جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک “Mustafa Kamal Ataturk” ایک تجربہ کار فوجی افسر، ایک انقلابی لیڈر، بہترین لکھاری اور ریپبلک آف ترکی (Republic of Turkey) کے پہلے صدر تھے ترک قوم انہیں “اتاترک” یعنی بابائے قوم کے لقب سے پکارتے ہیں کمال اتاترک پہلی جنگ عظیم کے دوران فوجی افسر کی حیثیت سے اپنی بہادری اور بہترین جنگی حکمت عملی فتوحات کے باعث پوری دنیا میں ایک ممتاز شخصیت کے طور پر سامنے آئے پہلی جنگ عظیم کے دوران جب سلطنت عثمانیہ کو شکست ہوگئی اور ترکی پر غیروں کا قبضہ ہوگیا تو اتاترک نے ترکش نیشنل موومنٹ کی قیادت کرتے ہوئے ترکی کی آزادی کی جنگ لڑی اتحادی قوتوں کو شکست فاش سے دوچار کیا ۔ بعد ازاں بطور صدر مملکت انہوں نے ترکی کو ایک جدید ملک بنانے اور ترک عوام کو ترقی اور خوشحالی کی نئی منزلوں تک پہنچنے میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔
مصطفیٰ کمال 19 مئ 1881ء میں Greece یونان کے شہر Selanik جس کو اب Thessaloniki کہا جاتا ہے میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کا نام علی رضا آفندی اور والدہ کا نام زبیدہ خانم تھا والد یونانی جبکہ والدہ ترک تھیں۔
پیدائش کے وقت والدین نے ان کا نام مصطفیٰ رکھا لیکن سکول کی تعلیم کے دوران ان کی ذہانت اور اعلیٰ کارکردگی پر ریاضی کے ٹیچر نے ان کے نام کے ساتھ کمال کا اضافہ کر دیا کیونکہ وہ ہر کام میں کمال کرتے تھے اتاترک ان کا لقب ہے جس کا مطلب ہے “ترکوں کا باپ” “Father of Turks” ابتدائی تعلیم کے لئے ان کی والدہ انہیں ایک دینی سکول میں بھیجا کچھ عرصہ انہوں نے دینی تعلیم حاصل کی اس کے بعد وہ سمسی “semsi” سکول میں داخل ہو گئے جہاں سیکولر تعلیم دی جاتی تھی مصطفیٰ کمال کے والدین کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا تجارت کے شعبے میں تعلیم یافتہ ہوں لیکن مصطفیٰ کمال فوجی افسر بننا چاہتے تھے چنانچہ انہوں نے 1893ء میں ملٹری کے ایک جونئیر ہائی اسکول میں داخلہ لے لیا جبکہ 1896ءمیں وہ ماناستر شہر جو اس وقت سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا مگر آج کل وہ مقدونیہ (Macedonia) کا شہر بی ٹولہ کہلاتا ہے میں واقع ملٹری ہائی اسکول میں داخل ہو گئے 1899 ء مصطفیٰ( Constantpole) میں ق
واقع وار کالج میں داخل ہوئے 1902ء میں واقع سے گریجویشن کر لی گریجویشن کے بعد لیفٹنینٹ کے عہدہ پرتعینات کر کے دمشق بھیج دیا گیا وہاں انہوں نے خفیہ طور پر اصلاح پسند افسران کی تنظیم مدر اینڈ لیبرٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ 1907ء ان کو کیپٹن کے عہدے پر ترقی دے کر ماناستر تر تعینات کر دیا 1910ء میں انہوں نے فرانس میں فوجی خدمات انجام دیں 1911ء میں انھیں سلطنت عثمانیہ کے ایک صوبے طرابلس گارب جو آج کل لیبیا کہلاتا ہے تعینات کر دیا گیا تاکہ وہ Helo_Turish War میں حصہ لے سکیں 1912 میں وہ دارلحکومت واپس آئے۔ جب بالکن جنگوں کا آغاز ہوا تو پہلی بالکن جنگ میں انہوں نے بلغاریہ فوج کا مقابلہ کیا 1913ء میں انھیں ملٹری اتاشی بنا کر صوفیہ بھیج دیا گیا 1914ء میں ان لیفٹنینٹ کرنل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی 1914ء میں پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا سلطنت عثمانیہ اس جنگ میں بہت سے محازوں پر اپنا دفاع کرنا پڑا حکمران کی غلط پالیسیوں کے باعث سلطنت عثمانیہ کو پہلی جنگ عظیم میں بڑی طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے بہت علاقوں پر دشمن نے قبضہ کر لیا مصطفیٰ کی آخری ڈیوٹی سلطنت کی شکست خوردہ بکھری فوج کو دوبارہ منتظم کرنا تھا 1918ء میں وہ اپنے مقبوضہ دارلحکومت استنبول واپس آئے برطانیہ، فرانس ، اٹلی اور یونان کی فوج نے سلطنت کے مختلف علاقے آپس میں بانٹ لیے ۔ ازمیر اور استنبول پر بھی قبضہ ہو گیے جو مصطفیٰ اور ترک قوم کے لئے ناقابل برداشت تھا۔اس کے ردعمل کے طور پر ٹرکش نیشنل موومنٹ اور ٹرکش وار آف انڈیپنڈس کا آغاز ہوا جس کی قیادت مصطفیٰ نے اپنے پاس رکھی 1919ء میں مصطفیٰ سیمسن پہنچے ان کا مقصد قابض فوجوں کے مقابلہ کرنے کے لیے ایک منظم موومنٹ شروع کرنا تھا 1919ء میں ہی انہوں نے سلطنت عثمانیہ کی فوج سے استعفیٰ دے دیا جس پر عثمانیہ حکومت نے مصطفیٰ کمال کے سزائے موت کا اعلان کر دیا اور ان کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔
مصطفیٰ کمال حکومت سے مطالبہ کر دیا کیا کہ نئی پارلمنٹ کے قیام کے لیے انتخابات کروائے۔12 فروری 1920ء کو عثمانیہ پارلمنٹ کا آخری اجلاس ہوا اس پارلمنٹ کو برطانوی فوج نے برطرف کر دیا مصطفیٰ کمال نے پارلیمنٹ کی برطرفی کے بعد گرینڈ نیشنل اسمبلی کے قیام کا اعلان کیا23 اپریل 1920 کو گرینڈ نیشنل اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوا مصطفیٰ کمال نے بطور سپیکر اسمبلی اجلاس میں شرکت کی۔
10 اگست 1920ءعثمانی حکومت کے وزیراعظم دامت فرید پاشا نے قابض قوتوں کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کر دیے جس کے نتیجے سلطنت عثمانیہ کو مختلف میں تقسیم کر کے قابض قوتوں کے حوالے کرنا تھا۔ اس معاہدے میں ان علاقوں کا بھی ذکر تھا جو ترکی کا دل سمجھے جاتے تھے لہذا مصطفیٰ کمال نے اس معاہدے کو مسترد کر دیا اور ترکی کی آزادی کی جد وجہد شروع کرنے کا علان کردیا۔ اس مقصد کے لیے گرینڈ نیشنل اسمبلی کے ذریعے ایک نشینل آرمی کا قیام عمل میں لایا گیا نشینل آرمی نے تین محاذوں پر قابض فوجوں کا مقابلہ کیا یہ تین محاذ -Franco Turkish, Greco’s -Turkish, Turkish American جنگ کے تھے۔
5اگست 1921ء کو مصطفیٰ کمال نے نشینل آرمی کے کمانڈر ان چیف کا عہدہ سنبھالا لیا اور یونانی فوج کے ساتھ 23اگست سے 13 ستمبر 1921ء تک زبردست جنگ ہوئی بالاآخر یونانی فوج کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا اگست 1922ء کو مصطفیٰ کمال نے جنگ کا دائرہ وسیع کر دیا اور قابض فوجوں پر زبردست حملے شروع کر دیے 10 ستمبر 1922ء کو مصطفیٰ کمال نے لیگ آف نیشن کو ایک ٹیلی گرام کے ذریعے مطلق کیا کہ ترک قوم کے حوصلے عظیم ہیں اور وہ اپنی آزادی کے لیے کسی حد تک جاسکتی ہے۔
21 نومبر 1922ءکو کانفرنس آف لوسان شروع ہوئی جس کا مسائل کا حل جنگ کی بجائے مذاکرات سے نکلنا تھا ۔ ترکی کے نمائندے عصمت انونو نے بری جرات سے ترکی کی حکمت اعلیٰ دفاع کیا اور کسی قاسم کی مصلحت پسندی کو قبول نہ کیا۔ بالاآخر 24 جولائی 1923ءکو معاہدہ لوسان پر دستخط ہو گئے۔ اس کے نتیجے میں” 29اکتبور 1923ء “کو آزاد ریپبلک آف ترکی کا قیام کا ضابطہ اعلان ہو گیا۔
مصطفیٰ کمال کی نجی زندگی زیادہ خوشگوار نہیں گزری انہوں نے 29جنوری 1923ء میں Latif Usakhgil نامی خاتون سے شادی کی مگر 5 جولائی 1925ء کو دونوں کے درمیان طلاق ہوگئی۔ بعد ازاں مصطفیٰ کمال نے زندگی بھر شادی نہیں کی۔ مصطفیٰ کمال کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی البتہ انہوں نے سات بیٹیوں اور ایک بیٹا کو اپنایا اور ان کی پرورش کی۔ اپنے فراغ اوقات میں وہ کتابوں کا مطالعہ کرتے گھوڑ سواری اور تراکی کرتے۔ 1937ء میں ان کی صحت گرنے لگی۔ 1938ء کے آغاز میں وہ Yalova کے دورے پر تھے تو وہ سخت بیمار پڑ گئے انھیں علاج کے لیے استنبول لیا گیا۔جہاں ڈاکٹروں کو معلوم ہوا کے ان کا جگر خراب ہو گیا ہے اسی بیماری کے باعث وہ زیادہ عرصہ تک زندہ نہ رہے سکے 10نومبر 1938ء کو اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے۔
مصطفیٰ کمال اتاترک کی بطور سربراہ مملکت اپنے ملک اور قوم کے لئے خدمات کا ذکر کیا جائے وہ ان گنت ہیں۔ انہوں نے اپنے ملک میں قابل تقلید سیاسی، اقتصادیاور سماجی اصلاحات کی جدید رجحانات کے مالک اتاترک نے سابق سلطنت عثمانیہ اک جدید اور قوموں کی برادری اک مضبوط اور باوقار ملک بنادیا وہ اپنے ملک کی مقامل آزادی کے داعی تھے انھیں نے اپنی ایک تقریر میں ملکمل آزادی کی وضاحت کرتے ہوئے کہاملک آزادی سے ہمارا مطلب مکمل اقتصادی، مالی، فوجی، سماجی، جوڈیشل اور تمام معاملات میں آزادی ہے اگر ہمیں ان میں سے ایک سے محروم کیا جاتا ہے تو ہم سمجھیں گے ہمیں ہر قسم کی آزادی سے محروم کر دیا گیا ہے اتاترک نے اپنی تمام زندگی ترک قوم کو مکمل آزادی سے ہم کنار رکھنے کی کوشش کی۔ وہ عوام کی حاکمیت پر مکمل یقین رکھتے تھے انہوں نے اپنے ملک کو ایک مستحکم سیاسی نظام دیا۔1924ء کے آئین میں مقننہ کو انتظامیہ سے الگ کر دیا 1925ء انہوں ملک میں یک جماعتی نظام متعارف کروایا اور ملک کی پارٹی کو “پیپلز پارٹی” کا نام دیا گیا جس کے سربراہ خود مصطفیٰ کمال تھے بعد ازاں اس کا نام” ریپبلکن پیپلز پارٹی” رکھ دیا گیا۔
3مارچ 1923ء کو ترکی سے خلافت ختم کر دی گئ اور خلافت کے تمام اختیارات گرینڈ نیشنل اسمبلی منتقل کر دیئے گئے۔ خلافت کی بحالی کے لیے 1926ء میں مکہ اور 1931ء بیت المقدس بین اقوامی کانفرنس منعقد کی گئیں۔ہندوستان کے مسلمانوں نے بھی تحریک خلافت چلائی مگر کمال اتاترک نے خلافت کی بحالی قبول نہیں کیا ۔ وہ مذہب کو سیاست سے الگ رکھنے کے قائل تھے۔1925ء کے آغاز میں اپنی قوم کو یورپی لباس پہنتے کی تقلید کی۔ وہ مشرقی وسطیٰ کے لباس کو تبدیل کرنا چاہتے تھے 1925ء میں (Hat Law) متعارف کرایا گیا جس میں پگڑی یا ٹوپی کی بجائے پیٹ کی ترغیب دی گئی اور کمال اتاترک نے خود ہیٹ پہن کر عومی اجتماعات میں شریک ہونے کو ترجیح دی۔ اپنی قوم کو مارڈن لباس زیب تن کروانے کے لیے 1934ء میں اک قانون متعارف کریا جسے Law retating To prohibited)
Garments)
کا نام دیا گیا۔2ستمبر 1925ء کو صوفی ازم کی تشہیر کرنے پر پابندی عائد کر دی 1926 میں کمال کو ازمیر میں قتل کرنے کی اک سازش کا انکشاف ہوا کمال اتاترک کے سابق ساتھی احمد سکرو اور اسماعیل کنیبو لات کو شازش کا مجرم قرار دیتے ہوئے ان پر مقدمہ چلایا گیا اور ان کو پھانسی دے دی گئی یکم مارچ 1926 تڑکش پینل کوڈ پاس کیا گیا جو اطالوی پینل کوڈ سے مطابقت رکھتا تھا اس کے نتیجے میں 24 اکتوبر 1926ء اسلامی عدالتوں کو ختم کر کے سول عدالتیں قائم کی گئی۔اس کے علاوہ خواتین کو وراثت اور طلاق کے معلومات میں مردوں کے برابر حقوق دیے گئے 1928ء کمال اتاترک نے ترکی زبان کو عربی رسم الخط میں لکھنے کی بجائے رومن رسم الخط میں لکھنے کے احکامات جاری کیے اس اقدام کا مقصد ترکی کے عوام کی سوچ کو جدت اور ترقی یافتہ ممالک سے قرابت پیدا کرنا تھا۔
نئے رسم الخط کے ساتھ پہلا اخبار 15 دسمبر 1928ء کو شائع ہوا۔ اتاترک نے پرائمری سکول میں تعلیم دینے کے لیے جدید طریقے بھی متعارف کروائے 11 اگست 1930 میں کثیر الجماعتی نظام متعارف کروایا جس نتیجے میں لیبر پارٹی وجود میں آئی۔ اس پارٹی نے کمال اتاترک کی اصلاحات کی مخالفت میں پراپیگنڈہ مہم شروع کر دی۔ اس پارٹی کو عوامی پذیرائی حاصل نہ ہو سکی اور اس کا وجود ختم ہو گیا۔
خارجہ پالیسی کے حوالے سے اتاترک کا نظریہ یہ تھا Peace at home and peace in the world ۔ نیز ہر شعبے میں بہتری نظریات پیش کئےاور بہترین طرز عمل اپنایا۔اسی لیے ترک قوم اپنے اس عظیم قائد کو آج ہر لمحہ یاد کرتی ہے ترکی کے تقریباً ہر شہر میں اتاترک کے مجسمے نصب ہیں ترکی میں بہت سے اہم مقامات ان کے نام سے منسوب ہیں مثلا اتاترک ڈیم ، اتاترک سٹیڈیم، اتاترک انٹرنیشنل ائیرپورٹ وغیرہ دنیا بھر میں اتاترک کو عظیم لیڈر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے 1981ء میں اتاترک کی 100 برسی پر اقوام متحدہ اور یونیسکو 1981ء کو دنیا بھر کے لیے اتاترک کا سال قرار دیا اور ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک قرارداد منظور کی۔ مصطفیٰ کمال اتاترک جسے لیڈر قوموں کی زندگی میں کبھی کبھی پیدا ہوتے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...