ایک فکری کج روی:
ہمارے ہاں ایک بڑی فکری کج روی جوبہت پاپولرہے، وہ ہے، خود کو مظلوم سمجھنا، کسی دوسرے کواپنے مسائل، دکھوں، مصیبتوں، پس ماندگی ، پیچھے رہ جانے کا ملزم کسی دوسرے کوقرار دینا۔ ہم غریب پس ماندہ اس لئے ہیں، کہ فلاں ہمیں لوٹ رہا ہے۔ فلاں ہمارا استحصال کررہا ہے، فلاں اس لئے خوشحال ہے، ترقی یافتہ ہے کہ وہ ہمیں لوٹ رہا ہے۔۔۔ یہ بیانیہ بڑا پرکشش ہوتا ہے۔۔انفرادی لحاظ سے بھی اوراجتماعی قومی لحاظ سے بھی۔۔۔ اس میں انسانی زہن کے لئے بڑی سہلوتیں ہیں۔ اپنی اوپرکسی بھی طرح کی زمہ داری سے مبرا ہوگے۔۔ قصہ ختم۔ نہ میرا ذمہ نہ میرا قصور، نہ میرا کوئی رول۔۔۔ یہ بڑا تن آسانی والا نسخہ ہے۔ اچھا جو پیچھے رہ چکا ہوتا ہے، وہ پہلے ہی کمزورہوتا ہے، سست ہوتا ہے، کچھ ہڈ حرام بھی ہوتا ہے۔۔(یہ پس ماندہ ماحول کی لازمی اجزا ہوتے ہیں) آگے بڑھنے اورترقی کے راستے کچھ نظربھی نہیں آتے، بلکہ مسدود ہوتے ہیں۔ لیکن کوئی فرد ہو یا سماج، قومیت ہو یا قوم۔۔ یہ سوچ ہوتی بڑی نقصان دہ ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ آپ اپنی ترقی و تبدیلی کی راہ کومزید تالا لگا دیتے ہیں۔ چونکہ میں اپنی غربت کا، پیچھے رہ جانے کا قصوروار ہی نہیںَ، تو مجھے کچھ کرنے کی ضرورت بھی کیا ہے۔ بس میرا حق کوئی اورکھائے جارہا ہے۔۔وہ کھاتا جائے گا، میں ہاتھ پرہاتھ دھرا بیٹھا رہوں گا۔۔۔ بس اپنا مقدرہے، یا بے بسی ہے۔ وقت زندگی یونہی گرزتی جاتی ہے۔۔اورحالات پہلے سے بھی بدترہوتے جائیں گے۔ لیکن اس کا احساس مرجائے گا۔ کیوںکہ فلاں بندہ، قومیت، یا ملک ہم کوکھا رہا ہے۔ بد قسمتی سے اس فکرکوکمیونسٹ نظریئے نے بھی بڑا عام کیا ہے۔ اب آپ اپنی حالات زندگی بدلنے کی بجائے کوئی رستے تلاش کریں، کچھ مزید محنت پرتوجہ دیں، آپ لات پرلات دھرے آرام سے بیٹھے ہیں۔ جو لوٹ رہا ہے، اس کا تو آپ بگاڑ کچھ نہیں سکتے۔۔ یہ نظریہ سیاسی لحاظ سے بھی بہت پاپولرہوجاتا ہے۔ اگرایک سماج اورقومیت کی بات ہے، توان کے جومقامی استحصالی طبقہ ہوتا ہے وہ اسے سیاسی لحاظ سے بہت ایکسپلائٹ کرتا ہے۔ اب لوٹنے والے صرف باہرہی کہ نہیں ہوتے، مقامی لوٹنے والے بھی ہوتے ہیں۔ بالکہ وہ باہروالوں کے ایجنٹ، مددگاراورحصہ دار بھی ہوتے ہیں۔ لیکن وہ اپنے عوام کی توجہ باہروالوں پرلگائے رکھتے ہیں۔۔ میں اسے ریورس کرکے دیکھتا ہوں۔۔ اگرایک فرد ہے، تو وہ کسی دوسرے بھائی، بہن، چاچا ماما تایا کواپنی بدقستمی کا موجب سمجھے، سب سے پہلے اسے خود کوذمہ دارٹھہرانا چاہئے۔ اورذمہ داری لینی چاہئے۔ اسی طرح کوئی قومیت ہے یا ملک ہے، اسے اپنی پس ماندگی کی زمہ داری خود اپنے اوپرڈال کردیکھنی چاہئے اوراس کا حل نکالنا چاہئے۔ ناہمواری اورنام نہاد استحصال اس زندگی اوروجود کا لازمی ناگزیرخاصہ ہے۔ مساوات ایک ناممکن غیرفطری خواہش ہے۔ سب سے پہلی اوربڑی زمہ داری خود پررکھیں۔ اگرقومیت ہیں، تو اس کی زمہ داری اپنی مقامی قیادت پرڈالیں، ان کوزمہ دار ٹھہرائیں۔ اورسب سے آخرمیں کسی دوردراز رہنے والے کو۔۔ ہمارے ہاں یہ الٹا ہے، ہم سب سے زیادہ زمہ داری کسی دوروالے پرٹھہراتے ہیں۔ پھراس سے کم قریب والے پراورخود توبالکل براہ زمہ ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ ایسا کرنا مشکل ہے کیونکہ 'اس میں لگتی ہے کچھ محنت زیادہ' خود کوپہلا زمہ دارنہیں ٹھہراو گے، ہمیشہ مظلوم رہوگے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“