(Last Updated On: )
“ چل ہٹ سالے “ قاضی صاحب نے ساتھ چلتے ہوئے کتے کو جھڑکا۔
“ سلام چاچا” صوفی نے کاؤنٹر کے پیچھے سے سلام کیا۔
“ والے کم سلام۔ ہش شش” قاضی صاحب کی توجہ کتے پر ہی تھی۔
“ چاچا کیسے ہو” جیما نائی دروازے کے باہر کھڑا چادر سے بال جھاڑ رہا تھا۔
“ چل سالے” کتے کو صوفی کے ہوٹل کے تھڑے پر کچھ نظر آگیا۔قاضی صاحب نے اطمینان کی سانس لی۔
“ مہتہ نہیں آیا” قاضی صاحب نے ملا کی دکان کے ساتھ دھرے بینچ پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
“ سلام علیکم “ ملا کپڑے پر پانی مارتے ہوئے بولا۔ “آئیں گے ابھی۔ اسی ٹائم آتے ہیں۔”
“ اکھبار کدر ہے”
“ ابھی منگاتا ہوں۔۔ جیمے کو پوچھو اس کے پاس ہے کیا؟”
“اکھبار تیرے پاس ہے” قاضی صاحب نے جیمے کو پوچھا۔
“ نئیں ادھرنئیں ہے۔ اوئے صوفی چاچا کو اخبار دے” جیمے نے وہیں سے آواز لگائی۔
“ ابھی بھیجتا ہوں ۔ ذرا گراہک سے فری ہوجاوے” صوفی کے سامنے بیٹھے پروفیسر صاحب اخبار میں کھوئے ہوئے تھے۔
“ سلام علیکم” مہتہ جی بنچ پر بیٹھتے ہوئے بولے۔
“ والیکم سلام۔ آج دیر ہوگئی تیرے کو”
“ ارے وہ مچھی والا آیا تھا۔ اس کے پاس ٹائم ہوگیا”
“ کون کریم؟ کیا لایا تھا آج؟” کریم یہاں کا مشہور اور واحد مچھلی والا تھا۔
دونوں بزرگ بمبئی والے تھے اور مچھلی ہمیشہ ایک اہم ترین موضوع ہوتا تھا۔ مہتہ جی نے بتایا کہ کون کون سی مچھلی اور کس دام لی تھی۔
“ میرے گھر پر سرمئی ہی لی ہوگی” قاضی صاحب نے اندازہ لگایا۔ یہ محلہ بمبئی والوں کا تھا اور ممکن نہیں تھا کہ مچھلی والا یہاں کسے گھر کے آگے سے کچھ بیچے بغیر گذر جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ذرا لگے ہاتھوں کہانی کے کرداروں کا تعارف بھی ہوجائے۔ ویسے یہ کوئی ناٹک ، ڈرامہ یا تماشا تو نہیں نہ ہی کوئی افسانہ یا ناول ہے۔ لیکن یہ بھی تو ہے کہ ہر صورت ایک کہانی اور ہر چہرہ ایک افسانہ ہے ( ایسا میں نے ایک فلمی گیت میں سنا تھا)۔
ہاں تو بات کرداروں کی ہورہی تھی تو ظاہر ہے اس کہانی کا مرکزی کردار قاضی صاحب ہیں کیونکہ کہانی انہی سے شروع ہوئی ہے۔ قاضی صاحب کسی منصب کی وجہ سے قاضی نہیں کہلاتے نہ ہی وہ نکاح خوان ہیں۔ یہ ان کا خاندانی نام ہے جیسے بہت سے لوگوں کا خاندانی نام چنگیزی ، درانی، ابدالی وغیرہ ہوتا ہے لیکن نہ وہ چنگیزی ہوتے ہیں نہ درانی اور ابدالی۔
قاضی صاحب کے سر پرایک بھی سفید بال نہیں تھا نہ منہ میں کوئی دانت ٹوٹا ہوا تھا حالانکہ وہ اسی کے پیٹے میں تھے۔ چونکہ سر پر کوئی بال نہیں تھا چنانچہ کوئی بال سفید تھا نہ کالا اور چونکہ منہ میں کوئی دانت نہیں تھاچنانچہ بتیسی پوری کی پوری سلامت تھی۔ سفید چھدری سی داڑھی تھی جو مذہبی سے زیادہ معاشی تقاضے کے تحت رکھی گئی تھی کہ حجامت کے خرچے سے بچا جائے۔
ممبئی سے پاکستان آنے کے بعد کچھ عرصہ تو انہوں نے کاروبار وغیرہ کیا لیکن جلد ہی ان کے بیٹوں نے کاروبار سنبھال لیا اور قاضی صاحب کو گھر بٹھا دیا۔ پہلے کبھی گھر پر قاضی صاحب کی ہی حکومت چلتی تھی۔پھر ان کی بیوی چل بسی۔ بیٹوں کی شادیاں ہوگئیں۔ تین میں سے دو بیٹوں نے پہلے چولہے الگ کئے، پھر گھر ہی الگ کر لئے۔ قاضی صاحب سب سے چھوٹے بیٹے کے حصے میں آئے کیونکہ اس کے بچے چھوٹے تھے اور اسکول لانے لے جانے کے لئے اسے قاضی صاحب کی ضرورت تھی۔ گھر کا سودا سلف لانے اور دیگر کاموں کے لئے بھی گھر میں کسی کی ضرورت تھی۔ اس بڑھاپے میں بھی قاضی صاحب یہ سارے کام پھرتی سے نمٹاتےتاکہ جلدی سے فارغ ہوکر ملا کی دکان پر پہنچ جائیں۔ دوسری صورت میں بہو کو ہر تھوڑی دیر بعد کوئی کام یاد آجاتا۔نیلے رنگ کی چار خانے والی دھوتی اور سفید کرتا جس کی دائیں جیب میں بیڑی کا بنڈل ہوتا۔ پیر میں اسفنج کے چپل گھسیٹتے وہ پہلی فرصت میں ملا کی دکان پہنچتے جہاں مہتہ جی ان کے منتظر ہوتے۔
مہتہ جی قاضی صاحب سے بہت جونئیر تھے لیکن وہ بھی اب فارغ تھے۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ ناریل کے ایک بیوپاری کے ہاں منشی گیری کرتے تھے جنہوں نے انہیں مہتہ جی کا نام دیا ہوا تھا ورنہ ان کا اصلی نام حسین تھا۔ سا نولے رنگ کے اکہرے بدن کے مہتہ جی چشمہ لگاتے تھے۔ سامنے کے صرف دو دانت ٹوٹے تھے۔ بال آدھے سفید آدھے کالے تھے۔ وہ ہمیشہ پتلوں قمیض اور ہوائی چپل میں ہوتے البتہ قمیض ہمیشہ بابو لوگوں کی طرح پتلون میں اڑسی ہوتی۔ قاضی صاحب صوفی کے ہوٹل کی بائیں گلی میں رہتے تھے جبکہ مہتہ جی کا چھوٹا سا مکان ہوٹل کی دائیں جانب والی گلی میں تھا جہاں وہ اپنے بیٹے اور بوڑھی ماں کے ساتھ رہتے تھے۔ بوڑھی ماں کہنا ضروری نہیں کیونکہ مہتہ جی خود ہی پینسٹھ برس کے تھے۔ ان کی ماں کو تو بوڑھا ہونا ہی تھا۔ لیکن ماں کی کاٹھی مضبوط تھی اور وہ گھر گرھستی کے سارے کام خود کرلیتی تھیں۔
مہتہ جی باتیں کم کرتے تھے جبکہ قاضی صاحب ملا کی دکان پر صرف باتیں کرنے ہی آتے تھے۔ اور ہاں یہ بتانا تو میں بھول ہی گیا کہ قاضی صاحب کی رشتہ داری پاکستان اور ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں تھی۔ لیکن رشتہ سب سے صرف ایک ہی تھا۔ یہ سارے جاننے والے یہ تو سالے تھے یا سالیاں۔ مثلاً صدر جانسن، خروشچیف، نہرو، شاستری، گلزاری لال نندہ ، ایوب خان سب سالے تھے جبکہ کامنی کوشل، نرگس، نورجہاں اور صبیحہ وغیرہ سالیاں تھیں۔ ان کا ہر جملہ اپنے سالے ، سالیوں کو یاد کرتے گذرا تھا۔ ہاں قائداعظم کی قاضی صاحب بہت عزت کرتے تھے اور ان کا ذکر احتیاط سے کرتے، البتہ قائداعظم کبھی نہ کہتے، ہمیشہ عزت سے “ جناح صاحب” کہتے۔ قاضی صاحب کا علم بہت وسیع تھا۔ انہیں ہندوستان پاکستان کی ہی نہیں دنیا بھر کی باتوں کا علم ہوتا تھا۔ قاضی صاحب کی جنرل نالج کی بات ذرا بعد میں کریں گے، آئیں ذرا اس کہانی کے دوسرے کرداروں سے بھی مل لیں جن میں کچھ صرف ایکسٹرا اداکار ہی ہیں۔
صوفی کا ہوٹل “کیفے راحت” سڑک کے سامنے کچھ اس طرح تھا کہ دائیں جانب مہتہ جی اور بائیں جانب قاضی صاحب کی گلی تھی۔ صوفی ملباری تھا اور اس کے ہاں ان دنوں بھی ،جب ہندوستان پاکستان میں آمدورفت بند تھی ، اس کے رشتہ دار چھ چھ ماہ کے لئے آتے تھے۔ وہ یہاں سے دوبئی جاتے اور وہاں سے انڈیا، یا انڈیا سے دوبئی آتے اور وہاں سے کراچی۔ ہوٹل کے ساتھ ہی ایک کریانہ اسٹور تھا جس پر صوفی کا بھائی محمد یا کوئی اور رشتہ دار بیٹھا کرتا تھا۔ صوفی ہوٹل میں نہ ہو تو کوئی اور بھائی گلے پر بیٹھتا۔ ہوٹل کے سارے بیرے کشمیری، پٹھان یا پنجابی تھے لیکن سب صوفی کے ملباری زبان میں دئیے احکامات سمجھتے تھے اور ملباری گنتی میں بتاتے تھے کہ کون سے نمبر کی ٹیبل کے کون سے رنگ کے کپڑے والے گاہک سے کتنے پیسے لینے ہیں۔ دو باورچی تھے جو دونوں ملباری تھے جس کی وجہ سے اس کے ہوٹل کے کھانوں کی دھوم تھی۔البتہ تندور پر روٹیاں لگانے والا پنجابی تھا۔ صوفی کے بھائی وغیرہ چونکہ ہندوستان سے آتے رہتے تھے چنانچہ اس کے ہوٹل کا کام زیادہ تر ایمانداری سے ہوتا اور ہوٹل میں صفائی رہتی جو آس پاس کے دوسرے ہوٹلوں میں کم ہی نظر آتی۔
ہوٹل کے بائیں جانب یعنی گلی کے اندر نوجوان جیمے کا “ محمد جمیل باربر اینڈ ہئیر کٹنگ سیلون”تھا۔ جس کے سامنے کچی سڑک کی اس طرف شمشیر سائیکل ورکس اینڈ پنکچر مستری کی دکان تھی جہاں سرخ و سفید رنگت والا شمشیر سائیکلیں کرائے پر دیتا اور سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں کے پنکچر لگاتا تھا۔ لیکن شمشیر ہماری کہانی میں شامل نہیں۔
جیمے کے الٹے ہاتھ پر ملا کا “ بشیر لانڈری ورکس اینڈ ڈرائی کلینرز” تھا۔ آپ نے دیکھا سوائے کیفے راحت کے ہر دکان کے ساتھ “اینڈ” ضرور لگا تھا۔ بشیر بھی نوجوان تھا لیکن اس کی نوجوانی اس کی سیاہ بھر واں داڑھی میں چھپ گئی تھی۔ اسی کوالیفیکیشن کی وجہ سے وہ ملا کہلاتا تھا اور جمعے کی نماز کے وقت دکان بند کرنے پر مجبور تھا۔ جیمے کی دکان اور صوفی ہوٹل اس دوران کھلے رہتے تھے۔
اس کہانی کا مرکزی کردار اگر قاضی صاحب ہیں تو مرکزی مقام وہ بنچ تھی جو جیمے اور ملا کی دکان کے بیچ کچھ اس طرح رکھی تھی کہ اس پر بیٹھنے والے حسب موقع و ضرورت نائی کی دکان کے گاہکوں کے ساتھ تبادلہ خیال کرسکتا تھا اور چاہے تو ملا کی دکان کی طرف رخ کرکے ملا اور اس کے گاہکوں کی باتوں میں شامل ہوجائے۔ بنچ پر غربی جانب قاضی صاحب کی گلی تھی جہاں بچے کھیلتے اور عورتیں مرد آتے جاتے دکھائی دیتے اور شرقی جانب مین روڈ تھی جہاں سے بسیں، رکشہ ، سائیکلیں، گدھا گاڑیاں اور پیدل لوگ آتے جاتے دکھائی دیتے۔ قاضی صاحب کا رخ جب گلی کی جانب ہوتا تو وہ محلے کی پالیٹکس پر تبادلہ خیال کرتے اور جب سڑک کی جانب منہ ہوتا تو بین الاقوامی امور پر روشنی ڈالتے۔ لیکن یہ کوئی قاعدہ قانون نہیں تھا۔ یہ اس پر منحصر تھا کہ مہتہ جی نے کون سی خبر سنائی ہے۔ وہ گلی کی طرف منہ کرنے کے باوجود ویتنام ، کشمیر اور کوریا پر اپنے خیالات کا اظہار کرسکتے تھے۔
قاضی صاحب کو دنیا بھر کی سیاست اور ان میں چھپی سازشوں کا علم تھا۔ وہ اس انداز سے تبصرہ کرتے جیسے انہیں اندر کی ساری باتیں کسی خاص ذریعے سے ملی ہیں۔ خیر یہ تو آج کل بھی ہوتا ہے۔ ٹی وی اور اخبار میں اکثر دانشور اپنی بنی بنائی خبر کو “ ذرائع” سے منسوب کردیتے ہیں۔ قاضی صاحب کے ذرائع بھی بڑے باخبر ہوتے۔ کبھی وہ رازدای سے کہتے کہ کل “ گورمنٹ کا آدمی بتا رہا تھا”۔ تو گورمنٹ کے آدمی سے مراد خاکی پتلون اور قمیض والا وہ آدمی تھا جو صدر سے آتے ہوئے بس میں ان کے برابر بیٹھا تھا اور جو تغلق ہاؤس کے ایک دفتر میں پٹے والا تھا۔
ملا نے آواز دے کر تین چاء منگالی تھیں۔ چوتھی چاء کے لئے جیمے کو پوچھا لیکن وہ ایک گاہک کو کرسی پر بٹھا کر اس کے منہ پر پانی مار کر اس کے شیو کی تیاری کررہا تھا۔ اخبار بھی مہتہ جی کے پاس پہنچ گیا تھا۔ یہ اخبار صوفی خریدتا تھا لیکن تینوں دکانوں میں گردش کرتا رہتا لیکن قاضی صاحب اور مہتہ جی کے آنے سے کچھ پہلے لازمی طور پر صوفی کے یہاں ہوتا جہاں پروفیسر صاحب باقاعدگی سے اس کا مطالعہ کرتے تھے۔
“ امریکہ کی روس کو وارننگ” مہتہ جی باآواز بلند سرخی پڑھ کر خاموش ہوگئے۔
“ یہ سالے امریکہ کو بہت مستی چڑھی ہے” قاضی صاحب گویا ہوئے “ یہ جس دن روس کے اڑنگے میں آگیا تو دیکھنا۔ سالا منہ دکھانے لائق نہیں رہے گا”
“ تیرے کو پتہ نہیں سالے روس کے پاس کتنے بم ہیں “ قاضی صاحب کا تبصرہ جاری تھا۔ انہیں اس سے غرض نہیں تھی کہ سالے امریکہ نے روس کو وارننگ کس چیز کی دی تھی۔
“ طاس سندھ پر مذاکرات اگلے ماہ دہلی میں ہونگے” مہتہ جی نے دوسری خبر سنائی۔
“ یہ سالا نندہ دیکھنا ایوب خان سے مار کھائے گا” قاضی صاحب لنگی سمیٹ کر چائے کی بلند آواز سڑکی لے کر بولے۔
“ ان لوگ کو اپنے پٹھان لوگ ہی سیدھا رکھتے ہیں۔ شاستری کو ایوب خان نے ایک تڑی دی تو سالا لمبا لیٹ گیا” قاضی صاحب نے حالیہ تاریخ کا حوالہ دیا۔
“ تم کو مالوم ہے۔ پٹیل سالے نے جناح صاحب سے بدتمیزی کی تو سردار نشتر نے اس کو کیا زور سے تھپڑ لگایا تھا” قاضی صاحب ماضی بعید کی تاریخ میں کھو گئے۔
“ نگاہیں ملا کر بدل جانے والے مجھے تجھ سے کوئی شکایت نہیں ہے”
جیمے کی دکان سے ریڈیو کی آواز آئی۔
“ جیمے ریڈیو کی آواز کم کر” ملا کو زیادہ زور سے گانے پسند نہیں تھے۔
“ ابھی تم لوگ کو کیا پتہ کہ سالے نہرو نے کیا بولا تھا؟” قاضی صاحب کسی نئے انکشاف کے لئے سامعین کو تیار کررہے تھے۔
“ کیا بولا تھا” مہتہ جی بھی سننا چاہتے تھے۔
“ نہرو نے بولا سالی نورجہاں کو ہمیں دے دو اور کشمیر لے لو”
“ ارے! سچی کیا ایسا بولا تھا” ملا کی آواز میں حیرت تھی۔ اسے نورجہاں بالکل اچھی نہیں لگتی تھی۔ “ تو دیا کائے کو نہیں۔ دینا مانگتا تھا۔ کشمیر کا لفڑا ختم ہوجاتا” ملا ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتا تھا۔
قاضی صاحب مزید انکشافات کرنا چاہتے تھے کہ ہیرو سیٹی بجاتا ہوا آدھمکا۔
“ سلاں لیکم “ شیشے کے شو کیس پر کپڑے رکھ کر ہیرو نے انگلیوں سے اپنے بال سنوارے۔
یہ گوری رنگت والا ایک لفنگا سا نوجوان تھا۔ اپنا نام “ درپن “ بتاتا تھا۔ بال بھی درپن جیسے بنا تا تھا۔ رنگ برنگی پھولدار بش شرٹ اور ٹیڈی پتلون اور سر پر بڑے بڑے بال سامنے سے بکھرے ہوئے۔ کوئی اسے درپن تو کوئی ہیرو کہتا تھا اور یہ دونوں ناموں سے خوش تھا۔ ہیرو بندر روڈ پر کسی سنیما میں گیٹ کیپر تھا۔ اگر فلم کی بات ہوتی تو ہیرو معلومات کے دریا بہادیتا۔ اس نے نورجہاں والی بات نہیں سنی ورنہ ضرور اس سلسلے میں اپنی مصدقہ معلومات سے آگاہ کرتا۔ اسے تو ہالی ووڈ کی بھی خبر تھی۔ برٹ لمباشٹر( برٹ لنکاسٹر) کا چکر کس سے چل رہا ہے اور ایلزبتھ ٹیلر اگلی شادی کس سے کرنے والی ہے، اسے سب پتہ ہوتا تھا۔
“ چھ کپڑے ہیں “ ملا نے رسید ہیرو کے حوالے کی۔
“ کب ملیں گے” ہیرو نے پوچھا۔
“ تجھے کیا پتہ نہیں۔ جیسے ہمیشہ ملتے ہیں۔” ملا بولا۔
“ ارے نہیں ۔دو دن بعد حیدرآباد جانا ہے شادی میں۔ تھوڑا جلدی کر” ہیرو گڑگڑایا۔
“ تو ارجنٹ کردوں”
“ کردے۔پر پیسے ارجنٹ کے نہیں دوں گا” ہیرو فیصلہ کن انداز میں بولا۔ “ رانی اور کمال کی نئی فلم کے پاس لے لینا مجھ سے”۔
“ اپنے پاس رکھ فلم کے پاس۔ مجھے نہیں چاہئیں “ ملا کو ہیرو کی پیشکش نے متاثر نہیں کیا تھا۔
ہیرو نے سیٹی بجانا شروع ہی کی تھی کہ روک لی۔ شمشیر سائیکل ورکس کے سامنے چھوٹی سی کار سے اتر کو وہ ملا کی دکان کی جانب آرہی تھی۔ ریگمال ٹیوب پر رگڑتے ہوئے ہاتھ کو روک کر شمشیر اسی طرف دیکھ رہا تھا۔ جیما بھی تولیہ ہاتھ میں پکڑے باہر کھڑا تھا۔ دکان میں گاہک بال گردن سے جھاڑنے کا منتظر بیٹھا تھا۔ صوفی کے ہوٹل کا کشمیری لڑکے نے بھی ٹیبل پر پونچھا لگاتے ہوئے ہاتھ روک لیا تھا۔
یہ زرق برق کپڑوں میں ملبوس ایک گوری چٹی، خوش شکل اور نوجوان لڑکی تھی۔سرخ لپ اسٹک اس کے ہونٹوں پر خون کی طرح چمک رہی تھی۔کالا چشمہ آنکھوں کے بجائے ماتھے پر تھا جہاں اور زیادہ اچھا لگ رہا تھا۔
“ یہ ڈرائی کلین کرنے ہیں” اس نے چھوٹی سی گٹھڑی شوکیس کے اوپر رکھتے ہوئے کہا۔
“ فکر نہ کریں” ملا ساٹن کی ساڑھی کی ملائمت کو محسوس کرتے ہوئے ملائم لہجے میں بولا۔ لڑکی گاڑی کی طرف مڑ گئی۔ ملا، ہیرو، قاضی صاحب، مہتہ جی، جیما سب اسے جاتے دیکھ رہے تھے۔
“ سالا کیا زمانہ آگیا ہے” قاضی صاحب کوئی سخت تنقیدی جملہ کہنا چاہتے تھے لیکن سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیاکہیں۔
“ سچی بس۔ ابھی کیا بولیں” مہتہ جی بھی ان کی ہاں میں ملانا چاہتے تھے لیکن کوئی مناسب اعتراض انہیں بھی نہیں سوجھ رہا تھا۔
ہیرو لفنگے انداز سے اسی طرف دیکھے جارہا تھا۔” سالی ایک دم فلم والی دکھتی ہے” وہ آہستگی سے بولا۔
“ یہ ڈرامے میں کام کرتی ہے” ملا نے اطلاع دی۔
“ مالوم ہے میرے کو۔ مسجد کے سامنے والے بڑے بنگلے کی انیکسی میں رہتی ہے” ہیرو نے معلومات مکمل کیں اور “ او حسینہ زلفوں والی جان جہاں” گنگناتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
“ یہ سالا ایک دم بے شرم چھوکرا ہے” قاضی صاحب نے لڑکی پر ہونے والا اعتراض ہیرو کی جانب منتقل کردیا۔
کچھ دیر میں قاضی صاحب اور مہتہ جی بھی اٹھ کر اپنے اپنے گھروں کو چل دئیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ ارے یہ بشیر کدھر ہے آج ؟ قاضی صاحب ملا کی دکان کے بند شٹر کو گھورتے ہوئے بولے۔
“ اس کا ابا مر گیا ہے۔ میر پور خاص گیا ہے” جیمے نے بتایا۔
جیمے نے بتایا کہ اب ملا چالیسواں کرکے ہی آئے گا۔ دکان کی چابی وہ شاید اپنے کسی خالہ زاد بھائی کو دے گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ یہ چاچا اور مہتہ جی نہیں نظر آرہے” ملا آج ہی دکان پر واپس آیا تھا۔
“ چاچا کے گھر والے یہاں سے چلے گئے تھے۔ اس کے بیٹوں نے گھر بیچ کر اپنے اپنے حصے لے لئے تھے۔ چھوٹا بیٹا چاچا کو لے کر کسی نئی جگہ چلا گیا تھا” جیمے نے اخبار شوکیس پر رکھتے ہوئےتفصیل بتائی۔
“ تو چاچا ادھر آتا ہے کبھی کبھی” ملا نے پوچھا۔
“ یہاں سے جانے کے بعد چاچا کا وہاں دل نہیں لگا۔ بیمار پڑگئے۔ مہتہ جی بتا رہے تھے کہ ایک ہی ہفتے میں چاچا کی مٹی ہوگئی۔ مہتہ جی بھی اب نہیں آتے”۔جیما کی آواز رندھی ہوئی تھی۔
“ اوہ۔ مٹی ہوگئی۔ چاچا گذر گئے” ملا بشیر کی آنکھوں کے سامنے اپنے باپ کی میت آگئی۔ ایک آنسو ڈھلک کر اس کی داڑھی میں گم ہوگیا۔ اس نے اخبار اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا۔