ثمینہ سید کے بھائی اور ایک بہن کو میں جانتا تھا، انہیں ایک آدھ ادبی تقریب میں دیکھا. پھر اپنی بیوی کے پاس ان کے افسانوں کی کتاب دیکھی.
ایک دن میں نے بیوی سے پوچھا کہ ثمینہ سید کی شادی ہوئی ہے کہ نہیں. (یہ اس لئے پوچھا کہ ایک بہت موزوں رشتہ تھا) بیوی نے جواب دیا کہ اسے معلوم نہیں، کبھی ایسا ذکر نہیں ہوا.
کچھ ہی عرصے بعد میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ثمینہ نے فیس بک پر اپنے بیٹے کی شادی کی تصویریں لگائیں. بعد میں پتہ چلا کہ ثمینہ کی شادی صرف 17 برس کی عمر میں ہوگئی تھی. تعلیم شادی کے بعد مکمل کی.
پیدائش ان کی پاکپتن شریف کی ہے. تاریخ دس مارچ ہے لیکن سن بتانے سے اکثر خواتین کی طرح گریزاں ہیں، حالانکہ اب جبکہ وہ دادی بھی بن چکی ہوں گی یا بننے والی ہوں گی اور سمارٹنس کے باعث گمان ان پر غیر شادی شدہ ہونے کا ہوتا ہے، یہی کافی نہیں ہے؟
کالج میں پڑھاتی ہیں. اردو یا تاریخ یہ معلوم نہیں، ایم اے ان دونوں مضامین میں ہیں، ساتھ ایم ایڈ بھی.
والد ساغر صدیقی کے گہرے دوست تھے اور شعری ذوق رکھتے تھے، جس کا ساری اولاد پر اثر ہے. صحافی شاعر اور تیکھے کالم نگار بھائی تنویر عباس نقوی جوانی میں رخصت ہوگئے، بہنیں دونوں میڈیا سے منسلک ہیں.
ثمینہ نےشاعری نویں دسویں سے ہی شروع کردی تھی. آغاز نظم سے کیا، پھر غزل کی طرف آئیں. ان کا ایک ناول، افسانوں کے دو مجموعے "ردائے محبت" اور "کہانی سفر میں ہے" اور شاعری کا مجموعہ "ہجر کے بہاؤ میں"چھپ چکے ہیں .پنجابی کہانیوں کا مجموعہ"رات نوں ڈکو" بھی تیار سمجھیں. ہم عصر شاعروں ادیبوں پر اتنے مضمون لکھ چکی ہیں کہ ایک کتاب ان کی بھی بن سکتی ہے.
کہتی ہیں افسانہ لکھنا زیادہ اچھا لگتا ہے. ایک مشکل زندگی گزاری ہے، اندر کی بے بسی, نفرت، بے حسی اور اضطراب کو افسانہ اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے. کہتی ہیں ان کا نظریہ فن، امن، انسان دوستی اور محبت ہے. انہیں معاشرے سے شکایت ہے کہ عورت کو مکمل انسان کا درجہ نہیں دیا. وہ عورت کو بااعتماد، پروقار، خود شناس اپنی قدر کروانا جاننے والی دیکھنا چاہتی ہیں.
ثمینہ سید کے چند اشعار
کبھی بھی آگ کی فصلیں یہاں پر اگ نہیں سکتیں
محبت سارے عالم میں اگر تقسیم ہوجائے
اُداسی کے گھنے جنگل میں رستے جا نکلتے ہیں
فضاؤں میں نیا جب ایک ڈر تقسیم ہوجائے
قحط سالی سی قحط سالی ہے
دل تری یاد سے بھی خالی ہے
محبت کا شکستہ پن نظر کیا آئے باہر سے
یہ دیمک تو بدن کو چاٹتی رہتی ہے اندر سے
جو محبت نہ دل میں رکھتا ہو
آدمی معتبر نہیں ہوتا
مری خاموشیوں کو چیخ بننے کا بہت ڈر ہے
کوئی آواز اٹھنے لگ پڑی ہے میرے اندر سے
بعد دن بھر کی مشقت کے جو سونا چاہوں
میں تری یاد کا فوراً ہی بچھونا چاہوں
مرے ہونٹوں پہ ہے اک اسم اعظم
سو میں نے جو بھی سوچا ہو گیا ہے
کسی کے دور جانے سے لگا ہے
جو آنگن تھا وہ رستہ ہوگیا ہے
کھل جائے نہ تم پر یہ کہیں وصل کی خواہش
ہم تم سے اسی خوف کے مارے نہیں ملتے
اس دن سوچ حنائی ہو گی اس دن رادھا ناچے گی
بیچارے جب مل کر سارے بیچاروں کی بات کریں
اس عہدِ پرستم کی کیا کوئی مثال دے
خود آپ اپنی لاش پہ ماتم نہ کر سکے
اس نے مجھ کو یاد کیا
میری خام خیالی ہے
پیڑ ہرا ہے یادوں کا
آنکھ میں لیکن لالی ہے
اس سے بڑھ کر بھی کوئی دکھ ہے ثمینہ سید
نہ بہیں آنکھ سے آنسو بھی، جو رونا چاہوں
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...