میں اپنے دفتر کےسامنے والی سڑک پر کئی سال سے ایک بوڑھی عورت کو بھیک مانگتا دیکھتا اور آتے جاتے ہمیشہ یہی سوچتا کہ آخر اس بڑھیا کو اس عمر میں اتنا زیادہ کما نے کی حرص اور ان بوڑھی ہڈیوں کو صبح سے شام تک سرد،گرم موسم کے تھپیڑوں میں پگھلااوران موسموں کا عذاب دینے کی کیاضرورت ہے؟ جبکہ اس کاحال یہ ہے شایدیہ ایک رو ٹیبھی بیک وقت پوری نہ کھاسکے ،مگرانسان کی نیت ؟
بلاناغہ یہ صبح ہی اپنے ٹھیئے پرآکرکیوں بیٹھ جاتی ہے؟ اگرہفتہ میں یہ ایک یادودن نہ بھی مان گے تو اس کے بچے بھوکے مرنے سے تورہے، یاپھرکسی کے چھوٹے ، موٹے بچّے ہوں تب بھی درست ہے ، یہ سب اس عمرمیں؟بچوں کی پرورش، ان کے بیاہ شادی نیزتمام غموں سے آزادہے،مگروہی نیت خراب والی بات، توبہ،افسوس ایسی ذلت بھری زندگی پر۔
۔۔۔۔۔ نیزکیسی ہوس کی کھوپڑی ہے؟ کہ اس کا پیٹ ہی نہیں بھرتا،آخرایک روزتو میں نے طیش میں آکر اس سےپوچھنے کا پکا ارادہ بھی کرلیا کہ
’’ امّاں یہ بتا" آخرتیری ایسی کونسی مجبور ی ہے،جواس بڑھاپے کی عمر کوگھرکے کسی آرام دہ گوشہ کے بجائے ان تکلیف دہ سڑکوں پر کاٹ رہے ، یہ تیری آرام کی عمرتھی،مزےسے ایک روٹی کھاکے ، ٹھنڈاپانی پیتی اورعیش کرتی۔
"ایک روز تومیں اس سےپوچھنے کے لئے اس کے قریب جاکرکھڑا بھی ہوگیا مگریقین جانئےکہ میری زبان سے اس کےسامنے ایک لفظ تک نہ نکلا اور ایسے گونگا سا بنارہ گیا کہ جیسے کسی نے میری زبان سی دی یااس پر تالا لگا دیا ہو۔۔۔۔آخر خاموشی کے ساتھ پیچھے ہٹ گیااور الٹے پاؤں چل کر اپنے دفترآگیا۔
آخر یہ معاملہ برسوں یونہی چلتا رہا، وہ بھی اپنے ٹھئے پر برا بر آتی رہی اور ہم بھی گونگے تماشائی بنے دیکھتے رہے۔۔۔۔۔
البتہ اس کے بعد عام لوگوں کی طرح ہم نے بھی اپنے ذہن میں وہی مثال قائم کرلی جو عوام میں مشہور ہےکہ" بھیک اورگوشت کا چسکہ ہی ایسا ہے کہ یہ کمبخت جس کے منہ لگ جائے، اس سے نہیں چھوٹ سکتا۔۔۔۔بقول مرزا غالب چھٹتی نہیں ہے یہ کمبخت منھ سےلگی ہوئی۔
ایک دن کی بات ہے کہ میں اپنے بچوں کی فیس بھرنے ان کے اسکول گیا تو مجھے لگا کہ قطار میں مجھ سے آگے ونڈو پر صاف ستھرے لباس میں کھڑی خاتون شاید میری اچھی طرح دیکھ بھالی اورخوب شناساں سی ہے، مگر میں اپنے دماغ پر بوجھ دینے اور پوری یادداشت کوسمیٹنے کے باوجودبھی اس دیکھی، بھالی خاتون کو اس کے صاف ستھرے لباس اور جائے وقوع کی تبدیلی کی وجہ سے پہچاننے میں ناکام رہا۔
" آخروہی مسکرا تی ہوئے بولی بابوجی کیا آپ نے مجھے پہچانا نہیں ؟یہ کہہ کر وہ ہلکی سی مسکرا کر خاموش ہو گئی۔
گویا کہ وہ قطار میں کھڑے بچوں کے پیرنٹس اور والدین کےسامنے مجھ سےدبے الفاظ میں یہ کہہ رہی ہو کہ"میں وہی بھکارن ہوں جو آپ کے دفتر کے باہر دن بھر بیٹھ کر،راہگیروں،مسافروں کے آکے ہاتھ پھیلا تی ہوں۔۔۔۔
آخر کار وہ کھڑکی سے اپنی فیس سلیپ لے کرچلتی بنی—
پہلے تویہ سارامنظر مجھے ایک خواب سا لگا، مگرچونکہ یہ سارا واقعہ مجھ کو دن کےاجالے میں جاگتی آنکھوں پیش آیاتھااس لئے حقیقت کو قبول کیے بنابھی کوئی چارہ نہیں تھا۔
میں نے اپنے دل میں سوچا:چلو ٹھیک ہے کہ لوگوں کی گاڑھی کم از کم ازکم کہیں غلط،ناجائز کام یا گڑھے میں تو نہیں جارہی ہے، یہ بھی خدا شکر ہے کہ نیک کام اور تعلیم پر خرچ ہورہی ہے،اس کے بعد چونکہ میراہی نمبر تھا لہٰذا میں اپنے دونوں بیٹوں حمزہ خالد اوربیٹی برزہ مریم کی فیس کلرک کوپکڑاکررسید کے انتظار میں تھا کہ کلرک نےرقم لےکرمجھے فیس سلیپ مجھے تھماتے ہوئے بڑے خوش کن انداز میں کہا:دیکھئے صاحب! ہماری قوم میں اس گئےگزرے دورمیں بھی ماشاءاللہ ایسے ایسے مالدارسخی اور علم دوست حضرات ہیں جو کہ دوسروں کے بچوں کی ماہانہ فیس اپنی جیب سے اداکرتے اور کسی کوکانوں ،کان اس کی بھی بھنک نہیں لگنے ہونےدیتے جیسے یہی بڑی بی تھیں کہ یہ ماہانہ ایسےچار غریب طلباء کی فیس اداکرتی ہیں جو نہایت ہی نادار وغریب ہیںاور لطف کی بات یہ ہے کہ ان بچوں اوران کے سرپرستوں کو ان خاتون کا نام ونشان تک پتہ معلوم نہیں، کہ وہ بیچارے کم سے کم ان صاحبہ کاشکریہ ہی اداکرسکیں۔
صاحب! میں آپ کو یہ بھی بتا ئوں کہ سالانہ داخلوں کے بعد ہماری اسکول انتظامیہ اشتہار نکالتی ہے۔
’’مخیرحضرات توجہ دیں*اس سال ہمارے اسکول میں متعدد طلباء ایسے ہیں جن کے والد ین کاروباری مالی طور پر نہایت غریب ،کمزور ہیں،جو حضرات مالی وسعت اور علم دوستی کا جذبہ رکھتے ہوں وہ ایسے غریب، نادار طلبہ کی فیس ادا کرکے کارخیر میں حصہ لیں،للہ تعالیٰ کسی کا اجر ضائع نہیں کرتا—-
اس کے بعد کلرک نے بہت ہی مسرت کی ساتھ مجھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: صاحب!لگتا ہے کہ یہ صاحبہ کسی اچھے مالداراورپڑھے، لکھےگھرانے کی خاتون ہیں۔۔۔۔میں کلرک کی یہ تمام باتیں بڑے غورسےسنتا اور گونگے کا گڑ کھائے خاموش اپنے نفس کولعنت کرتارہا ۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...