ساتھ لگی تصویر میں بادشاہ کو گینڈے کا شکار کرتے دکھایا گیا ہے۔ اس تصویر کے پیچھے کہانی کیا ہے۔ اس کے لئے کرغستان جانا پڑے گا۔ وسطی ایشیا دنیا میں کئی سلطنتوں کو گراتا رہا ہے۔ کئی کو بناتا رہا ہے۔ تصویر کی کہانی یہاں کے ایک شہزادے کی ہے جس نے برِصغیر میں اپنے خاندان کے تین سو سالہ دورِ اقتدار کا آغاز کیا۔
تیمور لنگ کے پڑپوتے عمر شیخ مرزا کی فرغانہ کی وادی پر حکومت تھی۔ موجودہ کرغستان کا شہر اوش اس کا دارالحکومت۔ عمر شیخ کی وفات کے بعد ان کے فرزند نے ظہیرالدین بابر نے 1494 میں اقتدار سنبھالا۔ یہ 'شاہ کا بیٹا شاہ' کا دور تھا۔ مسلسل جنگ معمول تھا۔ نئے حکمران نے وقت ضائع نہیں کیا اور ثمرقند پر حملہ کر دیا اور قبضہ کر لیا۔ صرف پندرہ سال کی عمر میں فرغانہ اور ثمرقند دونوں بابر کے پاس تھے۔ ثمرقند کے قیام کے دوران فرغانہ میں بغاوت ہو گئی۔ جب تک بابر واپس پہنچے، پیچھے سے ثمرقند بھی ہاتھ سے جا چکا تھا۔
بغیر سلطنت کے بادشاہ نے تاشقند میں پناہ لی جہاں اپنے ماموں کی حکومت تھی، اس دوران فوج اکٹھی کی۔ سلطنت واپس حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران افغانستان میں موقع نظر آیا۔ ارغن کو شکست دے کر کابل میں حکومت چھین لی۔ اس دوران بابر کے سخت ترین حریف ازبک بادشاہ محمد شعبانی خان نے وسطی ایشیا پر قبضہ کر لیا تھا۔ شمال کی طرف سے آتے اس خطرے کو دیکھتے ہوئے بابر نے ایران کی صفوی سلطنت سے اتحاد کر لیا۔ اپنی حفاظت کے لئے صفوی شاہ کو خراج دینے کا معاہدی کیا۔ صفوی شاہ اسمٰعیل نے شعبانی خان کو شکست دی۔ موقع سے فائدہ اٹھا کر بابر نے کابل کا تخت اپنے بھائی ناصر مرزا کے حوالے کر کے واپس ثمرقند اور بخارا پر قبضہ کر لیا لیکن 1514 میں ازبک سے شکست کھائی۔ یہ بابر کی وسطی ایشیا کی طرف جانے کی آخری کوشش تھی۔
شکست کھانے کے بعد پناہ کی تلاش میں اس بار بدخشاں کے بجائے انڈیا کا رخ کیا۔ پہلے انڈیا کے شمالی علاقے پر قبضہ کیا۔ دلی میں لودھی خاندان میں پھوٹ پڑ چکی تھی۔ پشاور پر قبضے کے دوران لودھی حکومت کی کمزوری کا اندازہ ہوا۔ اس کے مخالفین کو ساتھ ملایا۔ اپنا دفاع کرنے سے قاصر یہ سلطنت بابر کی پیشقدمی نہ روک سکی۔ پانی پت میں ہونے والی فیصلہ کن جنگ کے بعد مغلیہ سلطنت کا آغاز ہوا جو اگلے تین سو سال تک انگریز کے آنے سے پہلے جاری رہا۔
اپنی کتاب بابر نامہ میں بابر اپنا بڑا دُکھ اوش واپس نہ جا سکنے کو کہتے ہیں اور فرغانہ کی ندیوں کی، موسم کی اور وہاں کے غلے کا اور خوبصورتی کا ذکر ہے۔
بابر کا انتقال 47 سال کی عمر میں ہوا۔ بابر آج ازبکستان میں قومی ہیرو ہیں۔ (سوویت دور میں بابر کے نام پر پابندی تھی)۔ ازبکستان میں 2008 میں جاری ہونے والے ٹکٹ میں ان کی تصویر ہے جو ان کی 525ویں سالگرہ کے موقع پر جاری ہوئی۔ کرغستان میں بھی بابر کو ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ ادب اور شاعری سے دلچسپی رکھنے والے اس بادشاہ کی لکھی نظمیں آج وسطی ایشیا میں مقبول لوک گیت ہیں۔ پاکستان میں بھی ان کو ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ ان کے نام پر کروز میزائل کا نام رکھا گیا۔ ان کی لکھی تزکِ بابری اپنے دور کی ایک منفرد کتاب ہے۔ اس دور میں اس طرز کی کتابوں کی مثال دنیا میں بہت کم ہے۔
برِصغیر میں مختلف ادوار میں مختلف علاقوں سے مختلف لوگ آئے ہیں۔ توبا، دراوڑ، منگول، آریا اور بہت سے دوسرے۔ کوئی پہلے، کوئی اس کے بعد، کوئی اس کے بعد۔ مہرگڑھ اور موہنجوداڑو سے لے کر دلی کے تخت پر بیٹھے والے اور اسلام آباد بسانے والے بھی۔ ہزاروں میل دور سے حکومت کرنے والے انگریز بھی۔ صرف اس بنا پر کہ کس کے اجداد کی لائن میں کون پہلے پہنچا کی بنیاد پر کسی بھی چیز کو کسی کا حق کہنا بس جذباتی ڈائلاگ تک ہی رہتا ہے۔ تاریخ سے جغرافیہ نہیں بنتا۔
اگر جغرافیہ تاریخ سے نہیں بنتا تو پھر کس سے؟ اس کو دیکھنے کا ایک طریقہ یہ تلوار سے بنتا ہے لیکن یہ سوچ خود میں بڑی حد تک نامکمل ہے۔ جب لودھی خاندان کو ایک بے وطن بادشاہ نے شکست دی یا تین سو سال بعد چھوٹے سے جزیرے برطانیہ سے نکلنے والی نیوی نے برِصغیر سمیت دنیا کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کا مقابلہ کرنے والوں کو لڑنا نہیں آتا تھا۔
نوٹ: یہ تصویر تزکِ بابری سے ہے۔