کرزن، لارنس، میکالے، ریڈنگ، ویول، مائونٹ بیٹن ہمارے حکمران تھے۔ ہم ان کی رعایا تھے۔ ان کی اپنی دنیا تھا۔ ہماری دنیا الگ تھی۔ دونوں دنیائیں کسی مقام پر ایک دوسرے سے ملتی نہیں تھیں‘ نہ کراس کرتی تھیں۔ ان کے کلب اپنے تھے۔ ریستوران الگ تھے۔ ریل میں ڈبلے الگ الگ تھے۔ جن بازاروں میں عبدالکریم‘ رشید احمد لاجپت رائے اورمیٹھا سنگھ دال‘ چاول‘ گھی‘ ہلدی اور مرچ خریدتے تھے ان بازاروں میں کرزن‘ لارنس اور ریڈنگ کا کبھی گزر نہیں ہوتا تھا۔ جن سکولوں میں رعیت کے بچے تعلیم پاتے تھے‘ حکمرانوں کے بچے اور پوتے ان کے قریب سے بھی نہیں گزرتے تھے۔
جن ہسپتالوں میں عام لوگ علاج کے لئے جاتے تھے، وہاں حکمران نہیں جاتے تھے۔ حکمرانوں کے ڈاکٹر، شفاخانے، سب کچھ الگ تھا۔ یہاں تک کہ قبرستان بھی الگ الگ تھے۔ آپ نے اکثر شہروں میں ’’گورا قبرستان‘‘ دیکھے ہوں گے۔ یہاں حکمران اور ان کے ہم پایہ لوگ دفن ہوتے تھے۔ رعایا کے قبرستان الگ تھے۔
آج آصف علی زرداری‘ میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، چودھری شجاعت حسین، مولانا فضل الرحمن، سید خورشید شاہ، سید قائم علی شاہ، اعتزاز احسن، الطاف حسین، ڈاکٹر فاروق ستار ہمارے حکمران ہیں۔ ہم ان کی رعایا ہیں۔ رعایا اور حکمرانوں کی دنیائیں الگ الگ ہیں۔ دو متوازی لکیریں، دور تک الگ الگ جاتی ہوئی! کہیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں نہ کراس ہوتی ہیں۔ تعلیمی ادارے الگ الگ ہیں۔ ان کے بچوں ، پوتوں اور نواسوںکے الگ سکول ہیں‘ رعایا کے الگ ہیں۔ کسی حکمران کا بچہ عام سکول میں نہیں پایا جاتا۔ کسی عام شہری کا بچہ اس سکول کے نزدیک جانے کا بھی حوصلہ نہیں کر سکتا‘ جہاں حکمرانوں کے بچے پڑھتے ہیں۔ یہی حال ہسپتالوں میں ہے۔ کیا آپ نے تحصیل ہسپتال فتح جنگ، مانسہرہ، گوجرخان، لاڑکانہ میں کسی وزیر‘ کسی ایم این اے یا ایم پی اے کو اپنایا اپنے اہل و عیال کا علاج کراتے دیکھا ہے؟ کیا کسی شخص نے آصف علی زرداری ، میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، عمران خان، مولانا فضل الرحمن، سیدخورشید شاہ، سید قائم علی شاہ اور جناب اعتزاز احسن کو کبھی کسی بازار میں آٹا، چاول، دال، گوشت، بیسن، سبزی خریدتے دیکھا ہے؟ کیا ان میں سے کسی نے کبھی آپ کے ساتھ بس میں یا ویگن میں یا ریل میں سفرکیا ہے؟ جن دنوںآپ سی این جی کے لئے پہروں قطار میں کھڑے ہوتے تھے، کیا کسی حکمران کو وہاں دیکھا؟ پھر آپ پٹرول کے لئے لائنیں بنا کر گھنٹوں کھڑے رہے، کیا ان میں سے کسی کو وہاں پایا؟
ان کا بس نہیں چلتاورنہ یہ شاہراہیں بھی الگ کرلیتے۔لیکن جب یہ شاہراہوں سے گزر رہے ہوں تو رعایا کو شاہراہوں سے ہٹا دیا جاتا ہے‘ کوئی مر رہا ہے، یا کوئی عورت بچہ جن رہی ہے یا کسی پردل کا دورہ پڑا ہوا ہے‘ اسے شاہراہ سے ہٹا کرایک طرف کھڑا کردیا جاتا ہے۔ یہ شاہراہیں رعایا استعمال کرسکتی ہے‘ مگر صرف اس وقت جب حکمران وہاں سے نہ گزر رہے ہوں۔ ایک بار کسی حکمران کا موٹرکیڈ یا جلوس شاہراہ پرچڑھ گیا تو رعایا کا حق وہیں، اسی وقت سلب ہوگیا۔ کوئی طاقت‘ کوئی عدالت، کوئی ہائی کورٹ‘ کوئی سپریم کورٹ رعایا کا یہ حق آج تک واگزار نہیں کراسکی!
یہ حکمران، یہ وزیر، یہ ایم این اے‘ یہ ایم پی اے جب اسمبلیوں میں بیٹھتے ہیںتو زیربحث آنے والے موضوع صرف وہ ہوتے ہیںجن میں ان کا اپنا مفاد ہو۔ یہ سب، کیا حزب اقتدار اور کیا حزب اختلاف، صرف اور صرف اپنی دلچسپی کے مسائل پر بات چیت کرتے ہیں۔
نندی پور منصوبے کا تخمینہ چالیس ارب سے بڑھا کر ستاون ارب ہوگیا۔
ایل این جی کی قیمت طے نہیں ہوئی۔
اینگروکمپنی کو مراعات دی گئیں۔
سولرپارک منصوبہ سو میگا واٹ کا تھا۔
یہ ہیں ان کے موضوعات۔ یہ پارلیمنٹ میں ایان علی کی بات کرتے ہیں یا مارک سیگل کی یا میموگیٹ کی یا صدارتی انتخابات کی یا اعتزاز احسن کو ملنے والی ایل پی جی کوٹہ کی یا یہ کہ ڈاکٹر عاصم دو ارب نہیں، روزانہ صرف دو کروڑ لیتے تھے۔
کیا آپ نے کبھی سنا کہ پارلیمنٹ میں ان بازاروں کی بات ہوئی ہو جہاں سے آپ سوداسلف خریدتے ہیں، ان سکولوں پر بحث ہوئی ہو جہاں رعایا کے بچے پڑھتے ہیں‘ ان تحصیل یا ضلع ہسپتال
کے بارے میں کوئی قرارداد پیش ہوئی ہو۔ جہاں مریض اس لئے مر جاتے ہیں کہ روئی
(Cotton)
روٹی نہیں تھی یا آکسیجن نہیں تھی یا ڈاکٹر ہی نہیں تھا۔ ہمارے رپورٹر حسن رضا کی لائی ہوئی تازہ رپورٹ کے مطابق صرف پنجاب میں پچھتر لاکھ سے زائد بچے سکول کی تعلیم سے محروم ہیں۔ سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی باسٹھ ہزاراسامیاں خالی پڑی ہیں اور جانے کب سے خالی پڑی ہیں۔ ساڑھے چھ ہزار سکول بجلی سے محروم ہیں۔ تیرہ سو سکول ٹائلٹ کی سہولت کو ترس رہے ہیں۔ پونے پانچ ہزار عمارتیں گرنے کے قریب ہیں اور پھر بھی زیراستعمال ہیں۔ ہزاروں میں میز کرسیاں نہیں ہیں۔ ہزاروں کے گرد چاردیواریاں نہیں ہیں۔ پینے کا صاف پانی ایک خواب ہے۔ جنوبی پنجاب میں حالات شمالی پنجاب سے ابتر ہیں۔ سندھ میں پنجاب سے کئی گنا زیادہ خراب اوربلوچستان کی حالت سندھ سے بھی خراب تر! سینکڑوں سکولوںمیں مویشی بندھے ہیں۔ سرداروں نے تعلیمی اداروں کی عمارتوں کو غلے کے گوداموں میں تبدیل کردیا ہے۔ لاکھوں اساتذہ گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔ سینکڑوں ڈاکٹر سرکاری ہسپتالوں سے تنخواہیں لے کر، وہی وقت پرائیویٹ شفاخانوں میں لگا کر دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ بازاروں میں تجاوزات اتنے ہیں کہ پیدل چلنے کی جگہ نہیں۔ پچھلے دس یا پندرہ سالوں کے اخبارات کھول کر پورے چھ ماہ تحقیق کرلیجیے‘ کیا کسی وفاقی یا صوبائی اسمبلی میں ان میں سے کوئی مسئلہ کبھی زیربحث آیا ہے؟
دنیا میں جتنے ملک خوشحال ہیںاور جہاں جہاں بھی عوام کو حکمرانوں کے برابر حقوق حاصل ہیں‘ وہاں عوام اور حکمران ایک ہی بازار سے ساتھ ساتھ کھڑے ہوکرسودا سلف خریدتے ہیں۔ ایک ہی ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہیں۔ ریستورانوں کی قطار میں اکٹھے کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کے ہسپتال اور سکول مشترک ہیں۔ ہماری منافقت کا یہ عالم ہے کہ ہم جمعہ کے ہر خطبہ میں اور ہر مضمون میں اور ہر تقریر میں فخر سے ذکر کرتے ہیں کہ فلاں خلیفہ راشد نے اپنی زرہ یہودی کے پاس گروی رکھی، فلاں نے بازار سے سودا سلف خریدا۔ فلاں نے ذاتی کام کرتے ہوئے سرکاری چراغ گل کردیا۔ فلاں نے سامان پیٹھ پر لاد کر ضرورت مند کو پہنچایا۔ فلاں نے غلام کے ساتھ باری باری اونٹ کی سواری کی مگر ہمیں پورا سچ بولنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ ہم یہ اعتراف نہیں کرتے کہ یہ سب کچھ اب بھی کہیں اور ہورہا ہے۔ ڈنمارک کی ملکہ سبزی خریدنے دکان پر خود، بنفس نفیس آتی ہے۔ ہالینڈ کا وزیراعظم سائیکل پر سوار ہو کر دفتر آتا ہے۔ برطانیہ کا وزیراعظم ٹرین پر کھڑے ہوکر فاصلہ کاٹتا ہے اور سستی فلائٹ میں سفر کرتا ہے۔ جہاں سفر کے دوران کھانا ملتا ہے نہ چائے، چپس کا پیکٹ خود خریدناہوتا ہے۔ امریکی صدرکٹہرے میں کھڑا ہوتا ہے اور ناروے کا وزیراعظم بھیس بدل کر ٹیکسی چلاتا ہے تاکہ عوام کے احساسات اور تاثرات کو براہ راست جان سکے۔
حکمرانوں کی خدمت میں ایک درخواست ہے کہ از راہ کرم اپنے قبرستان بھی الگ کر لیجیے۔ ملکہ برطانیہ سے گورا قبرستانوں میں دفن ہونے کی اجازت لیجیے یا کوئی اور بندوبست فرمائیے۔ جب زندگی میں رعایا سے کوئی تعلق نہیں تورعایا کے ساتھ دفن ہونے کی کیا تُک ہے؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“