انسانی زندگی مختلف عناصر کا مجموعہ ہے اور ہر عنصر اپنا ایک خصوصی جوہر رکھتا ہے جس کا اظہار وقتا ً فوقتا ًہوتا رہتا ہے۔اس حقیقت کا ادارک ہر ذی شعور کو ہے جس سے انکار ناروا ہے۔
ہماری زندگی میں بہت سے لوگ آتے ہیں لیکن بہت کم لو گ ایسے ہیں جنہیں ہم کسی نہ کسی موڑ پر الوداع نہ کہہ دیتے ہوں۔ خال خال ایسے ہوتے ہیں جو تادم زیست ہماری توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں اور اُس کی وجہ اُن کی شخصیت میں کسی نمایاں خوبی کا بھرپور امتزاج۔
آج جس شخصیت کا تذکرہ مقصودہے کسی تعارف کی محتاج نہیں۔اپنا تعارف خود آپ ہے۔جس محفل میں پہنچ جائے اُس کی جان بن جاتی ہے ۔بے تکلفی اور سادگی کی انتہا ہے ۔ایک ہی نشست میں فاصلے، دوریاں، اجنبیت ختم ہوجاتی ہے۔شناسائی ،دوستی ،قربت اور اپنائیت کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔بات سے بات نکالنا،محفل کی توجہ کا مرکز بنے رہنا، دوسروں کے منہ کی بات چھین لینا ،ہر موضوع پر فی البدیہہ اور بے تکان بولتے چلے جانا، چہرے بُشرے پر مستقل طور پر خوبصورت مسکراہٹ جس میں مخاطب کے لیے شناسائی اور اپنائیت کا احساس ،گفتگو میں شرینی اور مٹھاس ،دل شکنی ،کڑواہٹ یا تلخی کسی کونے کھدرے میں بھی مفقود ۔مزاج میں سیمابی کیفیت جیسے خوب سے خوب تر کی تلاش۔
تو رہ نوردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
شہر کے وسیع و عریض سینے کے کسی حصے میں بھی کوئی علمی ،ادبی یا ثقافتی مجلس اُن کی موجودگی کے بغیر ادھوری لگتی ہے۔وہ دوستوں کے دوست ہیں ،اور کسی سے دشمنی کا ان کے کردار و عمل میں شائبہ تک نہیں ملتا۔ان کا قول ہے کہ شعور اور آگہی علم کے ذریعے پیدا ہوتی ہے ،اور وہ قومیں ،ملک اور معاشرے انسانی ترقی کی معراج پر پہنچ جاتے ہیں جنہوں نے تعلیم کو اولیت دی۔اُن کو یہ بھی کہنا ہے کہ علم اور ادب کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔علم ایک نور ہے اور حصول علم انسان کی تہذیبی ،تمدنی اور معاشرتی ضرورت ہے اور ادب انسان کی شخصیت اور اخلاق کو بنیاد فراہم کرتا ہے ،لہٰذا اخلاقی قدروں کی عمارت بے شمار بنیادوں پر استوار ہوتی ہے ،اور مختلف عناصر کے عمل سے ہی با اخلاق شخصیت کی داغ بیل پڑتی ہے۔وہ درس گاہوں کو تحصیل علم اور تعمیر سیرت کا بہترین مرکز قرار دیتے ہیں اور ذہنی تعمیر و ترقی میں ایک معلم کے کردار کو بہترین راہنما قرار دیتے ہیں ،اور معلمی کے پیشے سے اپنی وابستگی کو وہ اپنا سب سے بڑا فخر قرار دیتے ہیں۔
شاگر د اعلیٰ مناصب پر ہزاروں کی تعداد میں لیکن نیازمند۔زندگی کو زندگی سمجھ کر گزارنا یعنی دوسروں کے لیے زندہ رہنا ۔اپنے دائرہ اختیار میں سب کے کام آنا،واقف نا واقف کا مصنوعی پاش پاش کرنا فرض اولین۔سب حلقو ں میں یکساں مقبولیت۔بے ضرر شخصیت،نامور علمی و ادبی شخصیات میں ایک تعارف۔ڈاکٹر منور ہاشمی ایک دل نواز شخصیت ،پرفیسر ،شاعر ،ادیب ،لکھاری،سب کا دوست۔
نرم دمِ گفتگو،گرم دم ِ جستجو
رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاکباز
مجھے ناز ہے کہ آج ایک ایسے قلم کار ،شاعر و ادیب پر قلم اٹھایا ہے جو اولاً تو ایک بلند کردار انسان ہے ،ثانیا ً ،مستقل مزاجی کے ساتھ جو مصروف ِ شعر و سخن ہے اور گیسوئے اُردو کو نکھار رہا ہے سنوار رہا ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر منور ہاشمی پر قلم اٹھا کر میں وہ آسودگی محسوس کرتی ہوں جو کسی تبصرہ نگار کو مطلوب ہوتی ہے۔اس مضمون کی تخلیق نے طبیعت میں جو خوش گواری پیدا کردی ہے اس سے لگتا ہے کہ جیسے میرے اپنے اندر کے تبصرہ نگار کو ایک عرصہ بعد سکون و قرار میسر آیا ہے۔