(تخلیق کار کا تخیل و تصور اس کے گرد و پیش میں وقوع پذیر واقعات و حادثات میں اس طرح ملوث ہوتا ہے کہ کوئی تخلیق (نظم یا نثر) خود اس کا پیچھا کرنے لگتی ہے. جیسے کوئی کہانی بہ زبان حال کہہ رہی ہو کہ مجھے لکھ ڈالو. ذاکر فیضی نے اپنے اس افسانے میں اس تجربے سے نہ صرف یہ کہ استفادہ کیا ہے بل کہ قاری کو بھی اس میں شریک کرلیا ہے. اس کا فائدہ یہ ہوا کہ افسانے کی بنت میں دل چسپی پیدا ہوگئی.
افسانہ’ ایک جھوٹی کہانی’ شروع سے ہی اپنے قاری کو گرفت میں لے لیتا ہے. دنیا میں وقوع پذیر برائیوں سے افسانہ نگار بے چین و مضطرب ہے اور اپنے اضطراب کو افسانے کی شکل میں قاری تک پہنچانا چاہتا ہے. اس کے لیے وہ تصور اور کلپنا کو مجسم کردار بنا لیتا ہے. حال آں کہ کلپنا کا معنی بھی تصور ہوتا ہے لیکن ہندی الاصل اور مونث ہونے کی وجہ سے تصور کے مقابلے میں یہ کردار اپنی موزونیت برقرار رکھتا ہے.
اس کا ایک دوسرا پہلو بھی میرے ذہن میں ہے. وہ یہ کہ کلپنا چاؤلا نام کی ایک ہند نژاد امریکی خاتون کو خلا میں جانے کا موقع ملا تھا. یہ موقع انھیں 1997 اور 2003 دو بار ملا. دوسری بار ان کا خلائی جہاز حادثے کا شکار ہوگیا تھا. بہر حال کلپنا چاؤلہ ہند نژاد پہلی خاتون تھیں جو خلا میں گئیں. زیر نظر افسانے میں کلپنا منگل گرہ سے آتی ہے اور مشین کی شکل میں آتی ہے. ممکن ہے ذاکر فیضی کے ذہن میں کلپنا چاولا کا تصور رہا ہو. اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کلپنا کے مکالمے اور پس منظر میں ہندی الفاظ کا استعمال ملتا ہے.
بہر حال افسانہ نگار دنیا میں ” زندگی” کی تلاش میں ہے اور اس کے ختم ہونے پر رنجیدہ و ملول ہے.
اشتراک ڈاٹ کام ذاکر فیضی کی خدمت میں نیک خواہشات پیش کرتا ہے. اور یوں ہی افسانے تخلیق کرتے رہنے کی دعا دیتا ہے.طیب فرقانی)
اکثرایساہوتا، میں درجنوں کہانیوں کے پیچھے پڑارہتا۔۔۔۔کہانیاں آگے آگے ہوتیں، میں ان کے پیچھے پیچھے۔۔۔اوران میں سب سے اچھی کہانی چن کر صفحۂ قرطاس پرقید کرلیتاتھا۔
لیکن ان دنوں۔۔۔۔؟
یہ پہلاموقع تھاجب کوئی کہانی خود میرے پیچھے پڑی ہوئی تھی۔
موقع بہ موقع میرے سامنے آکر کھڑی ہوجاتی اور معصومیت سے کہتی۔۔۔۔”مجھے لکھو۔“ میں اپنا بچاؤ کرتا۔۔۔۔”تم ایک چھوٹی کہانی ہو۔۔۔۔۔لوگ میرامذاق بنائیں گے۔“
”نہیں میں ایک کہانی ہوں۔“ وہ تڑپ جاتی۔۔۔۔۔ایک مکمل اورلازوال کہانی۔
میں ہنستا۔۔۔۔۔”اری پاگل کہانی! بھلاایسا بھی کبھی ہوسکتاہے؟ نہیں۔۔۔۔کبھی نہیں۔“ پھربھی وہ بضد تھی۔۔۔ ”مجھے لکھو، میں ہرمرتبہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنادیتا۔
اس روز میں مطالعے میں مشغول تھا۔ وہ آدھمکی۔۔۔۔۔”آج تومجھے لکھ ہی لو۔“ میں نے پھرٹالناچاہا تواس نے دھمکایا۔۔۔۔
”دیکھوکہانی تومجھے لکھواناہی ہے۔ اگرتم نہیں لکھوگے تومیں کہیں اورچلی جاؤں گی۔ دنیامیں بہت سی زبانیں ہیں اوران میں بے شمارکہانی کار۔“
یہ سن کرمیں نے فوراً قلم اٹھایا۔
صدیوں کی مسافت طے کرنے کے بعد تصوّر مستقبل میں پہنچا۔ ہریالی کیڑے مکوڑے، چرند پرند، انسان الغرض کوئی جان دارنہ تھا۔۔۔صرف پانی۔۔۔۔ہرطرف ہرجگہ پانی ہی پانی۔۔۔۔زندگی ختم ہوچکی تھی۔ حال آں کہ نظام شمسی بدستورقائم تھا۔ دنیااپنے مرکز پر گھوم رہی تھی۔ چاند دنیاکے اوردنیاسورج کے چاروں طرف چکرکاٹ رہی تھی۔۔۔۔۔ اس کے باوجود زندگی نہیں۔۔۔سناٹاتھا۔
تصورحیران وپریشان مشرق سے مغرب اورشمال سے جنوب چھلانگیں لگارہاتھا۔ اسے محسوس ہوا، دنیاکی تاریخ ہی نہیں، بلکہ دنیاکا جغرافیہ بھی بدل چکاہے۔۔۔ ”لیکن کیوں؟“ تصوّرجواب چاہتاتھا۔
جواب تلاش کرتے ہوئے تصور کی نگاہ ایک مقام پرٹھہر گئی۔۔۔ وہ خاموش کھڑی تھی۔ دنیاکے اس واحد مقام کے پاس جوڈوبنے سے بچ گیاتھا۔۔۔ یہ مقام جغرافیائی اعتبارسے دنیاکے عین وسط میں تھا۔
تصوراس کے قریب آگیا۔۔۔۔”آپ؟ معاف کیجیے گا۔“
وہ گھبراکر ایک قدم پیچھے ہٹ گئی۔
”میں تصورہوں آپ گھبرائیے نہیں، مستقبل کی تلاش میں آیاہوں۔“
”میں کلپناہوں۔ ماضی کی تلاش میں آئی ہوں۔“ وہ گھبراتے ہوئے بولی۔
”ماضی؟“ اب تصورچونکا۔۔۔۔”کیساماضی؟“
”وہی ماضی جس کی تلاش میں آپ آئے ہیں۔“ کلپنانے وضاحت کرنی چاہی۔
”لیکن میں تومستقبل کی تلاش میں آیاہوں۔“ تصورالجھ گیا۔
”دراصل جہاں سے آپ چلے ہیں، وہاں سے یہ مستقبل ہے، اورجہاں سے مجھے بھیجاگیاہے، وہاں سے یہ ماضی ہے۔“ کلپنانے سمجھاناچاہا۔
”صاف صاف بتائیے نا۔۔۔۔آپ کون ہیں؟ کس نے بھیجاہے؟ کہاں سے بھیجاہے؟“
”آرام سے تصورصاحب آرام سے“ کلپنا مسکرائی۔ اس میں خود اعتمادی آ گئی تھی۔۔۔۔۔”سارے سوالوں کے جواب دوں گی۔ جہاں تک میرااندازہ ہے، آپ یقینا اس کرہ ارض سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔۔اپنے بارے میں تفصیل سے بتاؤ۔۔۔ میں اپنا تعارف بعدمیں دوں گی۔“
”آپ بہت چالاک ہیں۔ پہلے مجھ سے ہی تمام معلومات چاہتی ہیں۔“ تصورنے خود کوسنبھال لیاتھا۔۔۔۔ ”میں تصور ہوں۔ اکیسویں صدی کاتصور۔۔۔ دراصل، اکیسویں صدی کی دنیا میں ایسی تہذیب نے جنم لیاتھا۔ جس میں Use and Throw کلچر قائم تھا۔ہرچیز بیچی اورخریدی جانے لگی۔ ہم جنسی کادوردورہ تھا جانوروں کے ساتھ انسانی کلون پرتجربے ہورہے تھے۔ چند دولت مند لاعلاج دل کے مریض، جن کوانسانی دل میسرنہیں تھا، وہ زندگی کی محبت میں خنزیر کے دل لگوارہے تھے۔۔۔۔ کل ملاکر لوگوں کے اعمال اورکرداردن بدن گرتے جارہے تھے۔۔۔۔ بے ایمانی، بے حیائی، فحاشی، حرام کاریاں، عریانیت، اقتدارکی جنگ، حسد، جھوٹ، فریب، مکاری ان کی زندگی کاحصہ بن چکی تھیں۔۔۔۔اوراس دورمیں عجیب وغریب بیماریاں جنم لے رہی تھیں۔ جیسے سارس، پلیگ، ایڈز وغیرہ۔۔۔۔یہی نہیں دنیامیں آئے دن زلزلے، سمندری طوفان، آتش فشاں پھوٹ پڑتے تھے۔۔۔ دنیاکے یہی حالات دیکھ کرمیں نے سفر کاارادہ کیاتھا۔“
”تصور!“ کلپنانے اس کی باتوں کواپنی آنکھوں کے ذریعے اپنے دماغ میں نوٹ کرتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔ ”اکیسویں صدی سے چلے ہوئے آپ کوکتناعرصہ ہوگیا؟“
”میں نے صدیوں کاسفر کیاہے۔“ تصورنے بتایا۔۔۔۔ ”اکیسویں صدی سے چلے ہوئے مجھے کتناعرصہ گزرگیا، نہیں معلوم۔۔۔۔ میں تویہ بھی نہیں جانتاکہ سفر کے دوران کس وقت مکمل طورپر دنیاتباہ وبرباد ہوئی۔۔۔اب تم اپناتعارف دو۔ میرے لیے تویہ مستقبل ہے۔ تمہارے لیے ماضی کیسے ہے؟“
”میں دوسری دنیاسے بھیجی گئی ہوں۔“ کلپنا نے انکشاف کیا۔۔۔ ”خلاء میں بہت سارے سیاّرے ہیں، جیسے، بدھ، شکر، شنی، منگل، برہسپتی، ارون وغیرہ۔۔۔میرے سیارے یعنی منگل، وہاں کے سائنس دانوں کے ذہن میں ہمیشہ خیال آتاتھا کہ اس نیل گرہ پرزندگی ہے؟ نہیں توکیوں؟ اگرتھی توختم کیسے اورکیوں ہوئی۔۔۔۔؟ اورکیاآئندہ ممکن ہے؟“
بڑے تعجب کی بات ہے؟ تصورنے کلپناکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔
”کیوں۔۔۔؟ تعجب کس بات کا؟“ کلپناسوالیہ نشان بن گئی۔
”یہی کہ جس طرح آپ کی دنیاکے لوگ اورانسان داں اس دھرتی کے متعلق سوال اورتجسسّ رکھتے ہیں، بالکل ویسے ہی دھرتی واسی آپ کے لیے رکھتے تھے۔“
”بہت خوب!“ کلپناہنسی۔۔۔۔۔”ایک اوربات بتاؤں۔ مجھ سے پہلے دوسرے گرہوں کے سائنس داں یہاں آکر کہیں گم ہوچکے ہیں۔ اس لیے منگل کے سائنس دانوں نے میری ایجاد کی۔۔۔۔۔اس مشین کوانہوں نے کلپنانام دیا۔۔۔۔ میں کلپنااس کرۂ ارض پر بھیجی گئی۔ یہاں کے راز جاننے کے لیے اکیسویں صدی کے بعد کے سارے راز میں نے تلاش کرلیے ہیں۔ اس خاص مٹی کے اندر میرے سارے سوالوں کے جواب مل گئے۔“ کلپنانے مخصوص جگہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے آگے کہا۔۔۔۔۔”اکیسویں صدی سے پہلے کی کہانی تم نے مجھے بتادی۔۔۔۔ اورلیجیے میری کھوج، میرامشن کامیاب۔“
”اچھا؟“ تصورنے حیرت سے کہا۔۔۔۔”آپ نے اکیسویں صدی کے بعد کے راز یعنی دنیاکیوں، کیسے اورکب ختم ہوئی، اس بات کاپتہ لگالیاہے۔ ذرابتاؤتوسہی۔“
”کیوں اورکیسے کاجواب تومیرے پاس ہے۔البتہ کب کاجواب میرے پاس نہیں ہے۔“ کلپنانے مایوسی سے کہا۔
”یہ توبتاسکتی ہونا۔۔۔۔ آپ کے لال گرہ پرآبادی کب سے ہے؟“تصورنے کریدا۔
”نہیں میں ایک مشین ہوں۔ مجھ میں جتنافیڈ کیاگیاہے، بس اتناہی جانتی ہوں۔“
”اچھاچلو۔۔۔۔ اپنی کھوج کے بارے میں بتاؤ۔“ تصوربے چین تھا۔
”دراصل!“ کلپنانے بتاناشروع کیا۔۔۔۔”سارے جہانوں کے مالک نے تمہاری اس دنیا میں بھیجی گئی ہرقوم پر یہ بات واضح کردی تھی کہ زندگی کادارومداراعمال پرہے۔۔۔اکیسویں صدی اوراس کے بعد سائنس دانوں نے تحقیق سے یہ بات ثابت کی تھی کہ جب انسان برے اعمال کرتا ہے تواس کے رفع حاجت سے ایسے جراثیم پیدا ہو جاتے ہیں، جوکھادکی شکل میں پیڑپودوں اورچارے کی شکل میں جانوروں میں جاکر غذایعنی اناج اورگوشت کی شکل میں وہ جراثیم واپس انسان کے اندرآجاتے ہیں، جوداخلی طورپر انسانوں میں عجیب وغریب بیماریوں کاروپ اختیار کرلیتے ہیں۔ باقی جراثیم جوزمین میں سما جاتے تھے اس سے زمین میں زلزلے، آتش فشاں، سمندری طوفان آتے تھے۔۔۔۔اورتصورآپ کوحیرت ہوگی، اس کے برعکس جب انسان اچھے اعمال کرتاتھاتو اس کے رفع حاجت سے برے اعمال والے جراثیم پیدانہ ہوکر ان کے حواس خمسہ یعنی آنکھ،کان، ناک، زبان اورہاتھ کی کھال سے ایساجرثومۂ حیات پیداہوتاتھا، جودنیاکے نظام کو خوب صورتی سے قائم رکھتاتھا۔۔۔۔۔جس سے دنیامیں انسانیت، عبادت اورمحبت قائم ہوتی تھی۔“
تصورسناٹے میں کلپناکی باتیں سن رہاتھا۔۔۔۔کلپنانے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔”لیکن اس کے باوجود اکیسویں صدی کے اوراس کے بعد کے انسان برائیوں اورگندگی کواپنی زندگی کاحصہ بناچکے تھے۔ حرام اولاد کی کثرت ہوگئی تھی جس سے دنیامیں عذاب کی شکل میں طرح طرح کی جسمانی ودماغی بیماریاں اورطوفان وزلزلے آتے تھے۔ ایسے میں مالک حقیقی نے دوعظیم شخصیتوں کودنیامیں بھیجا۔ ان میں ایک حکمراں اورایک عظیم سائنس داں تھا۔۔سائنس داں نے ایک ایسے وائرس کی ایجاد کی جس سے دنیامیں محبت، انسانیت اورعبادت قائم کی جاسکتی تھی۔ تجربہ کامیاب رہا۔۔۔۔اس کاطریقۂ کاریہ تھاکہ کسی بھی بستی میں اس وائرس کوہوامیں محلول کردیاجاتاتھا، جوسانس کے ذریعہ انسانوں کے اندرجاکر ان میں عبادت، انسانیت اورمحبت قائم کرتاتھا۔۔۔۔۔اس وائرس کادیگر ممالک کو پتہ چلاتوانہوں نے بھی فارمولے کو مانگ کر اپنے اپنے ممالک میں پھیلاناشروع کیا۔۔۔تمام دنیامیں بہت تیزی سے محبت، عبادت اورانسانیت قائم ہوتی چلی جارہی تھی۔ تقریباً دنیابھرمیں وہ وائرس اپناکمال دکھا چکا تھا۔۔۔۔اچانک ان ہی دنوں ایک ظالم فتنہ پیداہوا۔
وہ ایک ملک کاحکمراں تھا۔بے پناہ ذہین اورسوجھ بوجھ رکھنے والا۔ وہ ساری دنیاپراپنی حکومت چاہتاتھا۔ اس نے یہ بات اچھی طرح سمجھ لی تھی کہ جب تک دنیامیں محبت کاوائرس ہے وہ دنیاکاخدانہیں بن سکتا۔اسی لیے اس نے اپنی عجیب وغریب صلاحیتوں سے ایک خاص درخت اگاکر اس میں سے ایک کیڑا پیداکیا اوراس کیڑے کی مددسے ایک نئے وائرس کی ایجاد کی۔ نفرت اوربے ایمانی کاوائرس۔۔اس وائرس کو اس نے اتنا طاقت وربنایاکہ پہلے سے فضامیں موجود محبت کے جراثیم کی تاثیر ختم کی اوراس کے بعد فضا میں نفر ت کے جراثیم کو پھیلاناشروع کیا۔“
”پھرکیاہوا؟“ تصورگھبراگیا۔
”پھر۔۔۔۔؟ دنیامیں نفرت اوراخلاقی گندگی اس قدر پھیل گئی کہ دنیاکانظام بگڑ گیا۔ حال آں کہ ان دوعظیم شخصیتوں نے فتنے کو، جودنیاپراپنی حکومت چاہتاتھا، اس کو اپنی حکمت عملی سے ختم کردیاتھا۔۔۔ لیکن نفرت کاوائرس اپناکام کرچکاتھا۔بستیاں عجیب وغریب بیماریوں سے اجڑنے لگیں۔ دنیامیں زلزلے، آتش فشاں اورسمندری طوفان سے۔۔۔ اورآسمان پربرستی آگ سے تباہی وبربادی شروع ہوگئی۔۔۔ اورآخر کاردنیاسے زندگی ختم ہوگئی۔“
کلپنانے تصورکودیکھا۔ تصوررورہاتھا۔۔۔۔۔”لیکن تم روکیوں رہے ہو؟“
”تم نہیں سمجھوگی کلپنا۔ تم دوسری دنیاکی ہو۔“ تصور کے آنسورواں تھے۔ لیکن کلپناخوش تھی۔ اس کامشن کامیاب ہوگیا۔۔۔۔۔”اچھااب میں چلتی ہوں۔“
”تم بھی جارہی ہو۔“ کلپناکی بات سن کرتصورلرز گیا۔۔۔۔ ”تم تورک جاؤ۔“
”نہیں مجھے جاناہوگا، میں مجبورہوں۔“ کلپنانے مایوسی سے کہا۔۔۔۔۔ ”میرے ہیڈکوارٹر سے برابرسگنل مل رہاہے میں نے ساراڈاٹاہیڈ کوارٹر کوبھیج دیاہے۔ جس کی وجہ سے مجھ کو جاناہوگا۔ میں مجبورہوں۔۔۔۔ اچھا۔۔۔میں۔۔۔۔میں جارہی رہوں۔“
تصورنے دیکھا۔۔۔۔کلپناایک تیز روشنی میں تبدیل ہوتی ہوئی ایک بندو میں سمٹ کرموتی کی طرح ہو گئی۔۔۔ منگل گرہ سے تیز روشنی کی لکیرآئی اوراس موتی کواٹھاکر وہ تیز روشنی کی لکیر آہستہ آہستہ اپنی دنیامیں معدوم ہوگئی۔
تصورنے اسے روکناچاہا۔آوازدینی چاہی۔ لیکن اس کی آواز اندرہی اندرگھٹ کررہ گئی۔۔۔۔ اورپھرتصورکے ہاتھ خداکے حضور میں اٹھ گئے۔۔۔۔ ”تمام جہانوں کے مالک! دنیامیں ایک بارپھرآدم وحوّا کوبھیج کردنیاکی رونق واپس کردے۔“ اورتصورپھوٹ پھوٹ کرروپڑا۔