ایک چمپینزی ماں کیڑے لگا کر اپنے بیٹے کے زخم کو ٹھیک کرتی ہے۔
یہ گریٹ ایپس کے درمیان سماجی رویے کا شاندار مظاہرہ ہے۔اور پرائیمیٹ کےاس سوشل رویے، ایک مثبت طرزعمل جو سماج کے دیگر ارکان کی ہمدردی اور فلاح میں ہو ، کی عکاسی کرتا ہے
2019 میں، الیسنڈرا ماسکارو Alessandra Mascaro ، اوزوگا چمپینزی پروجیکٹ (چمپنزی کے بارے میں انکی قدرتی ماحول کے ساتھ ایک ریسرچ کے لیے بنے سینٹر) کے ساتھ ایک رضاکار، سوزی نامی ایک بالغ مادہ چمپینزی کی فلم بندی کر رہی تھی، جو اپنی (چمپنزی کی) چھوٹی بیٹی سسنڈرا Sassandra اور نوعمر بیٹے، سیا Siaکے ساتھ بات چیت کر رہی تھی۔ پھر، کسی وقت، کچھ بہت ہی عجیب ہوا.
جب سوزی (ماں چمپنزی) سیا (اسکے بچے) کے پاؤں پر لگے زخم کا معائنہ کر رہی تھی، چمپ ماں نے اپنی انگلیاں ایک پتے کے نیچے پھیریں، کچھ پکڑا جو اس نے اپنے منہ میں ڈالا، اسے اپنے ہونٹوں کے درمیان دبایا، پھر اسے اپنے منہ سے نکال کر اس کے زخم پر لگایا۔ بیٹے کی ٹانگ یہ کچھ کیڑے مکوڑے سے نکلنے والے رطوبتوں کی مالش کی۔ زخموں کو سنبھالنے والے اس سوشل رویے کا حصہ تھا جو سوزی کے گروپ کے دیگر ممبران میں کافی حد تک پھیلے ہوا تھا۔ اگرچہ سوزی نے خود کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا، لیکن اس کے کام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے پہچان لیا کہ اسکا بیٹا، سیا مشکل میں ہے اور اس نے اپنے بیٹے کو ٹھیک کرنے میں مدد کرنے کے لیے کارروائی کی۔ یہ ایک غیر انسانی نسل میں سماجی رویے کا ایک قابل ذکر ڈسپلے اور ہمدردی کی علامت ہے۔
جانوروں میں خود اپنی دوا دارو Self-medication کرنا حیرت انگیز طور پربہت عام ہے۔
جانوروں کے لیے خود سے اپنی دوا لینا بہت دفعہ سنا ہےاور فطرت میں اسکو بہت دفعہ مشاہدہ بھی کیا جاسکتا ہے ۔ پرندے، شہد کی مکھیاں، چھپکلی، ہاتھی، اور چمپس بعض پودوں کو نگلنا جانتے ہیں یا ضرورت پڑنے پر انہیں بظاہر غیر معمولی طریقوں سے استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کچھ چھپکلی زہریلے سانپ کے کاٹنے پر زہر کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک خاص جڑ کھا کر اسکو جواب دیتی ہیں اور ایتھوپیا میں ببونز فلیٹ کیڑوں سے لڑنے کے لیے پودے کے پتے کھاتے ہیں جو انکی ایک بیماری schistosomiasis کا سبب بنتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر، چڑیاں اور فنچ اپنے گھونسلوں میں ذرات کے انفیکشن کو کم کرنے کے لیے نکوٹین سے بھرپور سگریٹ کے بٹ جمع کرتے ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جانوروں نے مصنوعی ماحول میں بھی ایسے فارماسولوجیکل اجزاء کا استعمال سیکھ لیا ہے، اور یہ بھی ارتقاء کے ثبوتوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
لیکن جانوروں کی سیلف میڈیکیشن کی زیادہ تر مثالیں گریٹ ایپس میں دستاویزی ریکارڈ پر ہیں۔ 1996 میں، امریکی ماہر حیاتیات مائیکل ہوف مین Micahel Huffman نے پہلی بار تنزانیہ میں ایک طفیلیوں کیڑوں سے متاثرہ، ایک قبض زدہ چمپینزی کو ایک نقصان دہ پودے کے پتے چباتے ہوئے دیکھا جس سے وہ عام طور پر پرہیز کرتا تھا۔ اگلے دن تک وہ چمپ مکمل طور پر صحت یاب ہو چکا تھا، اور اب اسکو پاخانہ بالکل ٹھیک ہورہا تھا۔یہ پتے دراصل وہ چمپنزی اپنے علاج کے لیے چبارہا تھا۔
سوزی کا خاندان سیلف میڈیکیشن کی ایک اور شکل کی مثال ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ محققین نے زخموں کے علاج کے لیے چمپس کو اپنے اور دوسروں فیملی ممبران پر کیڑے اور انکا لیپ، ایک دوائی کے طور پر لگاتے دیکھا ہے۔
“ہمیں پتہ چلا ہے کہ جانوروں میں سیلف میڈیکیشن کے بارے میں بہت ساری تحقیق ہے، جو کہ پودوں کے ثانوی حصوں یا دیگر غیر غذائیت والے مادوں کا انکا استعمال ہے۔ تاہم، اب تک یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ جانور زخموں کے علاج کے لیے کیڑوں کو پکڑتے ہیں اور لگاتے ہیں اور اپنے مخصوص زخموں کا علاج بھی کرتے ہیں،” یونیورسٹی آف اوسنابرک کے انسٹی ٹیوٹ آف کاگنیٹو سائنس سے تعلق رکھنے والی سیمون پیکا Simone Pika نے ZME سائنس کو بتایا۔
گریٹ ایپس کے درمیان سماجی روابط کا عمومی رویہ
مسکارو کی حیرت انگیز ویڈیو کا مطالعہ کرنے کے بعد، پیکا اور اوزوگا ٹیم کے ساتھیوں نے اس طرز عمل کی دیگر مثالوں کے لیے مغربی گیبون کے لوانگو نیشنل پارک میں چمپینزیوں کے ایک اور گروپ کی نگرانی کرنے کا فیصلہ کیا۔ چیمپ کمیونٹی کو تلاش کرنا اور اس کی پیروی کرنا آسان نہیں تھا، جو چیلنجنگ ماحول میں رہتی ہے جیسے بشمول جنگلات، سوانا، ساحل اور دلدلی علاقوں والے ماحول ۔ پیکا نے کہا، “اس کے علاوہ، ارد گرد جنگلی ہاتھی بھی ہیں، جو خطرناک ہو سکتے ہیں۔”
لیکن محققین نے اس چیلنج کا مقابلہ کیا اور اگلے 15 مہینوں کے دوران، چمپس کے 76 کیسوں کو دستاویزی شکل دی جو اپنے اور دوسروں کے زخموں پر کیڑوں کا لیپ لگاتے تھے۔ تاہم ہم ابھی تک یہ نہیں جانتے کہ کس قسم کے کیڑے لگائے گئے تھے، اور نہ ہی ان کی اس خود ساختہ دواؤں کی خصوصیات کیا ہو سکتی ہیں لیکن پیکا کا کہنا ہے کہ “بہت سے ایسے مطالعات ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کیڑوں کی ایسی دواؤں میں اینٹی بیکٹیریل، اینٹی وائرل، اینٹی فنگل، اینٹی سوزش اور شاید آرام دہ مادے بھی ہوتے ہیں، جسکو مل کر ایک چمپنزی کو آرام آسکتا ہے۔”
زیادہ تر امکان ہے کہ اسطرح کیڑوں سے تیار شدہ چمنزی کی دوا اسکو درد سے کچھ راحت فراہم کرتی ہیں، بالکل جیسے انسانوں میں بعض درد کش دوائیں ہوتی ہیں۔ اوزوگا کے محققین استعمال کیے جانے والے کیڑوں کی شناخت کے لیے مزید تحقیق کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، ساتھ ہی یہ دستاویز بھی کرتے ہیں کہ چمپینزی گروپ میں کون یہ کیڑے لگا رہا ہے۔ اس عمل میں، وہ اس بارے میں مزید جان سکتے ہیں کہ یہ رویہ سب سے پہلے کیسے شروع ہوا اور یہ گروپ کے اراکین میں کیسے منتقل ہوتا ہے۔
“ہم جانتے ہیں کہ ہمارے بالغ نر اور بہت سی مادہ چمپنزی کی اکثریت اس رویے کو استعمال کر رہی ہے، جو یہ بتاتی ہے کہ انہوں نے اسے اپنے ماحول سے سیکھ لیا ہے۔ مزید برآں، ایک کیڑے کے استعمال کا واقعہ ہمیشہ آس پاس کے چمپینزیوں میں بہت زیادہ توجہ پیدا کرتا ہے، یعنی وہ سب قریب آتے ہیں اور دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے،” پیکا نے کہا۔
لیکن محقق کے لیے، اس مطالعے کے بارے میں سب سے زیادہ حیران کن چیز اس سب کیاانوکھی سماجی نوعیت ہے۔ مدد کرنا، بانٹنا، اور تسلی دینا ایک پیچیدہ سماجی رویہ ہے جو خود کے بجائے دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے، اور جسے ہم عام طور پر انسانوں سے منسوب کرتے ہیں۔ لیکن اگر چمپنزی کے متعلق یہ نتائج اگر کوئی اشارہ کرتے ہیں، تو وہ یہ ہے کہ ہم یعنی انسان اس رویے میں بھی یقینی طور پر اکیلے اور منفرد نہیں ہیں۔
پیکا نے کہا کہ “ابھی بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو انسانوں کے علاوہ دوسرے جانوروں میں بھی سماجی مہارتوں پر شک کرتے ہیں اور میرے خیال میں یہ مثال اتنی واضح ہے کہ یہ شک کرنے والوں کو بھی قائل کر دے گی۔”
The findings appeared in the journal Current Biology.
سورس آرٹیکل
اسی موضوع پر ایک وڈیو بھی ملاحظہ کریں
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...