میرا بچپن کراچی کی ایک سرکاری ملازمین کی بستی "فیڈرل کیپٹل ایریا" میں گزرا ہے۔ اُس زمانے میں یہاں پر تقریباً 200 عمارتیں تھیں، جو عام طور پر تین منزلہ تھیں۔ ہر عمارت میں تقریباً 12 فلیٹ تھے۔ ہم جس عمارت میں رہتے تھے اس کے بلکل برابر سے غالباً 1962 میں کراچی سرکلر ریلوے کی "ریلوے لائنیں" گزار دی گئیں تھیں۔ وہ ریلوے لائنیں ہمارے گھر سے بھی نظر آتی تھیں۔ اس تحریر میں شامل اخبار کے تراشوں کی جو تصاویر آپ دیکھ رہے ہیں یہ اسی حادثے کے متعلق ہیں جس کو ذیل میں ہم رقم کر رہے ہیں۔
آج بھی مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے۔ اگر آپ اس اخبار کو غور سے دیکھیں تو اس پر منگل لکھا ہوا ہے۔ اُس زمانے میں "اخبارات" پر ایک دن آگے کی تاریخ اور دن لکھا جاتا تھا۔ اس اعتبار سے یہ پیر کا دن ہے اور "واقعہ" اتوار کا رپورٹ ہوا ہے۔
وہ اتوار کا دن تھا۔ اسکول کی چُھٹی تھی، اس لیے ہم سب گھر والے قدرے دیر سے کوئی صبح کے ساڑھے نو بجے کے قریب ایک ساتھ ڈائننگ ٹیبل پر ناشتہ کررہے تھے۔ اس دوران ایک ریلوے انجن جس کے ساتھ صرف ایک گارڈ کا ڈبہ لگا ہوا تھا، بڑی تیزی سے وہاں سے گزرا۔ ہمارے والد صاحب نے اُس کی آواز سُن کر کہا کہ الله خیر کرے بھئی یہ انجن بہت تیزی سے جا رہا ہے۔
ابھی والد صاحب کی اس بات کو کہے ہوئے بمشکل پانچ، سات منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ دُور سے ایک دھماکے کی آواز آئی۔ آواز سُنتے ہی ہمارے والد صاحب فوراً باہر کی طرف گئے، میں بھی بھاگتا ہُوا ان کے پیچھے گیا۔ ابھی ہم اِدھر اُدھر ہی دیکھ رہے تھے کہ ہماری تیسری منزل پر رہنے والے پڑوسی نے جو اپنی بالکونی میں کھڑے تھے، والد صاحب کو اُوپر سے آواز دی اور کہا کہ لگتا ہے آگے جا کر ریلوے انجن کسی گاڑی سے ٹکرا گیا ہے۔۔۔
اس کے بعد ہم سب اسی سمت چل پڑے۔ جب ہم ریلوے کراسنگ کے قریب پہنچے تو ہماری نظروں کے سامنے عجیب منظر تھا۔ چاروں طرف بس کے مسافروں کے جُوتے، چپلیں اور ناشتہ دان بکھرے پڑے تھے۔ جگہ جگہ انسانی خُون پڑا ہوا تھا۔ تھوڑے فاصلے پر ایک بس پِچکی ہوئی حالت میں اُلٹی پڑی تھی۔ جائے وقوعہ پر سے فوراً ہی تمام زخمیوں کو لے جایا چکا تھا۔ اس لیے ہم اُن زخمی لوگوں کو نہیں دیکھ سکے تھے، البتہ کچھ لاشوں کو ایک بڑے ٹرک میں ڈالتے ہوئے ہم نے رضاکاروں کو دیکھا تھا۔
حیران کُن طور پر لاشوں سے بھرے ہوئے اُس "ٹرک" کے چاروں طرف سے انسانی خون بہہ رہا تھا۔ یہ سن 1963 کی بات ہے، میں اُس وقت شاید دوسری یا تیسری جماعت میں پڑھتا تھا۔ اس افسوسناک حادثے کے بعد ہی مسقتبل میں مزید کسی حادثے سے بچنے کے لیے محکمہ ریلوے نے "کریم آباد" اور "نارتھ ناظم آباد" میں ریلوے اوورہیڈ بِرج بنائے تھے۔ شعوری طور پر یہ میری زندگی کا وہ پہلا حادثہ ہے جس کی آواز کو میں نے اپنے کان سے سُنا اور پھر جائے حادثہ کو بھی اپنی آنکھوں سے جا کر دیکھا تھا۔
“