ایک چھوٹا کمزور ترین درخت تھا جب بھی ہوا چلتی تو وہ ہوا کے زور سے کبھی اِدھر کبھی اُدھر کی جانب جُھک جاتا وہ کم عمر اور بہت کمزور تھا اس کو ہر وقت یہ خطرہ رہتا تھا کہ کوئی تیز آندھی آ کر اس کو جڑ سے اکھاڑ دے گی چنانچہ اس نے ایک اچھے آدمی کی تلاش شروع کر دی اس یقین کے ساتھ کہ کوئی آئے اور اس کی مدد کرے۔ وہ سارا دن آتے جاتے سینکڑوں لوگوں کو دیکھتا اور دل ہی دل میں کہتا
اے کاش!
کوئی ایسا آدمی ملے جو میرے دل کی بات کو سمجھے اور میرے حالِ زار پر رحم کھا کر مجھے سہارا دے اسی انتظار میں وہ سارا دن گزار دیتا لیکن کوئی آدمی اس کی جانب توجہ نہ دیتا۔
وہ بہت پریشان تھا وہ اک بات تو سمجھ گیا تھا کہ اس مادی دنیا میں کوئی کسی کا نہیں بنتا ہر کوئی اپنی زندگی میں مصروف ہے۔کوئی مرے جیئے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا،کاروبارِ جہاں چلتا رہتا ہے اس مصروفیت کے دور میں کوئی کسی کو تھوڑا سا وقت دینے کو بھی تیار نہیں۔
اسی طرح اگر کوئی ڈوب رہا ہے تو لوگ اُس کو بچانے کی بجائے اس کی سیلفیاں(تصویریں)لینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
حیف! ایسے دور میں کوئی اپنے سگے بھائی کی بھی مدد کرنے کے لیئے تیار نہیں تو کوئی اس کمزور درخت کی مدد کیا کرے گا اس کا دکھ کیا سمجھے گا۔ وہ چھوٹا درخت انہی خیالوں میں گم تھا کہ اچانک ایک شخص اس کی جانب بڑھا وہ ایک نوجوان شخص تھا مونچھیں کافی بڑی، داڑھی چھوٹی خط کیا ہوا تھا پینٹ کوٹ زیب تن کیئے ہوئے تھا دیکھنے میں وہ بہت بڑا بدمعاش لگ رہا تھا چھوٹا درخت گھبرا گیا کہ یہ کہیں اس کو نقصان نہ پہنچا دے اس کو اکھاڑ کر نہ لے جائےخیر خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ وہ شخص جیسا اپنے حلیے سے لگتا تھا سارا معاملہ اس کے برعکس نکلا۔
وہ شخص ایک رحم دل، اچھی سیرت اور اچھی تربیت کا مالک نکلا ، وہ اس چھوٹے درخت کے پاس آیا اور اس کی طرف دیکھ کر سوچنے لگا کہ یہ اتنا کمزور درخت ہے مگر اتنے خوبصورت سبز سبز پتّوں کے ساتھ لدا ہوا ہے اگر تیز آندھی آ گئی تو یہ کسی طوفان کا سامنا نہیں کر پائے گا آخر کار یہ مٹی میں مل کر رہ جائے گا۔
اس شخص نے اس کے ساتھ بھلائی کرنے کی ٹھان لی اور اس کی حفاظت کے لیئے ایک لمبی مضبوط لکڑی لی اور اس لکڑی کو اس کے جسم کے ساتھ جڑ سے لے کر اوپر تک مضبوطی کے ساتھ باندھ دیا۔جس سے اس چھوٹے درخت کا جسم مضبوط ہو گیا اور طوفان /آندھی کا ڈر جاتا رہا وہ بہت خوش ہوا۔
پھر اس کے بعد اس چھوٹے درخت نے اپنے دل میں ایک بات ٹھان لی اور اس پر عمل کرنے کا جذبہ دل میں ہمیشہ کے لیئے رکھ لیا۔
آخر کار وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ چھوٹا سا کمزور ترین درخت ایک بڑا مضبوط تن آور درخت بن گیا وہ بہت لمبا ترین اور مضبوط ترین درخت بن چکا تھا ایک دن اس نے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا جو کہ بہت مشکل سے چل رہا تھا اس کو آسانی سے چلنے کے لیئے کسی سہارے کی ضرورت تھی وہ بوڑھا کمزور اور ڈگمگاتے ہوئے قدموں کے ساتھ لوگوں کے ہجوم سے آگے بڑھ رہا تھا اس کا ناتواں جسم کانپتے ہوئے ہاتھ کسی سہارے کی تلاش کر رہے تھے مگر اس مادی دور میں کون کسی کا بنتا ہے۔
بڑھاپا ایسا ہی ہوتا ہے بڑھاپے میں انسان بہت بے بس ہو جاتا ہے پھر اپنی جوانی کے معرکے یاد کرتا ہے کہ وہ ایک پہلوان تھا،ایک جنگجو تھا،ایک افسر تھا اپنے ہمجھولیوں کو یاد کرتا ہے مگر اس وقت کون کسی کا ساتھ دیتا ہے 'بڑھاپے میں غیر تو غیر اپنے بھی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔
بوڑھا بڑی مشکل سے آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہا تھا کبھی گِر
جاتا پھر کھڑا ہوتا چند قدم چلتا پھر گِر جاتا کبھی کسی دیوار کا سہارا لے لیتا۔
وہ درخت یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا اس کو اپنے بچپن کی یاد آ گئی جب وہ چھوٹا کمزور ترین درخت تھا اور تیز ہوا کی وجہ سے اِدھر اُدھر جھکتا رہتا تھا اس وقت اس کو کسی آدمی نے سہارا دیا تھا جس کی وجہ سے یہ تیز آندھی، طوفان سے بچا رہا اور آج ایک تن آور درخت کی شکل میں موجود تھا۔
اس کو اپنے دل میں ٹھانی ہوئی بات یاد آ گئی اس نے سوچا یہی وہ وقت ہے جس کے لیئے اتنا عرصہ انتظار کیا۔اتنے میں وہ تھکا ہارا بوڑھا ڈگمگاتا ہوا اس درخت کے نیچے آ بیھٹا اور آرام کرنے لگا اس درخت نے اس بوڑھے کو غور سے دیکھا تو اس بوڑھے کو پہچان گیا اسے یاد آیا کہ یہ تو وہی نوجوان شخص ہے جس نے اِس کا اُس وقت ساتھ دیا جب کوئی بھی اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا تھا یہ سوچ کر کہ اس سے کونسا فرنیچر تیار ہو گا یا یہ کونسا ہماری کوئی ضرورت پوری کر سکتا ہے۔
کچھ آرام کے بعد جب بوڑھا آدمی جانے کے لیئے جھکی ہوئی کمر کے ساتھ کھڑا ہوا تو اس درخت نے فوراً اپنے جسم سے ایک لکڑی کا حصّہ علیحدہ کیا اور اس بزرگ کے ہاتھ میں تھما دیا بزرگ نے اس کی طرف غور سے دیکھا اس بوڑھے کو فوراً اپنی کی ہوئی نیکی یاد آ گئی۔
بوڑھے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔اس کو سمجھ آ گئی تھی کہ کسی کے ساتھ کی ہوئی نیکی ضائع نہیں جاتی۔کسی نہ کسی طرح انسان کو اچھے کام کا اچھا صلہ مل ہی جاتا ہے۔
(اس لیئے ہر کسی کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آنا چاہیئے اور مشکل میں اک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیئے)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...