وہ ایک ویڈیو تو خوب وائرل ھوا، بیچارہ ایک شخص کہیں سے ممبئی آیا،اور لاک ڈاؤن کا اعلان ہوگیا، اس نے ممبئی کے اپنے رشتہ داروں ،اور شناساؤں سے فون پر رابطہ کیا۔ سب نے ان حالات میں اپنے گھر اسے جگہ دینے سے معزرت کر لی، کوئی بھی اسے اپنا مہمان بنا کر، رسک نہیں اٹھانا چاہتا تھا، پھر ویڈیو بنا کر اسی نے بتایا کہ جب سب طرف سے جواب مل گیا، اور وہ پریشان، سنسان ممبئی کی راہوں میں پناہ تلاش کر رہا تھا ۔ کہ اچانک ایک مسلمان بھائی سے ملاقات ہوگی۔ اور وہ کہتا ھے کہ مجھے اس شان سے اس مسلم بھائی نے اپنے پاس رکھا،اور ہر طرح سے میری مدد کی کہ کوئی قریب ترین رشتہ دار بھی نہیں کرتا۔ اس کو زیادہ طول دینے کی ضرورت نہیں۔ اکثر لوگوں نے یہ واقعہ سنا ھے ۔
بہر حال اللہ کا شکر ھے ،کہ مسلم نوجوان نے ان حالات میں انسانیت کی خدمت کر کے اپنے مسلم کردار کے کئی بہترین نمونے چھوڑے ہیں۔
ابھی ایدھی صاحب کے واقعہ کو سن کر بڑا دکھ ھوا کہ باہر ملکوں میں کام کرنے والے رئیس زادوں کا خون کتنا سفید ہوجاتا ھے ۔ کہ والد کے موت کی تدفین کرنے کی بھی انھیں فرصت نہیں ، اور وہ چند ٹکوں کی فلائٹ ، مرنے والے باپ کے لیے کینسل نہیں کر سکتے ، بہر حال یہ تو اس باپ کا معاملہ ھے جسے اپنے بیٹے کا یہ رویہ معلوم نہیں ۔کہ اس کے مرنے کے بعد، گورکن کو کچھ رقم دے کر، اور ہدایت کرکے بیٹا اپنی فالائٹ مس نہیں کرتا، اور چلا جاتا ھے ۔ مردہ باپ کو کیا پتہ بیٹے نے نماز جنازہ پڑھی یا نہ پڑھی۔ البتہ اس باپ پر کیا گزری ھوگی ۔ جو ان حالات میں کہیں سے لوٹ کر اپنے گھر جا رہا ھے ، لیکن راستے ہی میں لاک ڈاؤن کے سبب ،گھر تک نہیں پہنچ سکتا ، کئی دنوں سے وبائی بیماری کی خبروں سے ہر کوئی پریشان، ۔ وہ یہ سوچ کر کہ رات کا وقت ھے ۔اور اس شہر میں اپنے بیٹے کے پاس ہی جاکر ٹہرنا بہتر ھے ،پتہ نہیں گاڑیاں کب شروع ھو ۔ بیٹے کے گھر پہنچتا ھے ، دروازے پر دستک ھوتی ھے ۔ بیٹے کی آواز آتی ھے ،کون ؟ باپ کہتا ھے میں ھوں تمھارا پیتا، دروازہ کھولو بیٹا۔ اسکی پتنی جو خود اپنی پتی سے الگ دوسرے کمرے میں ھے ۔اور وہ سمجھ گئی کہ اتنی رات بابا آئیے ہیں، تو یقیناً قیام بھی کرینگے، پتی سے کہتی ھے ۔ با با کو کہاں رکھیں گے، مسئلہ ھے؟ وائرس ان کو لگے یا ہمیں بڑا نقصان ھے ۔ بیٹا دروازے کے پاس آتا ھے اور اندر سے ہی کہتا ھے پیتا جی حالات تو بڑے خراب ہیں ، باپ کہتا ھے ہاں ہاں دروازہ تو کھولو ،اسکی پتنی قریب آتی ھے اور کہتی ہے ھم لوگ کتنے احتیاط سے رہ رہے ہیں سریش ، غلطی مت کرنا با با سے کہہ دو آج کی رات کسی ھوٹل میں قیام کر لیں ، کل پیشل گاڑی سے انھیں گاؤں روانہ کردیں گے ۔ اس کے سمجھ میں اپنی پتنی کی بات آ جاتی ھے ۔وہ تھوڑا سا دروازہ کھول کر۔ باپ کی طرف سو کی نوٹ بڑھاتے ہوئے کہنے لگا با با آج کی رات آپ کسی ہوٹل میں ٹہر جائیں، یہ لیجیۓ ، لیکن جواب نہ دارد، دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا، اور دروازہ پوری طرح کھولا، تو کیا دیکھتے ہیں کہ با با جس نے دونوں کی باتیں سن لی تھیں ،شہر کی سنسان سڑک پر تیز قدموں سے کسی ہوٹل کی تلاش میں لاک ڈاؤن کے دوران چلے جارہے تھے ۔۔۔!
بابا کو کافی تلاش کرنے کے بعد بھی کوئی ھوٹل تو نہ ملا۔ ایک مسجد نظر آئ ،موذ ن مسجد کے دروازے کو لاک کر رہا تھا ، اس نے پوچھا بھیا ادھر کوئی ہوٹل ہے ۔ موذ ن اسے اوپر نیچے دیکھتا رہا۔ کہنے لگا بھائی صاحب ، ھوٹل تو بہت مشکل ھے ۔ کیوں آپ کا یہاں کوئی رشتہ دار نہیں ھے ۔ وہ کہنے لگا گاڑیاں بند ھوگئیں ، گاؤں جانا تھا۔ رشتہ دار تو تھے لیکن اب کوئی نہیں۔ مؤذن کہنے لگا مسجد میں تو شاید آپ اکیلے نہیں سو سکیں گے ۔ وہ کہنے لگا نہیں بھائی میں تو آج تک کبھی مسجد میں نہیں گیا۔ مؤذن سمجھ گیا ، کہنے لگا۔ ایسا کیجیے آپ میرے ساتھ چلئیے، میں گھر میں کچھ انتظام کر لیتا ھوں ۔ اس نے کہا بھائی آپ کا بہت بہت دھنیواد۔ اور مؤذن نے اپنے چھوٹے سے گھر میں بیوی سے کہا ایک پریشان حال مسافر ھے ، بیوی نے کہا ہاں کھانا تیار ھے ، کچھ روٹیاں ڈالدوں، اس نے کہا، جو کچھ ھے دے دو ، اور ادھر باورچی کھانے میں اپنے لیے بستر لگادو ۔ بیوی کہنے لگی وہ آرام بھی یہیں کریں گے ۔ اس نے کہا ہاں ادھر دوسرے کمرے میں ان کا بستر لگادونگا۔
اسے بھوک تو لگی تھی، اس نے کھانا کھایا ،اور کمرے میں آرام کرنے لگا ۔ مؤذن نے اسے ایک اچھی دھلی ہوئی چادر لا کر دیا ۔ پینے کا پانی رکھ دیا ،اور اس سے کہا بھائی اب آپ کو کسی چیز کی ضرورت ھو تو بتاؤ، وہ کچھ کہہ تو نہ سکا البتہ مؤذن نے اسکی طرف دیکھا ،تو اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔ موذن گھبرایا، آپ کو کسی دوائی کی ضروت ھے کیا، رات میں دودھ وغیرہ لیتے ہیں ، وہ کہنے لگا بھائی آپ نے مجھ پر تو بڑا احسان کیا ھے ، مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ھے البتہ مجھے یہاں کے اپنے رشتہ دار یاد آگیے ۔۔۔۔۔اور صبح جب مؤذن فجر کی اذان دینے کے لیے اٹھا تو ،اس نے کہا کیا میںبھی تمھارے ساتھ مسجد میں چل سکتا ھوں ۔ مؤذن نے کہا ابھی تو نماز کے لئے چار پانچ ہی قریب کے لوگ آجاتے ہیں ۔ ویسے آپ چل سکتے ہیں کوئی بات نہیں ۔ چلۓ ۔ مؤذن اذان دیتا ھے، آج وہ مسجد کے ایک حجرے میں بیٹھ کر اذان اپنے میزبان کی زبان سے سن رہا تھا ،کبھی اسی نے اپنے گاؤں میں خاص طور پر صبح کی اذان پر اعتراض کر کے مائیک بند کروایا تھا ، اسے آج اذان کی آواز میں ایک عجیب طرح کا سکون محسوس ھوا ۔ نماز پڑھتے ہوۓ لوگوں کو اس نے دیکھا کہ تھوڑے فاصلے سے کھڑے ہیں ۔ اور جب نمازی چلے گئے ،تو مؤذن صاحب سے اس نے ایک بات پوچھی کہ آپ نے رات میں یہ تو محسوس کرلیا ھوگا نا ، کہ میں مسلم نہیں ھوں۔ مؤذن صاحب فوراً کہنے لگے ، میرے بھائی ھم لوگ ہر انسان کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔ پھر وہ کہنے لگا لیکن آج اس مہاماری میں لوگ ایک دوسرے سے ملنے میں خوف کھا رھے ہیں۔ آپ نے ایک غیر مسلم کو اپنے گھر میں جگہ دی۔ آپ کو ڈر نہیں لگتا۔ کہ گھر کے اندر وائیرس نہ آجاۓ۔ مؤذن صاحب کہنے لگے ۔ بھائی یہ جسمانی فاصلہ بناۓ رکھنے کا یہ مطلب بالکل نہیں ھے کہ ھم انسانو ں سے نفرت کریں ۔ اور اور پھر آپ جیسے بزرگ آدمی کو میں رات میں کہاں بھٹکنے دیتا۔ ہاں وبائی بیماری ھے تو اس کا احتیاط ضروری ھے ۔اب میں نے آپ کا بستر الگ لگایا۔ آپ کو بغیر استعمال کی ہوئی چادر دیا ۔ اب آج پھر میری بیوی ان چادروں کو گرم پانی میں سے نکالے گی ، بھائی ہمیں فاصلے رکھنا ھے لیکن سماجی اور خاندانی رشتوں سے کٹنا نہیں ھے ۔ اور ۔۔۔اور ۔۔پھر آپ سوچو، آپ جیسے بزرگ کی جگہ اگر میرے والد ہی آجاتے تو کیا میں ان کے لے انتظام نہ کرتا۔۔۔ وہ مؤذن کے ایک ایک لفظ کو پی گیا۔۔۔ اور اسے دیکھتا رہ گیا ۔ اچانک اسکی آنکھوں سے آنسوؤں کے قطرے ٹپک کر اس کے گالوں کی جہریوں پر نمودار ہوۓ۔۔۔۔ارے ارے۔ ۔۔ مؤذن گھبرایا ۔۔۔کیوں کیا کچھ غلط کہہ دیا کیا میں نے۔ یہ ۔۔آپ رو رہے ہیں ۔۔۔اسی وقت مؤذن کا لڑکا چاۓ کی کیتلی اور کپ لی کر حجرے میں داخل ھوا۔
مؤذن نے اسکی خدمت میں پانی پیش کیا۔ اور کہاں لیجیے چاۓ نوش فرمائیے۔ آپ دل ہلکا نہ کریں ۔ آخر کس بات نے آپکو رلایا، آپ فکر نہ کریں، اگر دس دن تک بھی گاڑیا ں شروع نہ ھوں تو میں آپ کے لے سب انتظام کردونگا ، آپ کو جیسا کھانا لگے تیار کروا دونگا۔ یہ سن کر اسکی ہچکیاں فضا میں گونجی۔۔موذن کو پریشانی ھو رہی تھی ۔ آخر کیا بات ھے آپ کچھ بتائیں۔
وہ کہنے لگا بیٹے مجھے میرے پیتا کی یاد آگئی۔ مجھ سے بڑا پاپ ہوگیا ھے بیٹے ، مؤذن کیا ہوا۔؟ میں نے اپنے بوڑھے بیمار باپ ،۔ کچھ دیر وہ بولتے بولتے رک گیا۔ پھر کہنے لگا ، بیٹے بوڑھاپا خود ایک بیماری ھے ۔۔ اس کو مین نے اپنے بیوی کے مشورے سے اولڈ ایج ہاؤ س میں داخل کروا دیا تھا۔ اور ۔بس وہ وہیں تڑپ تڑپ کر مر گئے ۔، مجھے اپنا وہ پاپ یاد گیا۔ کاش زندگی میں تم سے میری یہ ملاقات بہت پہلے ھو جاتی ۔تو میں اپنے باپ کو وہاں سے نکال لیتا۔ آہ! ۔تم نے تو آج میری آنکھیں کھول دیں ۔ مؤذن کہنے لگا ۔ایک بات بتاوں، آپ برا تو نہیں مانیں گے۔آپ اس وقت میرے مہمان ہیں آپ کے دل کو میری کسی بات سے صدمہ نہ ھو۔ میں نے مولویوں سے سنا ھے آپ کی اس تڑپ کو دیکھ کر مجھے وہ بات یاد آگئی، وہ کہنے لگا بتاؤ بیٹے ضرور بتاؤ ۔ اور اب وہ تھوڑا نارمل بھی ھو گیا۔ مؤذن نے اسکے کپ میں اور تھوڑی چاۓ ڈال دی ۔ وہ کہنے لگا بتاؤ بیٹے کونسی بات یاد آگئی تم کو ، مؤذن نے بتایا کہ انسان چاہے کتنے ہی بڑے بڑے گناہ کر لے ،لیکن جب اسے اپنے گناہوں کا احساس ھو جاۓ اور وہ توبہ کرلے تو اللہ اسے معاف کر دیتا ھے ۔ ایسا اسلام میں ھے ، آپ کے پاس کیا ھے، مجھے معلوم نہیں ۔ اس نے کہا بیٹے میرے لیے یہ رات اور آپ کی ملاقات میرے جیون کا ایک نیا موڑ ھے ۔ بیٹے مجھے ایک حادثے نے در اصل تم سے ملا دیا۔ میں نے غصہ میں تم سے یہ جھوٹ کہا کہ یہاں اب میرا کوئی نہیں ، اس لیۓ کے اب میں وہ رشتہ ہی ہمیشہ کے لیے کاٹنے والا ھوں ۔ مؤذن کہنے لگا میں آپ کی بات نہیں سمجھا، کیا یہاں آپ کے رشتہ دار ہیں ، اور شاید آپ کو انھوں نے اس مہاماری کے ھوتے آپ کو آنے نہیں دیا۔ آپ ان کی باتوں کا برا نہ مانیں ، یہ خوف آج لوگوں پر طاری ھو گیا ھے ۔دیکھئیے نا ۔ ھمارے گاؤں میں پچھلے دنوں ایک ہندو بھائی کورونا کی وجہ سے مر گیے۔ اب ان کی میت کو اٹھا نے کے لیۓ انکا بیٹا اور رشتہ دار کوئی تیار نہیں ، ھمارے چند بچوں نے ان کا سب معاملہ کیا۔ پھر ان نوجوانوں کا ٹیسٹ بھی ھوا۔ان کو کوئی بیماری نہیں ۔ تب وہ کہنے لگے بیٹے میرا رشتہ دار کوئی اور نہیں ، میرا بیٹا ہی یہاں موجود ھے ۔ مؤذن حیرت سے پوچھنےلگا۔اچھا ! تو کیا آپ کو رات میں اس کا گھر نہیں ملا ، گھر تو ملا، وہ بھی ملا۔اس کی بیوی بھی تھی ۔لیکن میرے لیے دروازہ نہ کھلا۔۔۔ اور پھر بوڑھے کی آنکھوں سے آنسو جاری ھو گئے۔ مؤذن کہنے لگا: کوئی بات نہیں، وہ لوگ وائیرس سے گھبراۓ ھوئے ہیں ۔۔ لیکن انھیں۔۔۔۔۔۔خیر چھوڑئیے۔آپ کوئی ٹینشن نہ لیں۔۔۔ ایک دروازہ بند ھوتا ھے تو اللہ اپنے بندے کے لیے دوسرا دروازہ کھول دیتا ھے ۔۔ اس نے مؤذن سے پوچھا جب تک حالات سازگار نہ ھوں، تو کیا میں اس حجرے میں رہ سکتا ھوں۔؟ مؤذن کہنے لگا یہ تو آپ کے ھمارے سب کے رب کا گھر ھے۔ " بالکل آپ رہ سکتے ہیں ، میں آج ہی متولی صاحب سے آپ کے لیے اجازت حاصل کرلیتا ھوں ۔ کھانا میرے گھر سے آجایا کریگا۔
اور اور جب حالات سازگار ہوۓ تو اللہ کے گھر سے اپنے گھر جاتے ہوۓ اب شرما جی ، وہ شرماجی نہیں تھے جنہوں نے اپنے گاؤں کی چھوٹی مسجد ، جو ان کے مکان سے قریب ہی ھے ، وہاں مائیک پر اذان بند کروادی تھی ۔ جب وہ رات کے وقت اپنے گھر گیے اور بیوی کو پوری داستان سنائی۔ تو وہ بھی ان کی ھم نوا بن گئی۔ وہ دونوں رات بھر نہ سو سکے۔ بستی کے لوگ صبح سویرے فجر کی اذان مائیک پر سن کر حیرت میں پڑ گئے ۔ مسلمانوں کے علاوہ دوسرے دھرم کے لوگ بھی مسجد کے دروازے پر جمع تھے کہ مائیک پر اذان کیسے؟ ۔ گیٹ پر شرما جی کو دیکھ کر لوگوں نے پوچھا ، یہ کیا بات ھے شرما جی ۔۔۔ وہ کہنے لگے اب میں شرما جی نہیں ھوں اب شرف الدین ھوں ۔ آج رات چوپال پر جمع ھو جائیں میں آپ کو اپنی داستان سناوں گا۔ اور آپ کو اذان کا مطلب بھی سمجھاؤں گا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...