نوٹ: یہ پوسٹ کمزور دِل افراد کے لئے نہیں۔
لائیبیریا مغربی افریقہ میں واقع ہے جس کی تاریخ غلامی کی تجارت سے لکھی گئی ہے۔ یہاں کی سیاسی تاریخ اپنی جگہ لیکن ابھی بات صرف نیچے دی گئی تصاویر کی جو 1980 میں لی گئیں۔
یہ تصویریں ایک انقلاب کی ہیں اور ایک حکومت سے چھٹکارے کی۔ پہلی تصویر میں کھمبے کے ساتھ پچھلی حکومت کے وزیروں کو باندھا گیا ہے۔ ولیم ٹولبرٹ کے ظالمانہ دورِحکومت کا خاتمہ عوامی انقلاب سے ہوا تھا۔ مہنگائی کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں کو سختی سے کچلنے دینے کا حکم دیا گیا تھا لیکن نہتے مظاہرین پر برستی گولیاں ان کے اقتدار کو نہ بچا سکیں۔
ٹولبرٹ کو بندوق کے بٹ مار مار کر قتل کیا گیا تھا۔ ان کی کابینہ کو گرفتار کیا گیا، برہنہ کر کے دارالحکومت میں پھرایا گیا اور آخر میں ساحل کے کنارے کھمبوں سے باندھ کر فائرنگ سکواڈ کے آگے کھڑا کر دیا گیا۔ لوگوں کے تالیاں بجاتے ہجوم کے آگے گولیوں کا پہلا راؤنڈ فائر کیا گیا۔ ایک کے سوا تمام گولیاں نشانے پر لگیں۔ وزیرِ خارجہ سیسل بچ گئے۔ انہوں نے آنکھ بند کر کے آسمان کی طرف دیکھ کر کچھ دعا پڑھی۔ گولی مارنے والا چیخا، "تُم ظالم ہو، خدا تمہاری آواز نہیں سنے گا، جہنم میں جاؤ"۔ دوسرے راؤنڈ کی گولی سے وہ نہیں بچ سکے۔ ہر ایک کے جسم میں پچاس سے ساٹھ گولیاں اتاری گئیں۔ ان کی لاشوں پر ہجوم کا خوشی کا رقص اور ایک نئے دور کا آغاز۔ (یہ سب تصویری صورت میں ریکارڈڈ ہے)۔
دوسری تصویر سیموئل ڈو کی ہے جو اس انقلاب کے بعد نئے صدر بنے ہیں۔
پھر کیا ہوا؟ یہ سب چھوڑ کر کے دس سال آگے چلتے ہیں۔ اب نئے انقلابی پرنس جانسن ہیں۔ سیموئل ڈو کو دارالحکومت منروویا سے پکڑا گیا۔ نئے انقلابیوں نے پہلے مار مار کر ان کا حلیہ بگاڑا۔ زخمی حالت میں برہنہ کر کے شہر میں گھمایا۔ ان کے کان کاٹے گئے۔ انگلیاں اور پاؤں کے انگوٹھے۔ اگلے روز ان کو کاٹ کر پکا دیا گیا۔ اس سب کے دوران ہجوم کی تالیاں اور خوشی کا رقص۔ (یہ سب ویڈیو کی صورت میں ریکارڈڈ ہے)۔
اس کے بعد لائبیریا بدترین خانہ جنگی کا شکار رہا۔ لاکھوں افراد اس میں مارے گئے۔ اس کی کُل آبادی کا دس فیصد حصہ۔ اگلے سات برس تک کوئی بھی حکومت نہیں تھی۔ پہلی خانہ جنگی بند ہوئی اور کچھ برس بعد دوسری خانہ جنگی شروع۔ اس کے اختتام پر پہلی بار ایک خاتون صدر ایلن جانسن نے اقتدار سنبھالا۔ اپنے عہدے کی دو مدتیں ختم کرنے کے بعد ان کا اس برس ہونے والا انتقالِ اقتدار لائبیریا کی آزاد تاریخ کا پہلا پرامن انتقالِ اقتدار ہے۔
اگرچہ یہاں پر بجلی، پانی اور نکاسی آب جیسے بنیادی سہولیات بھی کم آبادی کو میسر ہیں لیکن اکیسویں صدی میں آہستہ آہستہ لائیبیریا ایک نارمل ملک بننا شروع ہو گیا ہے۔