موتِ العالِم موتِ العالَم“ ۔۔۔سید تنویر بخاری راہی ملک عدم ہو گئے
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
*ایک چراغ اور بجھا اور بڑی تاریکی*
پنجابی زبان و ادبیات کے محسن جناب سید تنویر بخاری صاحب ____عالمگیر شہرت کے حامل __ پنجابی زبان و ادب کے قدآور تخلیق کار __ عظیم درویش صفت شاعر ، محقق ، نقاد ، مؤرخ ، مترجم ، لغت ساز ، بے شمار ایم اے مضامین اور ایل ایل- بی کی نصابی کتابوں کے مصنف ، آٹھ زبانوں پر دسترس رکھنے والے یگانہ روزگار فاضل ماہر لسانیات، (سجادہ نشین آستانہ عالیہ حضرت عبداللہ شاہ بخاری رح)_ وارث شاہ کے شجرہ اور فکر و فن کے بے مثل کام پر اتھارٹی کا درجہ رکھنے والے جہاندیدہ دانشور __وارث شاہ کی دھرتی پر وارث شاہ ثانی __ ہمارے قابل فخر استاد گرامی سید تنویر بخاری __ کئی دنوں سے گنگا رام ہسپتال لاہور میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے تھے ۔۔ کہ آج یکم جون 2023ء بروز جمعرات داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔۔
آپ 84سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔۔
رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے ۔۔۔
”ایک عالِمِ دین کی موت پورے عالَم کی موت ہے۔“
ایک عالِمِ دین دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو اس علاقہ کی عوام اس عالِم کی موت کے باعث علمی روشنی سے محروم ہو جاتی ہے،ایک عالِم کی موت ایک بہت بڑا نقصان ہے جس کی تلافی ممکن نہیں ہوسکتی اور ایسا نقصان ہے جو پورا نہیں ہوسکتا. عالَم ایسا ستارہ ہے جو موت کی وجہ سے بے نور ہوگیا۔
ایک بڑا خسارہ اور ایک عہد کا خاتمہ ہے
حدیث میں ہے کہ جب کسی عالِم کی موت ہوتی ہے تو دیوارِ اسلام میں ایسا شگاف پیدا ہو جاتا ہے جسے قیامت تک کوئی چیز پر نہیں کر سکتی ،اس کے ساتھ اس وقت ہم یہ اضافہ کرنا چاہیں گے کی علم و حکمت کی ایک عالیشان عمارت جن چار ستونوں پر قائم تھی اس کا ایک مضبوط ستون ہی منہدم ہوگیا۔
ورق تمام ہوا مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لیے
(مرزا غالب)
اللہ تعالی ان کی اگلی منزلیں آسان کرے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلی و ارفع مقام عطا فرمائے۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شفاعت سے بہرہ ور کرے اور ان کے بیٹوں ، ان کے پسماندگان ان کے شاگردان ، ان کے مریدین ،ان کے عقیدت مندان اور عوام الناس سب کو صبر جمیل عطا فرمائے۔۔آمین
💥 خدا رحمت کند عاشقان پاک طینت را ۔۔۔
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گوشہ نشین سید تنویر بخاری نے شہر کے ہنگاموں کو چھوڑ کر ضلع گوجرانوالہ کے ایک دور افتادہ گاؤں کڑیال کلاں براہ جنڈیالہ شیر خان میں بیٹھ کر پنجابی زبان و ادب کی جتنی خدمت کی ہے’ اتنی لاکھوں روپے گرانٹ اور فنڈز لینے والے سرکاری ادارے بھی نہیں کر سکے۔ لگ بھگ مختلف اصناف پر مبنی چار سو سے زائد کتب ایم اے لیول کی پانچ نصابی مضامین اور ایل ایل بی کی نصابی کتب کے حوالے کے علاوہ آپ پنجابی غزل کے پہلے باقاعدہ شاعر ہیں جن کی پنجابی غزلوں کا مجموعہ پاکستان میں سب سے پہلے چھپا ۔ وارث شاہ کے شجرہ ، فکر اور فن پر منفرد تحقیقی کام کرنے پر ایک اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں ۔ایک اسکول آف تھاٹ کی حیثیت سے آپ کا کام دور حاضر کے تمام پنجابی ادیبوں سے زیادہ ہے ۔۔آپ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک پنجابی زبان و ادب کے عظیم محسن ہیں ۔۔۔۔ملک کو اپنے ایسے لیجنڈ ادیبوں پر بلاشبہ فخر ہے ۔تخلیقِ ادب کا کوئی بھی عکس ہو،اس میں اس زیرک تخلیق کار کی فعالیت کے خدو خال جلوہ گر دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ نابغہء روزگار لوگ یادگارِ زمانہ ہوتے ہیں،ان کے قدموں کے نقوش بھی سر بہ فلک
کوہساروں کے مانند ہیں جو آنے والی نسلوں کے لیے نشانِ منزل ثابت ہوتے ہیں
تنویر بخاری کا نام عالمی ادبی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں وہ گزشتہ سات عشروں سے پرورش لوح و قلم میں مصروف ہیں۔ نابغہ روزگار شاعر ،ممتاز دانشور حضرت تنویر بخاری نے بڑے زوروں سے اپنی صلاحیتوں ،تخلیقی کامرانیوں اور ادبی فعالیتوں کو حقائق کے پیرائے میں بیان کرنے کے معجز نما اسلوب اور زبان و بیان پر اپنی خلاقانہ دسترس کا لوہا منوایا ہے۔ حضرت تنویر بخاری نے روشنی کے اس سفر کا آغاز 1944ء میں کیا جب زمانہ طالب علمی میں ان کی پہلی غزل شائع ہوئی۔
زندگی اور اس کی حقیقی معنویت کے بارے میں اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ ہم فریب ِ ہستی کھانے کے بعد بھی بھیانک تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیے مارتے پھرتے ہیں لیکن کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔ تخلیق فن کے لمحوں میں دِل کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ مسحور کُن آوازوں کی مدھر لے پر خوابوں کی خیاباں سازیاں اپنی جگہ لیکن زندگی کی اصلیت کی گرہ کشائی کی یہ کیفیت قاری کو خواب غفلت سے جگاتی ہے اور افکار تازہ کی مشعل تھام کر جہان تازہ کی جانب مراجعت کی راہ دکھاتی ہے۔ تنویر بخاری کی شاعری جامد و ساکت پتھروں اور سنگلاخ چٹانوں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے ۔زبان و بیان اور اظہار ابلاغ پر خلاقانہ دسترس رکھنے والے سید تنویر بخاری کی زندگی شمع کے مانند ہے ، ان کی ذات سفاک ظلمتوں میں روشنی کی ایک کرن ہے ۔ ایک زیرک ،فعال ،مستعد ، شیریں سخن اور شیریں گفتار تخلیق کار کی حیثیت سے تنویر بخاری نے اپنی شاعری سے پتھروں کو بھی موم کر دیا اورقارئینِ ادب کے دلوں کو مسخر کر لیا۔ اس کے لبوں سے کسی نے کبھی حرفِ برہمی نہ سُنا بل کہ اس کی گل افشانیء گفتار سے ہر محفل کشتِ زعفران بن جاتی ۔
پنجابی غزل کا آغاز نوشہ گنج بخش سے شروع ہوا ہو یا شاہ مراد سے ،مولا بخش کشتہ سے شروع ہوا ہو یا پیر فضل گجراتی سے ،۔۔۔۔اپنی جگہ پر یہ ایک طویل بحث ہے لیکن پنجابی شاعری کو اضافتوں اور فارسی ترکیبوں کے اثرات سے بچا کر خالص پنجابی الفاظ کے استعمال کو رواج دینے والے اس عہد کے سب سے قدآور شاعر ،محقق ،نقاد ،مترجم ،ماہر لسانیات ، لغت ساز ، نابغہ روزگار اور اس عہد کے وارث شاہ ثانی جناب تنویر بخاری ایک ہمہ جہت شخصیت مالک ہر دلعزیز انسان ہیں ۔ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد چھپنے والا پنجابی غزل کا پہلا مجموعہ ” ولکنیاں ” بھی انہی کا ہے ۔تنویر بخاری کا “ولکنیاں” پہلا پنجابی مجموعہ کلام 1962ء میں منصہ شہود پر آیا تھا ۔گوشہ نشین سید تنویر بخاری نے شہر کے ہنگاموں کو چھوڑ کر ضلع گوجرانوالہ کے ایک دور افتادہ گاؤں کڑیال کلاں براہ جنڈیالہ شیر خان میں بیٹھ کر خاموشی سے پنجابی ادبی کی جتنی خدمت کی ہے’ اتنا کام کروڑوں روپے کی گرانٹ اور فنڈز لینے والے ادارے بھی نہیں کر سکے ۔پنجابی شاعری کے ایک سو سے زائد مجموعہ کلام ، لوگ گیتوں پر دو تحقیقی کتب ، متعدد نعتیہ مجموعے ، ایم اے کی سطح کے پانچ نصابی کتابوں اور ایل ایل بی کی کتب کے مصنف ، اردو پنجابی لغت ، کم و بیش مجموعی طور پر چار سو سے زائد کتب ،”سکول آف تھاٹ “اور پنجابی زبان و ادب کے عظیم محسن سید تنویر بخاری کی شخصیت کئی حوالوں سے بہت معتبر اور قابل صد احترام ہے ۔۔وہ پنجابی کے ایک عظیم محسن کے طور پر پہچانے جاتے ہیں ۔پنجاب ، پنجابی پنجابیت اور پاکستان کو بلا شبہ دائرہ المعارف کی حیثیت رکھنے والے اس نابغہ روزگار فاضل پر ناز ہے ۔۔
بات تنویر بخاری کے جذبہ عشق سے کرتے ہیں ۔فرہاد نے شیریں کے لئے نہر نکالنے کا جتن کیا تھا ۔مجنوں نے تھلوں کا ، رانجھا بیلے میں بھینسیں چراتا رہا ۔اور مہنیوال دریائے چناب کو چیرنے والے سفر پر گامزن رہا ۔گھوڑی پر سوار جنڈ کی چھاؤں میں سویا ہوا مارا گیا ۔۔لیکن پنجابی ادب کے اس مسافر کو ڈر ہے کہ ٹھنڈی گھنی چھاؤں میں وہ ڈرتا ہوا اس لیے سو نہیں رہا کیوں کہ اسے ڈر ہے کہ کہیں نیند میں اس کی منزل کھو نہ جائے ۔۔
تنویر بخاری کو شاعری اپنے ورثے میں ملی ہے ۔ آپ کے والد سید عبدالرحمن مبشر بہت بڑے عالم دین اور مایہ ناز شاعر تھے ۔آپ قیام پاکستان سے قبل ضلع قصور کے ایک گاؤں میں بھیکی ونڈ ہٹھاڑ میں 15 فروری 1939،ء کو جمعۃ الوداع کے دن پیدا ہوئے ۔والدین نے آپ کا نام فقیر محمد رکھا ۔ابھی آپ کی عمر صرف چھ ماہ تھی کہ آپ کے والد بزرگوار عبدالرحمن مبشر اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ان کی وفات کے بعد ان کے چچا سید عبداللہ شاہ بخاری نے ان کی پرورش باپ کی طرح بڑے نازونعم سے کی ۔شاعری کا شوق پرائمری اسکول میں ہی ہو گیا تھا ۔ابھی آپ کلاس چہارم میں پڑھتے تھے جب ان کی پہلی غزل شائع ہوئی…مڈل کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے “جے وی” کا امتحان نارووال سے پاس کیا ۔اور ایک اسکول میں مدرس لگ گئے ۔اس کے بعد آپ نے بتدریج میٹرک ، ایف اے ، بی اے کے امتحانات پاس کیے۔۔ ایک سال بعد انہوں نے ایم اے پنجابی کا امتحان بھی اعزاز کے ساتھ پاس کیا ۔ایم اے پنجابی کرنے کے بعد کسی دوسرے شہر میں ترقی ملنے پر آپ نے اپنے گاؤں اور اپنے چچا کے آستانہ کو چھوڑنا پسند نہ کیا کیونکہ انہوں نے طریقت کی منزلیں بھی طے کر لی تھیں ۔اس کی وجہ سے اپنے والد جیسے چچا سید عبداللہ شاہ بخاری کے آستانہ کو چھوڑ کر کہیں جانا پسند نہ کیا اور ساری ملازمت اپنے گاؤں کے پرائمری سکول میں درس و تدریس کے پیشے سے منسلک رہ کر اپنے مرشد اور چچا سید عبداللہ شاہ بخاری کے دربار کے گدی نشینی کرتے ہوئے گزار دی ۔۔ جناب تنویر بخاری کا حلقہ احباب بہت وسیع ہے ۔آپ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ایک متحرک قلمکار ہیں ۔آپ ایک مایہ ناز شاعر ، محقق ،نقاد ،مترجم ، مورخ ، لغت ساز ، اور وارث شاہ کے شجرہ ،فکر اور فن پر پہلی بار جامع تحقیقی کام کرنے پر ایک اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں ۔تنویر بخاری ایک شخص کا نام نہیں بلکہ تنویر بخاری ایک اسکول آف تھاٹ ، ایک دبستان اور ایک انسٹیٹیوشن کا نام ہے ۔ان کے استانہ پر ہمہ وقت علمی ، ادبی اور روحانی فیض بانٹا جاتا ہے ۔ان کے حلقہ ارادت میں شامل شاگردوں کے علاوہ ان کے مریدین کی بڑی تعداد شامل ہے ۔۔
تنویر بخاری زندگی کے ان راستوں کا مسافر ہے جو پیدائش سے لے کر بچپن ، لڑکپن اور جوانی کا سفر کرتا ہوا بڑھاپے میں پہنچ گیا ہے لیکن انہوں نے اپنا یہ سفر عام لوگوں کی طرح نہیں کیا ۔انہوں نے زندگی سے ہر پل، ہر لمحہ کچھ نہ کچھ کشید کیا ہے۔
اور اس طرح ان کے تخلیقی سفر میں “پیڑ دا بوٹا ، ایش ٹرے ،ولکنیاں ،میخانہ ، حدیث کربلا ، وین ، شیشہ ، نک سک ،لوئے لوئے ،شاعری ،بجھی عشق دی اگ نوں واء لگی ، ہزج ، جیوے پاکستان ،سوہنی دھرتی ، حضور دے حضور ، مستو مست قلندر لال ، شیشہ تے پتھر ، نہی عن المنکر ، مکاشفہ ، تتو تاریاں، دیوان تنویر بخاری ، حدیث کربلا ، پنجابی اردو لغت ، پنجاب دے لوک گیت ، کن لیکھاں، لوک کھیل ، ماہیا ، دھونی ، سراں تے سداں ( لوک ادب)، سلام آکھنا واں ، واشنا ، وین ، یا سیدی یا رسول اللہ ، ھو ، پنج رس ، بناں عشق محمّد توں ، میخانہ ، اداسیاں، وارث شاہ ، عہد اور فکرو فن ،تے شاعری ، نقد و تحقیق کی بے شمار کتب کے علاوہ پانچ مضامین ایم – اے کے اور ایل ایل – بی کے نصاب کی کتب اور دیگر اصناف میں پنجابی اردو لغت اور سینکڑوں کی تعداد میں لکھی نصابی کتب شامل ہیں ۔۔۔۔
ان کا کہنا ہے کہ شاعر تو میں اس وقت بھی تھا جب مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ شاعری کیا ہوتی ہے اور شعر کیوں کہا جاتا ہے؟ ۔میں نے کلاس چہارم میں پہنچ کر باقاعدہ شعر کہنے شروع کر دیے تھے ۔اسی وقت میں نے ایک پرائیوٹ استاد سے فارسی پڑھنا بھی شروع کر دی تھی ۔اس طرح میں ان سے پڑھ کر رودکی ،وقفی ،سنائی ،واحدی ، مراغی ، عطار ، سعدی ، جامی ، خواجو ،حافظ اور نظیری کے ناموں سے واقف ہو گیا تھا۔۔ان میں سے حافظ شیرازی اور نظیری کو تو سمجھنے کے قابل ہو گیا تھا ۔آٹھویں کلاس پاس کر کے انہوں نے سکول کی تعلیم چھوڑ دی اور ایک درس میں داخل ہوگئے ۔وہاں انہوں نے بہت قلیل عرصہ میں اپنے اساتذہ کو اپنے نصاب کی تمام کتب سنا دیں ۔لیکن ان کو مدرسہ کا ماحول پسند نہ آیا اور انہوں نے ” جے وی ” کلاس میں باقاعدہ داخلہ لے لیا ۔ان کا کہنا ہے کہ میں نے کبھی کوئی شاعر نہیں دیکھا تھا۔میں نے پہلی بار جو شعر دیکھا تھا وہ میرا ہم جماعت منیر احمد منیر تھا جو ” جے وی” کلاس میں میرا ہم جماعت بنا۔
“جے وی” کر کے سید تنویر بخاری نے محکمہ تعلیم میں بطور مدرس نوکری کر لی۔پھر ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ شاعری کے علاوہ بھی دنیا میں اور کوئی کام ہوتا ہے ۔پھر یہ تھے اور ان کی شاعری ۔۔۔۔1960ء تک ان کی کئی کتب شائع ہو چکی تھیں ۔اس وقت تک ان کی شاعری میں بیت ، سی حرفیاں ، کافیاں ،نعتیں ،چوبرگے ، گیت اور غزلیں شامل ہوتی تھیں ۔1960ء میں ہی انہوں نے غزلیں کہنا شروع کر دی تھیں ۔ان کی پہلی غزل ماہنامہ” پنجابی ادب” لاہور کے سالنامے میں جنوری 1960 میں چھپی ۔اسی زمانے میں ان کی ملاقات اپنے وقت کے دو بڑے پنجابی شعراء ڈاکٹر پیر محمد فقیر اور حضرت علامہ غلام یعقوب انور ایڈووکیٹ کے ساتھ ہوئی ۔علامہ غلام یعقوب انور کے پیار اور شفقت نے ان کو اپنے قریب کر لیا اور اپنے ڈیرے “انور لاج” پر اپنی “بزم وفا” کے زیراہتمام ہونے والے مشاعروں میں ان کو بھی خصوصی طور پر حصہ لینے کی دعوت دی ۔یہاں پر ہی ان کی ملاقات اپنے وقت کے نامور شعراء کے ساتھ ہونے لگی ۔یہاں پر ان کے علاوہ تمام شاعر شہری تھے اور یہ اکیلے دیہاتی شاعر تھے ۔ان کی زبان اور لہجہ بھی خالص دیہاتی تھا ۔انہوں نے اسی زبان اور اسی لہجے کو اپنے شعروں میں زبان دی ۔۔اس وقت تک پنجابی غزل پر فارسی غزل کا بہت گہرا اثر تھا ۔فارسی مشکل الفاظ اور تراکیب کے استعمال کے ساتھ ساتھ اضافتیں بھی فارسی کی استعمال کی جاتی تھیں ۔یہاں پر ان کو اس روایت سے ٹکرانا پڑا اور انہوں نے اپنے ہی لہجے میں لکھنا شروع کیا ۔جس طرح کے ان کے قریبی لوگ بولتے تھے ۔
جناب تنویر بخاری نے پنجابی غزل کو خالص زبان دینے کی کوشش کی ۔یہ ٹھیک ہے کہ غزل کی زبان میں لطافت اور نزاکت کا ہونا ضروری ہے ۔مگر اس سادے بندے کو بھلا ان نزاکتوں اور لطافتوں کے بارے میں کیا معلوم ؟۔۔۔۔یہ بھی ٹھیک ہے کہ غزل کا مطلب عورتوں سے باتیں کرنا ہے ۔۔ہر عورت کا مطلب صرف محبوب ہی نہیں ہوتا ۔اپنی بیوی بھی تو ایک عورت ہوتی ہے ۔۔غزل میں دنیا جہاں کا ہر موضوع استعمال کیا جا سکتا ہے ۔تب جا کر شاعر کسے مزدور ،زمیندار ،کھیتوں کھلیانوں ، کارخانوں میں اپنے سامنے ہونے والے واقعات کو اپنا موضوع کیوں نہ بنائیں ۔
تنویر بخاری سے پہلے بہت سے غزل گو شعرا ہوئے ہیں اور بہت سے غزل گو شعرا ان کے ہم عصر بھی تھے جن میں سے بہت سارے ان سے سینئر اور عمر میں بڑے تھے لیکن انہوں نے ان میں سے کسی کو بھی ابھی پڑھا نہیں تھا ۔عبدالغنی وفا ، ڈاکٹر فقیر محمد فقیر ، علامہ غلام یعقوب انور، پیر فضل حسین گجراتی ، برکت علی خورشید ، عبدالغفور اظہر ،صوفی عبداللہ یاسین ، احمد حسین قلعداری ،،آزاد باجوہ ،حکیم محمد علی فائق ، نادر جاجوی ، افضل احسن رندھاوا ،خلیل آتش ، عبدالمجید بھٹی ، سیٹھ اسحاق ، باغ حسین کمال ، نذیرچودھری، حکیم ناصر، محمد عظیم بھٹی، اعجاز حسین رضوی ، بشیر ریاض ، شریف کنجاہی ، ریاض مجید ،ظفر اقبال، سلیم کاشر ، روف شیخ ، شیر افضل جعفری ،ماجد صدیقی ،جوہر جالندہری فضل دین بخت ، شارب انصاری ،شاد فیروزپوری ، سید علی شاہ ملتانی، سہیل جیلانی ،اطہر نظامی اور اکبر لاہوری کے نام نمایاں ہیں ۔
قیام پاکستان کے بعد پنجابی غزلوں کا پہلا مجموعہ کلام جو منصئہ شہود پر آیا وہ تنویر بخاری کا ہی تھا ۔اس حوالے سے سید تنویر بخاری کو پاکستان میں پنجابی غزل کے پہلے شاعر ہونے کا اعزاز حاصل ہے
سید تنویر بخاری کے پہلے غزل مجموعہ ” ولکنیاں ” سے پہلے 1903ء میں “دیوان کشتہ” کے نام سے شائع ہوا تھا جو میاں مولا بخش کشتہ کی تخلیق تھی ۔اس طرح “ولکنیاں” پنجابی غزلوں کا دوسرا مجموعہ ہے جو 1962ء میں شائع ہوا تھا۔
۔۔۔
زندگی بھر ان کا اندازِ فکر ہمیشہ تعمیری رہا، کسی شخص کی تخریب سے ان کا کوئی واسطہ نہ رہا ۔یہی سید تنویر بخاری کی ہر دلعزیزی کا سبب رہا اور یہی وجہ ہے کہ اس کا شگفتہ اسلوبِ سخن ہی ان کی ادبی پہچان بن گیا۔قدرت ِکاملہ نے زندگی بھر اسے قناعت اور استغنا کی دولت سے مالا مال کیے رکھا۔اس لیے زر پرستوں اور ہوس ِ جاہ و منصب کے روگ میں مبتلا بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے ،چڑھتے سورج کی پرستش کرنے والے ابن الوقت اور طوطا چشم افراد سے انہوں نے کوئی تعلق نہ رکھا۔ کُوڑے کے ہر عفونت زدہ ڈھیرسے جاہ و منصب اور مفادات و مراعات کے استخواں نوچنے اوربھنبھوڑنے والے خارش زدہ سگان راہ سے اُسے شدید نفرت ہے ۔ درِ کسریٰ پر صدا کرنا اس کے ادبی مسلک کے خلاف ہے ۔ فن کار کی انا اورخود داری کا بھرم اس نے زندگی بھر قائم رکھا۔ ان کی تخلیقی تحریریں ایک شانِ استغنا اور بے ساختہ پن کی مظہر ہیں۔ایک حساس اور دردمند تخلیق کارکی حیثیت سے تنویر بخاری نے انسانیت کے وقار ، سر بلندی اور عزت و تکریم کو ہمیشہ ملحوظ رکھا ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دُکھی انسانیت کو درپیش مسائل کا احساس اور سارے جہاں کا درد ان کے دل میں سما گیا ہے ۔انسانیت کی توہین ،تذلیل ،تضحیک اور بے توقیری کرنے والے درندوں سے اُنہیں شدید نفرت رہی ۔ان کا خیال تھا کہ ظلم سہہ کر اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ کرنا ایک اہانت آمیز اور منافقانہ طرز عمل ہے ۔اس قسم کی بزدلی سے ظالم کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔حریت ِ ضمیر سے جینے کے لیے اسوہء شبیرؑ کو پیشِ نظر ر کھنے والے حریت فکر کے اس مجاہد نے تیشہء حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے ۔انہوں نے فسطائی استبداد کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے ہوائے جور و ستم میں بھی شمعِ وفا کو فروزاں رکھا اور جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا۔ بصارت پر پہرہ بٹھانے والوں ،سماعت پر قدغن لگانے والوں ،لب اظہار پر تالے لگانے والوں اور متاع ِ لوح و قلم چھین لینے والوں پر انہوں نے واضح کر دیا کہ اُمیدوں کی فصل غارت کرنے اور تمناؤں کی حسین بستیاں تاراج کرنے کے بعد مظلوموں کے دلوں پر راج کرنے کا ان کا خواب کبھی شرمندہء تعبیر نہیں ہو سکتا۔ معاشرتی زندگی میں خزاں کے سیکڑوں مناظر نے ان کی روح کو زخم زخم اور دل کو کرچی کرچی کر دیا۔
ممتاز خاکہ نگار ارشد میر اپنے اک خاکہ جیہڑا
“رچناب ” روزنامہ مغربی پاکستان دے ہفتہ وار پنجابی ایڈیشن وچ 13/ دسمبر 1981ء نوں چھپیا سی ۔۔۔اوہدے وچ تنویر بخاری صاحب بارے خاکہ لکھدے ہوۓ آکھدے نیں” …………
” پیارے تنویر بخاری نال میری ویہاں پنجیاں ورھیاں دی صاحب سلامت اے ۔۔۔۔میری اینہاں بارے جیہڑی پہلے دیہاڑے رائے سی ،اوہدے تے میں اج تیکر ٹھیکری پہرہ دے ریہاں آں کہ ایہہ اک جماندرو شاعر اے ۔۔۔تے اج اوہناں پنجابی شاعراں وچ ایناں دا شمار ہندا اے جنہاں نوں پوٹیاں تے گنیا جا سکدا اے ۔۔۔۔۔وچلی گل منو تے میں ایہنوں انگلاں تے گنن ولوں گھٹ نہ کراں ۔۔۔۔پر تہانوں پتا اے پنجے انگلاں برابر نہیں ہندیاں ،۔۔۔ایہہ گل دس پا کے دوجیاں دیاں انگلاں تے میں کیوں پیا نچاں ۔۔تے نالے راہ جاندیاں اپنا مکو ٹھپاندا پھراں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سجنو ! جان اے تے جہان اے ۔۔۔عزتاں شرماں رکھن والا خدا اے ،پر آپوں وی کجھ خیال رکھنا چاہیدا اے ۔۔ہاں تے گل تنویر بخاری دی شاعری بارے چھوہی بیٹھا ساں ۔۔۔میرا ایمان اے کہ ہر شے چھڈ سکدا اے ، جیویں کدی پنڈ پنڈ چھڈیا سا سو ۔۔۔داڑھی چھڈی ہوئی سو ، ۔۔۔پر ایہہ شعر لکھنے نہیں چھڈ سکدا ۔۔۔۔۔۔تنویر ہوری ساری حیاتی مستی وچ رہے نیں ۔۔اک دور وچ جدوں ایناں نے پٹے رکھے ہندے سن ۔۔انج لگدا سی جیویں ایناں دی جت ای جت اے ۔۔ست رت دی کوئی شے اصلوں ہے ای نہیں ۔۔۔سگوں میں ایہنوں تنویر نہیں ” تن دا ویر ” ای کہندا ہندا ساں ۔۔۔اوس ویلے ایہہ وی مشہور سی کہ لال ہنیری آون تے ایہدے اتے گھر والے ککڑ ڈکن والا ٹوکرا رکھ دیندے سن ۔۔یا فیر چھٹاکی دا وٹہ ٹکا دیندے سن ۔۔کہ کدھرے اڈ پڈ ای نہ جاوے ۔۔۔۔۔اک واری بھل بھلیکھے پاؤ دا وٹہ کاہلی نال رکھ بیٹھے تے بھرا ہوراں دا اندر دا ساہ اندر تے باہر دا ساہ رہ گیا ۔۔۔دم برابر ہون لگا تے کسے ویلے دا دتا ہویا کم آ گیا ۔۔۔ایتھے صحت مند تنویر بخاری ہوراں دی ادبی کمزوری دسنی خورے ضروری ہووے کہ اوہ ہائیں مائیں اخباری اشتہاری فنکاراں نوں وی اوہناں دے اصل مقام توں اگانہہ اک کرد وی پٹ کے نہیں جان دیندا ۔۔۔۔آپوں ناں نمود دا قائل نہیں ۔۔۔ایس لئی پیسے دے زور یاں ہک دے زور تے اچیاں ہواواں وچ اڑن والیاں نوں کسے مل دی منگن لئی تیار نہیں ہندا ۔۔۔سگوں موقع بنے تے کھچ لان توں وی نہیں ولاندا ۔۔۔
اوہنے آپوں رت سکا کے تے قلم گھسا کے دور دراڈے دے اک پنڈ وچ رہ کے اپنے فن دا لوہا منوایا اے تے ایہہ کوئی چھوٹی موٹی گل نہیں ، اوہ کالماں دیاں وساکھیاں تے انجمناں دیاں ٹھمنیاں توں بے نیاز اے ۔۔۔ایہو وجہ اے کہ نہ ای اوہ اج تیکر کسے کالم نویس دا جھولی چک بنیا اے تے نہ اوہنے کالم لکھن لئی کدے بھج دوڑ کیتی اے۔ ۔کیوں جے اوہ ہن کالم تے ففتھ کالم وچ سوتر جیہا ای فرق سمجھدا اے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اوہ ناں دا ای فقیر نہیں سگوں فعلوں عملوں وی فقیر منش اے تے دو ای دیہاڑے جمن پاروں ہر ویلے قلم دے دیوے بال کے دوجیاں نوں رشنائی دین دا ای سوچدا رہندا اے نالے اوہ ایہنوں وی جھوک میرے مولا والی ای سمجھدا اے تے رب دا شکر ادا کردا اے کہ جھوک دی تھاں ادبی جھوک والے پلڑے وچ نہیں پے گیا ۔۔۔خورے ایس لئی اوہنے شاعری دیاں ساریاں صنفاں تے لکھیا اے پر جھوک والی صنف ول گوہ نہیں کیتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تنویر بخاری دا کہڑا کہڑا پاسا ٹھلیے ، اوہ اپنی ذات وچ اک ادارہ نہیں سگوں ” دارہ ” نیں ۔۔۔” دارہ ” جتھے اک دوجے دا دکھ سکھ ڈھڈوں ونڈ یا جاندا اے ،جتھے گٹا جاندا اے ،کھچیا نہیں ، ملیا جاندا اے ۔۔گوڈے وچ بھن دی تھاں سٹ شٹ لگن تے ۔۔۔۔۔۔۔۔سیک کیتا جاندا اے ۔۔جیکر کوئی گوڈیاں توں کاں اڑان جوگا وی نہ ہووے تے اوہدے سر احسان چاڑھن توں بناں کاں وی اڑا ے جاندے نیں ۔۔پنڈ تے پینڈو وسنیکاں لئی خیر منگی جاندی اے ۔۔۔۔۔کن اتے ہتھ رکھ کے ہیر رانجھا یاں یوسف زلیخا میل دے قصیاں دے چار مٹھے بول راگ نال گائے جاندے نیں” ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مقصود ناصر چودھری ہوریں اک منے ہوۓ کھوج کار تے پارکھ ہو گزرے نیں ۔۔۔اوہ اپنے اک مضمون ” تنویر بخاری دے کجھ روپ ” وچ لکھدے نیں ۔۔۔
” تنویر بخاری نے پنجابی شاعری دا اک دبستان بنا دین لئی اپنیاں ساریاں صلاحیتاں صرف کر دتیاں نیں ۔۔ایس درویش صفت شاعر دے سارے روپ گنوائیے تے شاید ایہدے نال پورا انصاف ساتھوں نہ ہو سکے ۔۔۔۔پنجابی ادب دے ایس آگو نے جس طراں پنجابی شاعری نوں نواں انداز ، نواں ڈھنگ تے نواں روپ دتا ۔۔ تنویر بخاری پنجابی (ماں بولی ) دی جند تے جان اے ۔۔حقہ ، چائے تے پان اوہدے ساہمنے ہون تے فیر اوہدا قلم رک دا نہیں ۔۔ اک ای نشست وچ سینکڑیاں شعر آکھ کے دم لینا اینہاں دا ای کم اے ۔۔تنویر بخاری نوں صرف اپنے پنڈ دیاں گلیاں ،چھپڑ ، ڈھور ڈنگراں ، کھیتاں کھلیاناں تے کچے کوٹھے کندھاں نال ای پیار نہیں ، اوہ تے ایس وطن دے اک اک ذرے تے اک اک چیز نال پیار کردا اے ۔۔اوہ پاک وطن چوں ہر برائی تے جرم مکاؤن دا حامی اے ۔۔””
جناب تنویر بخاری ہوراں مزاحمتی شاعری وی چوکھی کیتی ۔۔اوہناں دے خیال موجب شاعری اک رزسٹینٹ ( Resistance) ہندی اے ۔۔ہر ادیب ، شاعر تے قلمکار اپنی رہتل دی مشینری وچ اک ” رزسسٹر ” (Resister)دا کم کردا اے ۔۔جہنوں اسیں Resistant وی آکھ سکنے اں ۔۔۔
تنویر بخاری ہوریں دا اک “خانقاہی نظام” دے نمائندہ نیں ۔۔یعنی اپنے مرشد دے تکیے دے اک مجاور نیں ۔۔۔فقیر ہون دے ناطے ایہناں دا لوکائی دے دکھ درد نال تعلق اے ۔۔لوکائی دی پیڑ ایہناں دی پیڑ اے ۔۔۔۔ایہ فقیر ضرور نیں ، پر تکیے وچ اکھاں میٹ کے اپنے آپ وچ گٹوں ہو کے بیٹھن والے ملنگ نہیں ۔۔۔جہنوں اپنی ذات توں اڈ ہور کوئی فکر ای نہیں ۔۔۔۔۔۔حجرے دی باری وچوں ایہناں نوں باہرلیاں چیکاں وی سن دیاں نیں تے خانقاہ وچ وچھی ہوئی پھوڑی اتے بیٹھے ایہ کلاشنکوف والیاں دی ٹھاہ ٹھاہ وی سن دے نیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایہناں دا سیاست نال کوئی واسطہ نہیں رہیا ۔۔تے نہ ہی ایہ کسے پارٹی یاں دھڑے نال ہمدردی رکھدے نیں ۔۔۔۔۔۔۔پر سیاست ایہناں اتے تے ایہناں ورگے لوکاں تے وی اثر پوندی اے ۔۔۔۔۔۔۔۔ایہ سیاست دی ککھوں پھٹن والے ظلم تے دھکے شاہی ہتھوں چیکدے نیں ۔۔۔۔ایہناں دے آل دوالے تے ملک وچ سیاست جہڑا چن چڑھا رہی ہے ۔۔ایہ ویکھ کے ایہ اکھاں نہیں میٹ لیندے ۔۔۔۔۔۔۔کڑیال کلاں توں لے کے کشمیر ، بوسنیا ، فلسطین ، افریقہ ، تے ہور جتھے وی ظلم ہو رہیا اے ۔۔ایہ اوہنوں محسوس کر دے نیں ۔۔۔۔۔۔۔دنیا وچ ہون والے ظلم بارے ایہ اپنی شاعری وچ کھل کے احتجاج کر دے وکھالی دیندے نیں ۔۔۔۔۔ایہناں دیاں غزلاں وچ ایہ احتجاج صاف طور تے نظر آؤندا اے ۔۔۔۔ایہناں جنرل ایوب خان ،بھٹو ، ضیاء ،نواز شریف تے بے نظیر بھٹو دا زمانہ ویکھیا اے ۔۔۔ ایناں نےکھل کے مزاحمتی شاعری کیتی اے”