ایک غریب کی دعائے تراویح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اے اللہ! اے مالک! اے میرے پروردگار! میں روز تیرے گھر آتاہوں تراویح کے لیے۔ ایسا تو میرا گھر بھی نہیں مولا جیسا تیرا گھر ہے۔ ایسا تو میرے اَمیر پڑوسیوں کا گھر ہے میرے مولا!۔ ہرسال نیا قالین، ہرسال نیا رنگ روغن، دوسواسّی روپے کی ایک ایک اینٹ اور اتنا بڑا صحن۔ پورے ہال میں بَڑھیا اے سی کہ گرمیوں میں سردیوں کا سا سماں پیدا ہوجاتا ہے۔ تیرے وضو کے پانی کی ٹوٹیوں کی قیمت سے میرا آدھا گھر تعمیر ہوسکتا تھا اے رزّاقِ عالم! میں جانتاہوں یہ مسجد ہے۔ اِس پر لوگ تیرے لیے خرچ کرتے ہیں۔
مگر میری التجاہے کہ مجھے میرے گھر جیسا گھر دِکھا۔ میرے گھر جیسا گھر جہاں وقت کے وقت پانی آئے اور باقی اوقات کے لیے جمع کرکے رکھنا پڑے۔ میرے گھر کے جیسا گھر کہ جہاں بھربھری اینٹوں کی جھُریوں میں لال بیگ چھپ جائیں اور مصلح بچھاتے ہوئے بھی ڈرلگے۔ میرے گھر کے جیسا گھر کے جہاں روزہ کھلنے سے پہلے گیلا کپڑا منہ پر دھروں اور منہ پر دھروں تو پیر ننگے ہوجائیں اورجب پیروں پر دھروں تو منہ تپنے لگے۔ مجھے میرے گھرکے جیسا گھر بتا جسے میں تیرا گھر کہتے ہوئے تجھے اپنا اپنا سا محسوس کرنےلگوں۔ میرے گھر کے جیسا گھر کہ جہاں بارش میں چھت ٹپکے اور میں چارپائی کی جگہ بدلتا پھروں۔ میرے گھر کے جیسا گھر کہ جہاں مئی کی دھوپ سامنے کے دروازوں سے اندرکمروں میں آتی ہو اور میرے چھت کے پنکھے جہنم کی ہوا دینے لگ جائیں۔ میرے گھر کے جیسا گھر کے جہاں گرمیوں کے دوپہر، سردیوں کی آدھی رات اور ساون کے موسم میں کہ جب وہ برستاہو، میں آسمان کی طرف سراُٹھا اُٹھا کر دعائیں مانگتا پھروں کہ یا رب ایسے عالم میں مجھے یا میرے بچوں کو رفع حاجت کا تقاضا نہ ہو۔
میرے مالک میرے دل پر تیرا بہت رعب ہے۔ اِس گھر میں آج آیا ہوں تو یہ رعب اور بھی بڑھ گیا ہے۔ آئندہ شاید نہ آسکوں۔ اتنا کانپتا دل لے کر کیسے کوئی آسکتاہے؟ میں آنا چاہتاہوں۔ میرے پرودگار مجھے اپنا ایسا گھر بتادے کہ جیسا میرا گھر ہے۔ تاکہ میں خوشی خوشی آسکوں۔ میرے بچے میرے ساتھ آجاتے ہیں تو یہ لوگ انہیں دھتکارتے ہیں۔ میں کیا کروں مجھے اپنے بچوں کو بھی بتانا ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم نماز روزہ کرتے ہیں۔
اے میرے مالک! میری یہ چھوٹی سی عرضداشت قبول فرمالے۔ میں تجھ سے اور کچھ نہیں چاہتا‘‘
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔