ایک عدد ہیروئن جس میں زمانہ سازی بالکل بھی نہ ہو ۔۔ معصوم ایسی کہ ہر چال اس پر کامیاب ٹھہرے ۔۔۔ ہر حربہ اسے پھنسا لے
ایک عدد ہیرو۔۔۔۔ جو ایسا کاٹھ کا الو ہو کہ اسے شادی سے پہلے جس پٹی ماں پڑھا دے آنکھ بند کر کے یقین کر لے اور شادی کے بعد بیوی کی بات اسے حرف آخر لگے
ایک عدد ماں ۔۔۔ جو ایسی چال باز ہو کہ جسے اپنی شادی شدہ بیٹی کے کان بھرنے کے علاؤہ اور کوئی کام نہ ہو ۔۔۔۔ وہی ساس کے روپ میں عورت نہ لگے ناگن لگے
ایک عدد سائیڈ ہیروئن ۔۔۔ جو آفت کی پرکالہ ہو ۔۔۔ ایسی فتنہ توش کے مخالفین کے ہوش اڑا دے ۔۔۔ اس کی مکاریوں کا سلسلہ ڈرامے کی آخری قسط تک طویل ہو اور پھر ۔۔۔ وہ انتہائی عام سی غلطی کرے اور اس کا کردار ایک دم سب پر عیاں ہو جائے
ایک عدد والدین جن کا بیٹا ڈرامے کا ہیرو ہو جن کا کام
نصیحت کرنا
صبر کرنا
ہر دم کڑھتے رہنا
آہیں بھرنا
دعائیں کرنا
پر امید رہنا
اور
اچھے وقت کے انتظار میں رہنا ہو
ایک عدد ذہین لڑکی جو ہیروئن کی مخلص سہیلی ہو
جو ہر سازش کو دیکھ سونگھ کر محسوس کر کے
جو ہر ہر قدم پر بہترین مشورے دے
لیکن اس کی دوست اس کی کسی بات پر یقین نہ کرتی ہو – اور ہر بار چال کے ان دیکھے جال میں پھنس کر ہی اپنی دوست کی ذہانت کی قائل ہو جائے
لیکن آخری قسط سے پہلے تک اس کی کوئی بات نہ مانی جاتی ہو
ہیرو کر ساتھ بھی ایک ایسا ہی دوست چمٹا دیا جائے تو سونے پر سہاگے کا کام دے گا
ایک چھٹا ہوا بدمعاش ۔۔۔ جو ہیرو یا ہیروئن کو دیکھ کر ایسا پگھلے کہ ہر برے کام سے تائب ہو جائے – پہلے پیسے لے کر ہیرو ہیروئن کی زندگی برباد کر ڈالے
لیکن آخر میں وعدہ معاف گواہ بن کر سائیڈ ہیروئن کا پول کھول کر اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرے
نقصانات کی تلافی کرے
ہیرو ہیروئن کو پھر سے ملا دے اور پھر باقی تمام عمر انہیں دیکھ دیکھ آہیں بھرتا اور یہ سوچ کر خوش ہوتا رہے کہ اس کی وجہ سے اس کا محبوب خوشگوار زندگی گزار رہا ہے
ایک عدد ٹائیٹل سانگ
جو لامحالہ ڈرامے کے مصنف کا قلمی اعجاز ہو
جسے ترجیحاً راحت فتح علی خان نے گایا ہو
ایک عدد انٹرٹینمنٹ چینل
ڈرامے کو کامیاب کرنے کے لیے اس کا وجود بہت ضروری ہو
جو ڈرامے کے آغاز سے کم و بیش ایک ماہ قبل دن میں تیس تیس بار ڈرامے کے مختلف مناظر دکھائے اور او ایس ٹی چلائے
خاتون لکھاری
یہ بات تو طے ہے کہ اگر ڈرامے کو ہر لحاظ سے کامیاب سیریل بنانا ہے تو اسے کسی خاتون نے لکھا ہو یا مرد نما خاتون نے
بنیادی تھیم
ڈرامے میں مرد کو بے وفا
عورت کو وفا کی دیوی
ماں باپ کو مظلوم اور بے بس
ساس کو ظالم
دکھایا جائے
۔ ۔۔۔۔۔
جو بھی ان باتوں کو مدنظر رکھ کر ڈرامہ سیریل لکھے گا ضرور کامیاب ہو گا
نوٹ ۔۔۔۔ اگر روتوں رات کامیاب مصنفین کی صف میں شامل ہونے کا ارادہ ہے تو ڈرامے کا اختتام ہیپی نوٹ پر نہیں ہونا چاہیے
ہیرو جب اپنی غلطیوں کی معافی مانگنے کے لیے تشریف لائے تو ہیروئن اسے خوب کھری کھری سنائے ۔۔۔۔
خوب بے عزت کرے
اور اسے معاف نہ کرتے ہوئے گھر سے دفع ہونے کا کہہ دے