ہوایؑ جہاز فروخت کرنے والے دو کاروباری حریف ادارے "ایر بس" اور "بویینگ"ہیں اگر سیاسی تعلقات کی کامیابی کے بعد وہ کسی حکومت سے جہازوں کی سپلایؑ کا ٹھیکہ لینے میں کامیاب ہوتے ہیں تو اس سودے میں "کک بیک" یا عام زبان میں رشوت کی رقم کو لاگت کا حصہ بناتے ہیں جو معاہدوں پر دستخط کرانے والے 'ماہرین" سے عوام کے منتخب نمایندوں تک "حصی بقدر جثہ" کے فارمولے سے تقسیم ہوتی ھے۔۔
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جاییں۔۔ ؟
کہ سلطانی بھی عیاری ہے درویشی بھی عیاری (اقبال)
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/1073859909362693