میں نے ایک کمیونسٹ شہید کو دیکھا۔ اس کا چہرہ نہ بھگت سنگھ کا تھا، نہ چے گویرا کا اور نہ ہی حسن ناصر کا۔ اس میں ان سب معروف چہروں کی شباہت تو تھی لیکن وہ اس طرح کے ہزاروں لاکھوں نا معلوم شہیدوں میں سے کسی ایک کا چہرہ تھا۔ میں نے اسے ایک ایسی جگہ دیکھا جو میں نے اپنے دیکھنے کے لیے بڑی محنت سے تیار کی ہے اور کبھی کبھی وہاں ایسا کچھ نظر آ جاتا ہے جو کسی جگنو کی طرح اپنے ہی وجود میں روشنی لیے موجود ہوتا ہے۔ وہ شہید کسی سے باتیں کر رہا تھا۔ باتیں مونولاگ جیسی تھیں کیونکہ جس سے وہ ہم کلام تھا وہ نہ تو نظر آ رہا تھا اور نہ ہی کسی بات کا جواب دے رہا تھا۔ شہید کی باتیں بہت واضح تھیں جو میرے حافظے میں ایک ترتیب کے ساتھ جگہ بناتی چلی گئیں۔ وہ کہہ رہا تھا:
"میرے بھائی، ہم دونوں کے اپنے اپنے مقاصدِ حیات تھے جن پر ہم دونوں نے اپنی جانیں وار دیں۔ ہم دونوں کو کہنے والوں نے شہید کہا۔ مگر ہم ایک جیسے نہیں تھے اور نہ ہی ہمیں شہید کہنے والے ایک جیسے ہیں۔ یہ تم بھی جانتے ہو اور میں بھی۔ ہمیں ایک ماں نے جنم دیا تھا اس لیے ہم کچھ کچھ ایک جیسے تھے۔ یوں کہ ہمارے لیے ہمارے مقاصد ہماری زندگیوں سے زیادہ اہم تھے۔ تم نے اپنی زمینی خوشیوں کو ان برتر خوشیوں کے لیے وار دیا جو افلاک میں کہیں تمھارے تصور کے مطابق موجود تھیں۔ تم نے اپنے خدا کے لیے اور اپنے لیے بہترین جزا کے یقین کے ساتھ جان دی۔ میں نے بھی اپنی زمینی خوشیوں کو بلا مقصد قربان نہیں کیا۔ ہاں میرا مقصد میری ذات سے اوپر ہو کر ساری انسانیت اور اس کی اجتماعی خوشیوں کا حصول تھا۔ میں نے انسان کی ذلت میں اپنی ذلت دیکھی اور اس کے وقار میں اپنا وقار۔ میں نے انسانوں کے عقائد، نسل، ذات اور وطنیت کو ایک طرف رکھ کر ان سے محبت کی اور چاہا کہ ان سب کو عزت و وقار اور تحفظ ملے۔ میں نے انسانیت کے ان دشمنوں کو پہچان لیا تھا جن کی بھوک وسیع تر انسانیت کے امن و امان اور فلاح و بہبود کو کھا رہی تھی اور تمھارے خدا کی رسی ان انسان دشمنوں کے لیے دراز تھی۔
تم نے مگر چاہا کہ ہر انسان تمھارا عقیدہ اپنا لے اور اگر ایسا نہیں کرتا تو اسے ختم کرنے کو تم نے حصولِ جنت کی طمع سے جوڑ دیا۔ یعنی تم نے عام انسانوں کی جانیں لیتے ہوئے اپنی جان قربان کی اور اس قربانی کو ایک ایسی نیکی سمجھا جو تمھیں بعد از موت تمھاری جنت میں پہنچا سکتی تھی۔ تم نے جان تو دی، مگر سوچو، اگر اس اجر کا تصور تمھارے پاس نہ ہوتا تو کیا تم جان دیتے؟
بس یہی فرق ہے، مجھ میں اور تم میں۔ میں نے اپنی جنت انسانیت کے مستقبل میں دیکھی اور انفرادی فنا کو زندگی کے تسلسل کا حصہ سمجھ کر قبول کیا۔ تمھارا خدا، جو بقول تمھارے بصیر و علیم ہے، اگر ہے تو اسے بھی بے لوث قربانی کی حقیقت تو معلوم ہی ہو گی، ذرا پوچھ کر بتاو کہ وہ کیا کہتا ہے ۔۔۔۔
شہید کے سوال کے جواب میں ایک چپ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ نہ وجود، نہ آواز، نہ جواب