(Last Updated On: )
14فروری،یوم وفات کے موقع پر خصوصی تحریر
سردارعبدالرب نشترؒ تحریک پاکستان کے مایہ ناز قائد،کاروان آزادی کا سنگ بنیادرکھنے والے اور قائداعظم ؒکے دست راست تھے۔ہندوستان کے شمال مغربی خطہ ارضی میں تحریک پاکستان انہیں کی مرہون منت رہی۔انہوں نے آزادی سے قبل بھی انتخابات میں حصہ لیا اور 1937اور1943کی صوبائی پارلیمان میں رکن اسمبلی رہے۔ان انتخابات کے بعد جب شمال مغربی سرحدی صوبے میں جب سردار اورنگ زیب نے مسلم لیگ کی صوبائی حکومت تشکیل دی تو سردارعبدالرب نشترؒان کی کابینہ میں وزیرمالیات(خزانہ)جیسی اہم ذمہ داری پر تعینات رہے۔1946میں ہندوستان کی مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور عبوری حکومت میں وزارت مواصلات کاقلمدان بھی آپ کے پاس رہا۔پاکستان بننے کے بعد وہ نوزائدہ اسلامی ریاست،مملکت خدادادپاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے،پاکستان میں بھی ان کے سابقہ تجربے کی بنیادپر وزارت مواصلات کا قلمدان انہیں کے سپرد رہا۔دیانت داری اور اخلاص کے باعث مرکزی وزیرصنعت بھی رہے اورپنجاب جیسے صوبے کاگورنررہنابھی ان کی سیاسی زندگی کاایک روشن باب ہے۔حکومت سے کنارہ کشی کے بعد آخری عمر میں مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے قوم کی سیاسی قیادت کرتے رہے۔
سردارعبدالرب نشترؒبنیادی طورپر ”کاکڑ“قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔13جون1899ء کوپشاور میں پیداہوئے۔یہ ایک خالصتاََدینی و مذہبی اورعلاقائی رسوم ورواج کاامین اور اپنے علاقے کاقائدگھرانہ تھا۔ابتدائی تعلیم مشن اسکول پشاور اورسنتان دھرم ہائی اسکول پشاورسے حاصل کی۔والد کی خواہش تھی کہ خاندانی کاروبارسے وابسطہ ہو جائیں،چنانچہ پرائیویٹ امیدوارکی حیثیت سے فارسی کاامتحان پاس کیا۔اس کے بعدپنجاب یونیورسٹی لاہورسے 1923میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔اس زمانے میں کسی مسلمان نوجوان کا بی اے کر لینا بہت بڑااعزازسمجھاجاتاتھا۔پس اس اعزازکے دفاع کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سدھارگئے اور دوسالوں میں ایل ایل بی کاامتحان بھی اعزازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا۔علی گڑھ یونیورسٹی میں مولانا محمدعلی جوہرسے بہت قربت رہی،بعد ازاں یہ قربت دوستی اور پھر یہ دوستی سردارعبدالرب نشترؒکی زندگی کاایک بہت بڑاموڑ ثابت ہو گئی۔دوستی اورگھریلوتربیت کے اثرات تھے کہ زمانہ طالب علمی میں تحریک خلافت سے وابسطہ رہے اور اس زمانے میں جب کہ شباب اپنے عروج پر تھا،اپنی نوجوان صلاحیتیں دینی حمیت کی اس تحریک کے سپرد کیے رکھیں۔اسی دوران سائمن کمشن کے خلاف مظاہروں میں بھی پیش پیش رہے۔کچھ عرصہ انڈین نیشنل کانگریس میں رہے لیکن ہندوکا متعصبانہ رویہ جزبہ ایمانی پر بوجھ ثابت ہوا۔تحریک خلافت کے موقع پر ان کے علاقے کی عوام دو حصوں میں تقسیم ہو گئے،نصف کانگریس اورنصف مسلم لیگ کے حامی بن گئے۔اس موقع پرسردارعبدالرب نشترؒنے ایک تاریخ ساز فیصلہ کیااوربہت جلد تحریک پاکستان کی روح رواں اور دوقومی نظریے کی نمائندہ تحریک ”آل انڈیامسلم لیگ“میں شمولیت اختیارکرلی۔پشاورواپسی پر وکالت کوپیشے کے طورپر اپنا لیا۔اس وقت کی بیدارمغزمسلمان قیادت نے بہت جلد اس نوجوان میں پوشیدہ صلاحیتوں کے خزانوں کوجانچ لیااورنوجوان عمری میں ہی آل انڈیامسلم لیگ کونسل کے رکن بن گئے۔1929ء میں پہلی بار بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیااور میونسپل کمیٹی پشاور کے رکن کی حیثیت سے اپنی پارلیمانی سیاسی زندگی کاآغاز کیا،کئی سالوں تک اس بلدیاتی منصب پر آپ کو عوام کی اکثریت کااعتماد حاصل رہا۔
قیام پاکستان کے بعد آپ کو خان لیاقت علی خان کی کابینہ میں وزیرمواصلات کاقلمدان تھمادیاگیا۔سردارعبدالرب نشترؒنے دوسال کے مختصرعرصہ میں لٹاپھٹاریلوے کانظام بحال کردیااور وقت کی پابندی کے ساتھ ریل گاڑیاں ملک کی لائینوں پر دوڑنے لگیں۔تقسیم ہند کے وقت پنجاب میں ایک انگریزافسرگورنر کے عہدے پر تعینات تھا۔دوسال گزرجانے کے باوجود پنجاب کے حالات قابو سے باہر تھے،مہاجرین کی آمد سمیت بہت سے دیگرگھمبیرمسائیل کا مسلسل سامنا تھااورصوبائی حکومت کے اعصاب شل ہو چکے تھے۔ چنانچہ ان خراب حالات کی اصلاح کے لیے قیادت کی نظر انتخاب سردارعبدالرب نشترؒپر آکررک گئی اور اس وقت کے گورنرجنرل نے پنجاب کی حکومت کو معزول کر کے گورنرراج نافذ کیاتو آپ کو گونرپنجاب تعینات کردیاگیا۔اس طرح آپ پنجاب کے پہلے پاکستانی گورنربنے۔آپ نے اپنی بصیرت اور قابلیت سے بہت جلد حالات پر قابو پالیا۔سردارعبدالرب نشترؒنے گورنربن کرلوگوں سے میل جول بڑھادیا،ان کی غمی خوشی میں شریک ہوئے اورعوام اورحکمرانوں کے درمیان فاصلے کم کیے۔گورنر کے اس مثبت رویے سے نوآبادیاتی نظام کے سابقہ انگریزگورنر کے قائم کیے ہوئے تاثر سے بھی عوام کو نجات میسرآگئی،اوریوں دورغلامی کاایک نازیباشعائرختم ہوا۔آپ نے صحافیوں کواخلاق کاپابندبنایا اور سرکاری ملازمین کی بھی سیاست میں مداخلت پرپابندی عائد کردی۔مری میں قیام کے دوران آپ مال روڈ پر چہل قدمی کرتے اور لوگوں سے میل ملاقات بھی کرتے۔پشاور میں ایک حاجی بابا جان تھے جو عصر سے مغرب تک اپنے گھرکے باہر چارپائی پر بیٹے رہتے اور بڑے بڑے لوگ ان سے ملنے آتے اور سردارصاحب بھی جب کبھی پشاورجاتے توان حاجی بابا سے ضرور ملاقات کرتے تھے۔آپ گورنرراج کے حق میں نہ تھے اور بہت جلد اگلے انتخابات کرانا چاہتے تھے تاکہ ایک منتخب قیادت صوبے کانظم و نسق اپنے ہاتھوں میں لے لے۔بحیثیت گورنرپنجاب آپ کی بھرپور کوشش تھی کہ ملک میں ایک اور میڈیکل کالج کھل جائے۔آپ کی یہ خواہش ملتان میں پوری ہوئی اور اس کانام بھی آپ کے نام پر ”نشترمیڈیکل کالج“رکھاگیا۔
خان لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک کی باگ دوڑ غیرسنجیدہ ہاتھوں میں چلی گئی،اور غلام محمدنامی ایک سرکاری ملازم گورنرجنرل بن بیٹھااور اس نے ملک کی آئین ساز اسمبلی توٹ کر حکومت کو چلتاکردیا۔سردارعبدالرب نشترؒکو ان حالات میں مرکزمیں وزیربننے کی پیشکش کی گئی لیکن ان لوگوں کے ساتھ چلنا سردارصاحب کے لیے ممکن نہ تھاجس کی وجہ سے آپ نے معذرت کرلی۔اعلی سطح کے کچھ ذمہ داران نے وزیراعظم کے لیے سردارعبدالرب نشترؒکانام بھی پیش کیا،لیکن نااہل سیکولرقیادت نے اس تجویزسے صرف اس لیے اتفاق نہیں کیاکہ سردارعبدالرب نشترؒایک مذہبی شخصیت کے مالک تھے۔خاص طورپر سکندرمرزاجیسے لبرل شخص نے سردارعبدالرب نشترؒکی ڈٹ کر مخالفت کی اور اپنے جواز میں صرف دینی وابستگی کوموردالزام ٹہرایا۔قیام پاکستان کے فوراََبعد ان منافقین نے ریاست کے ساتھ جو سلوک کیااس کاخمیازہ آج تک کی نسلیں بھکت رہی ہیں۔اس وقت اگر مذہبی قیادت کو آگے آنے دیاجاتاتو مملکت کویہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔سیکولراورلبرل لوگوں کی یہ کارستانیاں تھیں کہ ملک دولخت ہوااورعوام اپنے مقصد زندگی سے دورترہوتے چلے گئے۔سردارعبدالرب نشترؒکی دورس نظر ان حالات کابغور مشاہدہ کررہی تھی،ان کے لیے ایک راستہ تھااور انہوں نے بہت جلدحزب اختلاف کے خیمہ میں پناہ حاصل کرلی۔پاکستان بنانے والے حزب اقتدارسے حزب اختلاف میں آن بیٹھے اور آج تک بیٹھے ہیں اور غلامی زدہ، بدعنوان،مفادپرست اورنااہل لوگ اقتدارکے جھولے میں حکومت کی لونڈی سے بغل گیرہیں۔اقتدارکے ایوانوں میں کھچڑی پکناشروع ہوئی تو تحریک پاکستان کایہ مرد مجاہد14فروری1958ء کو داعی اجل کو لبیک کہہ گیا۔انہیں قائداعظم محمد علی جناح کے مزارکے ساتھ ہی دفن کیاگیا۔سردارعبدالرب نشترؒبہت اچھے سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی تھے،کراچی میں ان کے نام ایک پارک”نشترپارک“اوران کے نام کی ایک سڑک”نشترروڈ“بھی موجود ہے۔
سردارعبدالرب نشترؒایک سچے اورکھرے انسان تھے۔اپنے مذہب پرسختی سے کاربندرہناان کاطرۃ امتیازتھا۔گول میزکانفرنس میں شرکت کے لیے مہاتماگاندھی اپنے ساتھ منہنی سی بکری لایاتوسردارعبدالرب نشترؒایک تگڑاسابکرالے آئے،انگریزکے سامنے معاملہ پہنچایوانگریزنے دونوں جانوروں کے لے جانے پر پابندی لگادی۔ایک میٹنگ میں نماز کے لیے باربار کے وقفے پر سردارپٹیل نے اعتراض کیاتو سردارعبدالرب نشترؒنے اس کے منہ پرایک زوردار جھانپڑرسیدکردیا۔لیکن افسوس کہ ملک کی منافق اور دوغلی سیکولرقیادت نے ان کے راستے مسدودکردیے اور پاکستان کی اصل خالق قیادت کو اگلی صفوں سے پس پشت دھکیل دیاگیا۔مصنوعی طورپر آگے لائی قیادت کے اب پاؤں اکھڑ چکے ہیں،قوم نے ان سیکولراورلبرل دھوکے بازمنافقوں کو پہچان لیاہے۔پاکستان اپنے قیام سے آج تک اور تاقیامت اسلامی نظریہ حیات کا امین ملک ہے،اس ملک میں حق قیادت صرف دیندار لوگوں کو حاصل ہے جودوقومی نظریے پرایمان رکھتے ہوں اور غاصبوں کاانجام سرپرآن پہنچاہے۔مشرق و مغرب کے طاغوت اب گرنے کوہیں اوران کی مقروض قیادت کے دن بھی گنے گئے ہیں۔اس ملک کوپوری دنیامیں قیادت کافریضہ سرانجام دیناہے اور سردارعبدالرب نشترؒکی ہم فکرقیادت بہت جلد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ماتھے کاجھومر بنے گی،انشااللہ تعالی۔