ایک میرا خدا تھا، ایک اس کا خدا تھا۔ اس طرف بھی اک ہجوم تھا دوسری طرف بھی اک ہجوم تھا۔ ہجوم میں بے شمار انسان تھے، بہت سے کردار تھے۔ میرا ہجوم اپنے خدا کا دفاع کر رہا تھا اور اسکا ہجوم اپنے خدا کا۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ اس کے لوگ کہتے ہیں دوسری طرف کا خدا جھوٹ ہے، اور اس کے ماننے والے گمراہی کے راستے پہ ہیں۔ جب کہ اس کا خدا حقیقت ہے، اس کے لوگ کہتے ہیں کہ ان کا خدا یعنی اس (حقیقت اور سچ) کو میرے خدا سے خطرہ ہے، اس لیے وہ اپنے خدا کا دفاع کرتے ہیں! یہاں سوال تو جنم لیتا ہے کہ خدا کو کیسے خطرہ ہو سکتا ہے! لیکن اسکا جواب ہی تو نہیں۔
بس اس کے ماننے والے سمجھتے ہیں کہ جو جھوٹ ہے اسے ختم کر دینا چاہیے۔ میں نے بھی اسے بتایا کہ میرے لوگ سمجھتے ہیں کہ تمہارا خدا جھوٹ ہے اور تمہارے خدا سے میرے خدا کو خطرہ ہے۔ میں نے مزید کہا کہ میرے لوگ بھی چاہتے ہیں کہ تمہارے خدا یعنی تمہارے عقیدے کو ختم کر دیا جاۓ تو ہمارا خدا خوش ہو جاۓ گا ۔ کیونکہ وہ اس کے دفاع میں یہ قدم اٹھائیں گے۔ پھر اس نے مجھ سے کہا کہ میرے اور تمہارے لوگ بالکل ایک جیسا سوچتے ہیں۔ تو میں نے اس کی بات کاٹتے ہوۓ کہا کہ " ہیں بھی ایک جیسے"
پھر وہ کہنے لگا کہ ایک جیسے تو ہیں مگر ایک نہیں۔ اس کے چہرے پہ خیرانی اور دکھ نمایاں تھا۔ کہنے لگا یہ لوگ ایک دوسرے کے خدا کو ختم تو نہیں کر سکتے کیونکہ ان دونوں نے اسے دیکھا ہی نہیں، اسے جانتے ہی نہیں ۔ تو پھر یہ اپنی سوچ کا اطلاق کیسے اور کس پر کریں گے۔ میں نے جواب دیا کہ وہ ایک دوسرے کے عقیدے کو ختم کریں گے لیکن عقائد کا خاتمہ اتنا آسان نہیں، کیونکہ دونوں اطراف جو شے سب سے زیادہ مضبوط ہے وہ عقائد ہی تو ہیں۔ یہ جو دیوار دونوں طرف کے انسانوں کے درمیان خائل ہے اسکی بنیادیں عقائد پہ ہی کھڑی ہیں۔ سو وہ دونوں ایک دوسرے کے عقائد کو ختم کرنا چاہیں گے تا کہ اپنے عقیدے کا تخفظ کر سکیں۔ میری بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی اور وہ کہنے لگا کیوں نہ یہ دیوار ہی گرا دی جاۓ پھر سب ایک ہو جائیں گے۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا کہ "کاش" پھر اس نے استفسار کیا یہ لوگ ایک دوسرے کے عقائد کو کیسے ختم کریں گے تو میں نے کہا ایک دوسرے کو ختم کر کے۔ وہ بہت پریشان ہوا اور کہنے لگا اتنے نا سمجھ ہیں یہ ، نا سمجھی میں اتنا بڑا نقصان کر دیتے ہیں اور انہیں اس بات کا ادراک بھی نہیں ہوتا۔ وہ بھی اسکے نام پہ جسے دیکھا ہی نہیں! میں نے بھی دکھ کا اظہار کیا لیکن یہ بھی کہا کہ محبت بہت مضبوط ہوتی ہے۔ ایک دن محبت کی طاقت سے وہ نفرت کی دیوار ڈھے جاۓ گا۔ وہ بھی آنکھوں میں امید لیے اپنے ہجوم کی طرف لوٹ گیا اور میں بھی اپنے رستے پہ چل دیا۔ اچانک اک منظر دکھائی دیا جس میں دونوں اطراف کے لوگ اس دیوار کو گرانے کے لیے دیوار کی طرف ایسے دوڑ رہے تھے جیسے پیاسا پانی کی طرف لپکتا ہے۔ وہ لوگ شاید محبت کے پیاسے تھے، جو نفرت کی دیوار کو گرا کے محبت کو گلے لگانا چاہتے تھے۔ لیکن میں نے وہ منظر بس ایک بار دیکھا تھا کیونکہ میں نے اس دن کے بعد خواب دیکھنا چھوڑ دیا تھا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...