ایک حساس شاعر۔۔۔ مقبول عامر
ایک روحانی اور رومانی شہرت والے خاندان سے تعلق رکھنے والےجواں مرگ شاعر مقبول عامر کا پورا نام مقبول حسین شاہ تھا۔ 1954ء میں جھنڈو خیل بنوں میں پیدا ہوئے۔(ایک روایت کے مطابق میرانشاہ میں جہاں ان کے والد امیر عبد اللہ سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے) مقبول عامر نے 1970 ء میں ہائی سکول نمبر 2 بنوں سے میٹرک پاس کیا۔ ایف ایس سی کے بعد 1975ء میں گومل یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ ایم اے انگریزی میں داخلہ لیا لیکن ملازمت کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی۔ حبیب بنک میں ملازمت کے دوران انہوں نے اپنا تبادلہ پشاور کرا لیا تاکہ یہاں شاعروں اور ادیبوں سے ملاقات کے مواقع میسر آسکیں۔ پشاور یونیورسٹی سے ایم اردو کا امتحان پاس کیا۔ 1984ء میں بطور ریسرچ آفیسر اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد میں تقرر ہوا۔
پی ٹی وی پر جنگِ آزادی کے مجاہدین کے کارناموں اور قربانیوں پر ایک سیریز ” وفا کے پیکر “ چلی ۔مقبول عامر نے اس سیریز میں حاجی میرزاعلی خان پر ڈراما لکھا تھا۔ پی ٹی وی پشاور کی محفل مسالمہ،نعتیہ مشاعروں کی نظامت کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے۔
ٹی وی کے ممتاز پروڈیوسر شاہد مسعودبتاتے ہیں ’’میری مقبول عامر سے بڑی دوستی رہی۔ پی ٹی وی پہ کُچھہ کام بھی اس سے کروایا۔ اُس کی بیماری کی وجہ سے لوگوں نے اُس سے ہاتھہ ملانا چھوڑ دیا تھا۔ میں ہر مرتبہ جان کے نہ صرف اُس سے ہاتھ ملاتا تھا، بلکہ گلے بھی ملتا تھا۔ یقیناً حد سے زیادہ حساس آدمی تھا۔ اُس کی شاعری میں اُس کا درد اور کاٹ نمایاں تھی۔‘‘
مقبول عامر کی شادی 1978ء میں زبیدہ خانم سے ہوئی جن سے ان کے تین بچے پیدا ہوئے۔
جوانی میں ایک خطرناک بیماری سکلیروڈرما میں مبتلا ہو گئے جس سے ان کی انگلیوں کی پوروں میں سوجن اور سختی پیدا ہو گئی۔ افتخار عارف کے تعاون سے علاج کے لیے لندن کا سفر کیا لیکن افاقہ نہ ہوا۔ 31 مئی 1990ء کو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔ اگلے روز یکم جون کو انہیں جھڈی خیل میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ ان کی قبر پر ان کا اپنا یہ شعر کندہ ہے۔
میں مر گیا ہوں وفا کے محاذ پر عامر
پس شکست بھی میرا وقار باقی ہے
ان کو جو بیماری تھی اس کا سبب انتہائی حساس ہونا بھی ہوتا ہے ، جو وہ تھے بھی۔ بینظیر بھٹو کو ایک خط میں لکھا تھا ۔۔۔۔ ’’ ملکی سیاست کا بغور مشاہدہ کر رہا ہوں اور اس عمل میں ذہنی طور پر اتنا منہمک ہوں کہ ملکی شکست و ریخت کے ساتھہ میرا وجود بھی ٹوتتا رہا ہے۔‘‘
ان کا مجموعۂ کلام ’’ دیئے کی آنکھہ‘‘ ان کی زندگی میں ہی 1990 میں اسلام آباد سے شائع ہوا۔ جس کا انتساب امن اور محبت کے نام ہے۔۔ دوسرا ایڈیشن اب پشاور کے بخاری پبلیکشنز نے شائع کیا ہے۔۔ان کی شخصیت اور فن پر جامعہ پشاور میں حسین محمود نے ایم اے کا مقالہ لکھا۔ شیر علی نےعلامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کیلئے تحقیقی مقالہ تحریر کیا۔ دیئے کی آنکھہ کا پشتو میں ترجمہ دانش نے 2008ء میں کیا۔ جس کا نام انہوں نے دڈیوے سترگے رکھا۔ڈاکٹر طارق ہاشمی نے رسالہ ” تسلسل“ کا مقبول عامر نمبر“ بھی نکالا تھا ۔
مقبول عامر کا خاندان اپنے علاقے کا پیر فقیر اور گدی نشین خاندان ہے ۔ رومانی حوالہ اُن کے چچا نورعلی شاہ اور ایک ہندو لڑکی رام کوری ( بعد ازاں اسلام بی بی ) کی داستانِ عشق، شادی اور پھر جدائی کا ہے ۔ اس واقعے کو بنوں کی لوک کہانی کا درجہ حاصل ہے ۔ تاریخ بنوں میں بھی درج ہے۔
مقبول عامر کے کچھہ اشعار
پل بھر وہ چشمِ تر سے مجھے دیکھتا رہا
پھر اس کے آنسوؤں سے سے مری آنکھہ بھر گئی
کوئی پڑاؤ نہیں وقت کے تسلسل میں
یہ ماہ و سال کی تقسیم تو خیالی ہے
تشنگی اپنے نصیبوں مین لکھی تھی ورنہ
فاصلہ کچھہ بھی نہ تھا ہونٹ سے پیمانے میں
مرے خلاف گواہی میں پیش پیش رہا
وہ شخص جس نے مجھے جرم پر ابھارا تھا
ہم اہل شب کے لیے صبح کا حوالہ ہے
دیے کی آنکھہ میں آنسو نہیں اجالا ہے
دشت بے آب سے پوچھو کے وہاں کے اشجار
کن مراحل سے گزرتے ہیں نمو پانے تک
دیدۂ تر نے بڑی دیر میں پہچانا اسے
روپ کھوبیٹھا ہے دو چار ہی سالوں میں کوئی
دشتِ بے آب سے پوچھو کہ وہاں کے اشجار
کن مراحل سے گزرتے ہیں نمو پانے کے لیے
میں ایسے کھیت کا دہقان ہوں جہاں عامر
زمین بھوک اگاتی ہے ہر بشر کے لیے
میں ایسی راہ پہ نکلا کہ میری خوش بختی
تمام عمر مری کھوج میں بھٹکتی رہی
میری تعریف کرے یا مجھے بدنام کرے
جس نے جو بات بھی کرنی ہے سر عام کرے
مجھے خود اپنی نہیں اس کی فکر لاحق ہے
بچھڑنے والا بھی مجھہ سا ہی بے سہارا تھا
سفر پہ نکلیں مگر سمت کی خبر تو ملے
کوئی کرن کوئی جگنو دکھائی دے تو چلیں
میں مر گیا ہوں وفا کے محاذ پر عامرؔ
پسِ شکست بھی مرا وقار باقی ہے
آسماں کی چادر پرجس قدر ستارے ہیں
ہم نے اتنے ہی لمحے جاگ کر گزارے ہیں
رنگ و نور کے پیکر دیکھہ کر خیال آئے
حسن نے مری خاطر کتنے روپ دھارے ہیں
تم قیام کے خوگر، ہم سفر کے شیدائی
بستیاں تمہاری ہیں، راستے ہمارے ہیں
جانے پھول کب مہکیں ، جانے آگ کب بھڑکے
دل میں نیم وا کلیاں ذہن میں شرارے ہیں
دل کی ڈولتی کشتی کیسے گھاٹ اترے گا
بے گراں سمندر ہے، بے لگام دھارے ہیں
اپنا مسلک ہی نہیں زخم دکھاتے پھرنا
مانتا ہوں کہ ترے پاس مسیحائی ہے
سانحہ پھر کوئی بستی میں ہوا ہے شاید
شام روتی ہوئی جنگل کی طرف آئی ہے
فردِ جرم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقیہہ شہر بولا بادشاہ سے
بڑا سنگین مجرم ہے یہ آقا
اسے مصلوب ہی کرنا پڑے گا
کہ اس کی سوچ ہم سے مختلف ہے
۔۔۔۔۔ غیرمطبوعہ ۔۔۔۔۔۔
بچھڑ رہا ہے کوئی شخص عمر بھر کے لیے
یہ وقت کاش ٹھہر جائے لمحہ بھر کے لیے
مرے دیار کی بیٹی ہے منتظر اس کی
جو دور دیس گیا ہے حصول زر کے لیے
ذرا ٹھہر کہ کہیں گل فروش کے یاں سے
میں چند ہار خریدوں اداس گھر کے لیے
میں شعر گوئی تمہارے لیے ہی کرتا ہوں
تمہاری داد ہے کافی مرے ہنر کے لیے
میں ایسے دیس کا دہقان ہوں جہاں عامر
زمیں بھوک اگاتی رہی بشر کے لیے
بشکریہ
متین خان مبتلا، کاشف مصطفیٰ، اعتزاز احمد خاں،طاہر عابد طائر، ثقلین انجم ، شاہد مسعود ، حسین محمود ، وکی پیڈیا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔