:::" ایک جل پری سے ملاقات اور کچھ تاریخی پس منظر" :::
" گلف آف میکسیکو میری ملاقات ایک ماریا نام کی جل پری {Mermaid} سے ہوئی۔ بہت اچھی انگریزی اور ہسپانوی اور پرتگالی زبانوں میں بہت دلچسپ گفتگو کرتی ہیں۔ انھوں نے مجھے ایک سمندری گیت بھی سنایا۔ انھوں نے میرے دریافت کرنے پر بتایا کی وہ سمندر کے اندر اگنے والی گھاس اور مشرم کھاتی ہوں۔ اور مجھے کبھی انسانی کھانے بھی مل جاتے ہیں کبھی کبھی بحری جہاز اور کشتیوں میں سے جو کھانا سمندر میں پھیکاجاتا ہے وہ اس جل پری کو بہت پسند ہے۔ انھوں نے بتایا کی انھیں سمندر میں شارک مچھلی سے بہت ڈر لگتا ہے۔ شارک بڑی ظالم اور خونی مچھلی ہے جو جل پری کو کھا جاتی ہے۔ ڈولفن اور ویل مچھلی جل پریوں سے بہت محبت سے پیش آتی ہیں۔ جل پری ایک اساطیری و افسانوی کردار ہے، جس کا نچلا دھڑ مچھلی اور اوپری دھڑ انسانی عورت کا ہوتا ہے۔ دنیا کی بہت سے تہذیبوں اور ثقافتوں میں اس کے تذکرے ملتے ہیں۔ جس شدت و یقین کے ساتھ اس کے تذکرے دیو مالائی داستانوں میں ملتے ہیں، اُس سے گمان گزرتا ہے کہ شاید یہ حقیقت میں بھی موجود ہے لیکن فی الحقیقت یہ صرف یہ افسانوی کردار تک محدود ہے۔
جل پریوں کے قصے اور کہانیاں ہمیں دنیا کی مختلف قدیم ثقافتوں میں ملتے ہیں۔ کسی بھی تحقیق دان کے لیے تاریخی حوالوں سے یہ ثابت کرنا بہت مشکل ہو گا کہ جل پری کا تصورکہاں سے شروع ہوا۔
بہت سی کہانیوں میں یہ انسانوں سے باتیں کرتی دکھائی جاتی ہیں اور بہت سی داستانوں میں یہ صرف گانے گانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ مگر تمام تاریخی تذکروں میں سب سے دلچسپ تذکرہ کرسٹوفر کولمبس کا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ اپنے 1493ءکے سمندری سفر میں جب کولمبس ڈومینیکن ریپبلک کے جزیرے کے پاس سے گزر رہے تھے، انہوں نے جل پریاں دیکھیٕں۔ ان کا دھڑ تو ویسا ہی تھا جیسا کہ یہ کہانیوں میں سنتے آئے ہیں مگر یہ اوپر سے اتنی حسین نہ تھیں جتنا کہ وہ تصور کرتے تھے۔ مجھے " ماریا نے بتایا ککی " مرد" جل پریاں" بھی ہوتی ہیں۔ جل بریوں پر مصوری ہوئی، فکشن لکھا گیا کارٹون بنائے گئے اور فلمیں بنائی گئی۔ میں نے کئی سال پہلے جل پریوں پر جے ہانس کرسچن {Hans Christian Anderseon } کی کہانیوں کی کتاب " چھوٹی جل پری""The Little Mermaid" (1836). پڑھی تھی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔